صبح سویرے بادِ نسیم کے تازہ ٹھنڈے خوشگوار جھونکوں نے
میرا شاندار استقبال کیا آسمان کی طرف دیکھا تو حیرت دو چند ہو گئی کہ
بوڑھا آسمان سیاہ سر مئی بادلوں سے ڈھک چکا تھا سر مئی بادلوں کے غول در
غول آسمان کی وسعتوں میں آنکھ مچولی میں مصروف تھے ہوا کے تیز جھونکوں پر
آوارہ بادلوں کے ٹکڑے دھمال کرتے نظر آرہے تھے ساون نے اپنی آمد کا بگل بجا
دیا تھا رات کی بارش کی وجہ سے حبس کی جگہ نشاط انگیز ٹھنڈے ہوا کے جھونکوں
نے لے لی تھی برسات کی وجہ سے ہوا میں گردو غبار نہ تھی تاز ہ ٹھنڈی زیست
آفریں جھونکوں کو میں اپنے پھیپھڑوں میں اترانے لگا آسمان کی طرف منہ کر کے
آنکھیں بند کر کے لمبے لمبے گہرے سانس سے اپنے گرمی حبس سے جھلسے جسم و جان
کو فرحت کا کیف انگیز سرور بخشنے لگا بارش رک چکی تھی لیکن تیز جھونکوں سے
جامن مالٹے مسمی کے درختوں کے پتوں پر موجود بارش کے ٹھنڈے موتی میرے چہرے
کو چومنے لگے تو میری نظراِن پھل دار درختوں پر پڑی مالٹے اور مسمی کے درخت
پھلوں سے لد چکے تھے بلکہ مسمی اور مالٹوں کے بوجھ سے شاخیں نیچے کو جھک
آئی تھیں مو سم برسات نے درختوں کو عجیب تازگی ہریالی عطا کر دی تھی نیچے
دیکھا تو گلاب کے ٹہنیوں پر گلابی سرخ شگوفے پھوٹ رہے تھے بعض پودوں پر
مکمل کھلے سرخ گلاب مسکرا کر ساون رُت کا سواگت کر رہے تھے تازہ مسمی
مالٹوں کے ساتھ گلاب کے پھولوں نے ماحول کو عطر بیز سا بنا دیا تھا میں
فطرت بارش آسمان پر بادلوں کے آوارہ غول تازہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مشام
جاں کو معطر کر نے لگا تو اچانک نظر جامن کے دو جوان درختوں پر پڑی جو قد و
قامت میں باقی درختوں کو پیچھے چھوڑ گئے تھے اوپر آسمان کی بلندیوں کی طرف
نکل گئے تھے جامن کے پتے بارش سے دھل کر رقص کر رہے تھے اور جامن کے جوان
درخت مست ہاتھیوں کی طرح ہوا کے جھونکوں پر جھوم رہے تھے اتنا قد ہونے کے
باوجود جامن کے درختوں پر پھل نہیں آیا تھا مالی کے بقول اگلے سال اِن
پرپہلا پھل آئے گا میں انتظار میں تھا کہ کب جامن کے درختوں پر پہلاپھل آئے
گا اور میں اُن سے لطف اندوز ہو نگا ساتھ ہی میٹھے لذیذ جامنوں کی طلب ہونے
لگی پتہ نہیں قبولیت کی کونسی گھڑی تھی جس وقت جامنوں کی طلب نے انگڑائی لی
عین اُسی وقت مین گیٹ پر دستک ہوئی میں قریب ہی تھا دروازہ کھولا تو جمیل
احمد اپنے پانچ سالہ ننھے بیٹے کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا حیران کن منظر
یہ تھا چھوٹی سی ٹوکری اٹھائے کھڑا تھا جو صحت مند موٹے تازے کالے سیاہ چمک
دار جامنوں سے لبالب بھری ہوئی تھی جامنوں کو دیکھ کر میں سر مئی بادلوں سے
ڈھکے آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اﷲ میاں تیری کس کس نعمت کا ہم شکریہ
ادا کریں باپ بیٹے کے چہروں پر عقیدت و احترام کے چراغ روشن تھے جمیل عقیدت
سے لبریز آواز میں بولا سرکار جامن تیار ہو گئے تھے ماں جی اور آپ کے مرید
ننھے فرید کی خواہش اور ضد تھی کہ جا کر باباجی کو دے کر آئیں لہذا ہم
دونوں باپ بیٹا جامن لے کر حاضر ہیں میں قدرت کی دستگیری کا ریگری پر حیران
پیکر تشکر بنا دونوں کو اندر لایا اور کرسیوں پر بیٹھا دیا ننھے فرید نے
جامنوں کی ٹوکری سر سے اتار کر سامنے پڑی میز پر رکھی اُس کا مشن مکمل ہو
چکا تھا وہ فاتحانہ نظروں سے اپنے باپ اور جامنوں کو دیکھ رہا تھا میں نے
اپنے بازو کھول دئیے ننھا فرید دوڑ کر میرے سینے میں سما گیا جمیل کے چہرے
پر زندگی کی لالی اور آنکھوں میں جوانی کی چمک دیکھ کر میں اندر تک نہال ہو
گیا مجھے چند سال پہلے کا جمیل اور اِس کی بوڑھی ماں یاد آگئی جمیل ماں کا
اکلوتا بیٹا دو بہنوں کے ساتھ باپ بچپن میں ہی انتقال کر گیا تھا غریب ماں
لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بچوں کو پالتی تھی کسی زمیندار کے ڈیرے پر
اوباش زمیندار کے ذاتی ملازموں میں شامل تھی جمیل جوان ہوا تو باپ کا سایا
سر پر نہ ہو نے کی وجہ سے غلط صحبت میں بیٹھ کر نشہ کرنے لگا پھر نشے کی
دلدل میں اِس قدر ڈوبتا گیا کہ ہر قسم کا نشہ کرنے لگا ماں سارا دن
زمینداروں کی خدمت میں مصروف باپ تھا نہیں لہذا جمیل کو سنبھالنے روکنے
والا کوئی نہ تھا نشے کی لت اِس قدر پڑی کہ اچھے برے کی تمیز بھی کھو بیٹھا
گھر میں پیسے تو تھے نہیں جو گندم چاول کچھ بھی ملتا چوری کر کے لے جاتا
بہنوں کے بنائے جہیز تک کو کھا گیا کسی دوسرے کی چوری کی تو پولیس پکڑ کر
لے گئی ماں کی مامتا تڑپ تڑپ گئی جن کی چوری کی اُن کے پاؤں پکڑ کر معافی
مانگی تو جمیل واپس گھر آیا اب ماں نے جمیل کی بحالی صحت کے لیے بابوں
درباروں پر جانا شروع کر دیا پیسے پاس نہیں تھے لوگ بار بار سمجھاتے کہ اِس
کے خون میں نشہ دوڑتا ہے جب تک کسی بحالی سینٹر پر اِس کو تین ماہ کے لیے
داخل نہیں کراؤ گی یہ ٹھیک نہیں ہو گا لیکن بحالی سینٹر کے لیے بھاری رقم
کا انتظام کہاں سے کر تی بیچاری ماں درباروں مزاروں پر ماتھا رگڑنے لگی کسی
پیر کے پاس جاتی تو وہ ہزاروں روپوں کی ڈیمانڈ کر تا اِس بھاگ دوڑ میں کسی
نے میرے بارے میں بتایا کہ میں پیسے نہیں لیتا تو میرے پاس آنا شروع کر دیا
مجھے چند ملاقاتوں میں ہی احساس ہو گیا تھا کہ لڑکا عادی نشے باز ہے اِس کی
رگوں میں خون کی جگہ نشہ دوڑ رہا ہے اِس کو کسی بحالی سنٹر پر جمع کرانا ہو
گا ورنہ یہ وظیفوں سے ٹھیک نہیں ہو گا ساتھ کسی سے مجھے یہ بھی پتہ چل چکا
تھا کہ بیچاری بیوہ غریب بحالی سنٹر کے اخراجات نہیں اٹھا سکتی لہذا میں نے
اپنے ایک مخیر دوست سے رابطہ کیا اُس کو بیچاری غریب ماں کا مسئلہ بتایا تو
وہ فوری طور پر مدد کے لیے تیار ہو گیا لہذا ہم نے جمیل کو تین ماہ کے تین
ماہ کے لیے بحالی سنٹر میں جمع کرا دیا ڈاکٹروں نے ہمیں پوری امید دلا ئی
کہ تین ماہ بعد جمیل بلکل ٹھیک ہو گا جب تین ماہ گزرے تو جمیل کی فوری شادی
کر دی گئی اور اِس خاندان کو وہاں سے اٹھا کر دور کسی زمیندار کے ڈیرے پر
چھوڑ دیا تاکہ ماحول بد ل جائے پرانے نشیؤں سے ملاقات نہ ہو اﷲ کی مدد اور
ماں کی دعائیں رنگ لائیں شادی کے بعد جمیل ازدواجی زندگی کی رنگینوں میں
اِس قدر کھویا کہ نشہ کرنا بھول گیا جمیل کو ایک چنگ چی لے دی گئی دن بھر
جمیل مزدوری کر تا رات کو زمیندار کے ڈیرے پر اپنے خاندان کے ساتھ سو جاتا
ایک سال بعد بیٹا ہوا تو میرے کہنے پر بچے کا نام غلام فرید رکھا گیا
کیونکہ جمیل کا خاندان صدیوں سے بابا فرید شہنشاہ پاک پتن ؒ کے غلاموں میں
شامل ہے پہلے دن ہی جمیل اور اِس کی ماں نے اعلان کیا غلام فرید آپ کا مرید
ہے اب یہ بچہ پانچ سال کا ہو چکا ہے اِس کے گھر میں جامن امرود کا درخت اور
بہت ساری دیسی مرغیاں ہیں جب بھی جامن امرود یا دیسی انڈے دستیاب ہوتے ننھا
فرید اپنے مرشد‘ میرے پاس سوغات لے کر حاضر ہو جاتا ہے آج بھی جامن لے کر
میرے سامنے بیٹھا تھا میں اندر گیا چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بھرا شیشے کا جار
اُس میں سو سو کے نئے نوٹ لا کر ننھے فرید کو پیش کئے نئے نوٹ اور ٹوفیاں
دیکھ کر ننھے فرید کی آنکھیں روشن ہو گئیں بہت ساری باتوں کے بعد جب باپ
بیٹا واپس جانے لگے تو جمیل فرید سے بولا باباجی کو سلام کرو تو ننھا فرید
مُجھ سے لپٹ گیا میرے گھٹنوں کو چھو امیرے ہاتھ کو چوما اپنی آنکھیں اور
ہونٹ میرے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیا اور میں نے فرط جذبات سے اپنے ہونٹ ننھے
فرید کے سر پر رکھ دئیے ۔
|