قوم آج وطن ِ عزیز ملک ِ خدادا د
پاکستان کا65واں یوم آزادی منارہی ہے۔آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اوراس کی
قدر وقیمت ان قوموں سے پوچھئے جن کی زندگیاں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی
ہوئی ہوں ۔لیکن ہمارے ہاں جس طرح سے لفظ ”آزادی“ کاغلط استعمال کیاگیاہے
شاید ایسا دنیاکے کسی معاشرے میں نہیں ہوا۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سے
آزادی کے نام پر ہمارے ساتھ دھوکہ کیاگیاہے ایسادھوکہ بھی دنیاکی کسی قوم
سے نہیں کیاگیا۔انگریز شاطر وچالاک قوم ہے ۔اُس نے بڑی شاطرانہ چال چلتے
ہوئے بظاہر تو ہمیں آزاد ی دے دی ۔مگر آج 64سال کاعرصہ گزرنے کے بعد اگر
پیچھے مڑ کردیکھیں تو”آزادی“ ایک بھیانک خواب کی طرح نظر آئے گی ۔وہ ایسے
کہ انگریز نے یہ زمین توخالی کردی جوپاکستان کہلائی لیکن انگریز کی حکمرانی
باقی رہی ۔کچھ آئی سی ایس افسر جوبرطانوی سول سروس کے نمائندے تھے ، اوروہ
رﺅساء،جاگیر دار اوراونچے لوگ جنہیں انگریز نے اپنی حکومت مستحکم کرنے کے
لئے پالاپوسا اورتیار کیاتھا،انگریزوں نے یہ نیاملک ان کے سپرد کردیا۔یہی
وہ طبقہ ہے جو ”اشرافیہ“ کے نام سے جانااورپہچاناجاتاہے ۔پاکستان کے ان نئے
حکمرانوں کو پاکستانی قوم نے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرلیااوران غاصبوں
کوانگریز کاجانشین تسلیم کرلیا۔ان سب لوگوں کااس نئے ملک کی تعمیر کے بارے
کوئی نظریہ نہیں تھا۔اگرکوئی مبہم سانظریہ پاکستان تھابھی تووہ دانستہ طور
پر اوجھل کردیاگیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ کی صرف ایک تقریر
کایہ جملہ یاد رہاکہ” اب نہ کوئی یہاں مسلمان ہے نہ ہندوہے نہ سکھ ہے ،سبھی
ا س ملک کے شہری اوربرابر کے حقوق کے مالک ہیں“ ۔جب کہ پاکستان، اسلام اور
مسلمانوں کے بارے میں قائد کی ان سینکڑوں تقریروں کویکسر بھلادیاگیاجو ان
کی پالیسی کی صحیح طور پر ترجمانی اوروضاحت کرتی تھیں۔تحریک پاکستان کے
دوران اسلام کانعرہ بلند ہوتارہااورپاکستان کامطلب” لا الہ الا اللہ“
بتایاجاتارہا۔لیکن 14اگست 1947،یوم آزادی کے بعد جب قائد کو زہر دے کر اپنے
مقصد میں کامیابی حاصل کرلی گئی ،تواس طبقہ نے قائد کے سینکڑوں ہزاروں
فرمودات ،تقاریر اوران کے اصل مشن کویکسر فراموش کردیا۔وہ استحصالی طبقہ
پوری قوم کویہ باور کرانے میںمگن رہااورمسلسل مصروف ہے کہ پاکستان ایک
سیکولر سٹیٹ کے طور پر قائم کیاگیاتھااورقائد کاویژن بھی یہی تھا۔بلکہ چند”
جادوگروں“ نے توحد کردی وہ یہ کہنے لگے کہ قائد اعظم تحریک پاکستان کے وقت
ان اسلامی نعروں کو سن رہے تھے لیکن وہ اس لیے خاموش رہے اوران لوگوں کومنع
نہیں کیاکہ ان نعروں کی وجہ سے پوری مسلم قوم متحد تھی ، اورچونکہ قائد
کواپنی منزل قریب نظر آرہی تھی اس لئے وہ چپ رہے۔حیرت ہے ان مفکرین پر جو
درپردہ قائد پر منافقت کاالزام لگارہے ہیں۔ حالانکہ محمد علی جناح ؒتوصاف
گو اورمنافقت ومصلحتوں سے پاک لیڈر تھا اوراسی لےے قائد اعظم کہلایا۔اگر
واقعی قائد پاکستان کوسیکولر سٹیٹ بناناچاہتے تھے تولازمی طورپر وہ اس
کابرملااعلان کرتے ۔لیکن انہوںنے ایسانہیں کیا۔بلکہ انہوں نے ایک بار نہیں
کئی بار اس عزم کااظہارکیاکہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی ۔لیکن
انگریز کے کاسہ لیس جاگیردار اوربیوروکریٹس ،جووقتاً فوقتاً انداز بدل بدل
کر اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بنے رہے ،قائد کے مشن کوپایہ تکمیل تک
پہنچانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت اشرافیہ نے اس
ملک کو اسلامی فلاحی ریاست نہ بننے دیا۔قائد کے وہ ساتھی جو تحریک پاکستان
میں قائد کے دست راست تھے ان سب کو ایک ایک کرکے ٹھکانے لگادیاگیا۔ایک سازش
کے تحت مولوی کوپاکستان کامخالف قرار دے کر عوام اورمولوی میں دوریاں
پیداکردی گئیں ۔حالانکہ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ قیام پاکستان کے
بعد کراچی اورڈھاکہ میں سرکاری طور پر قومی پرچم لہرانے کیلئے قائد نے
دومولویوں سے ہی استدعا کی تھی ۔مولاناشبیر احمدعثمانی ؒاورمولاناظفر
احمدعثمانیؒ نے علی الترتیب کراچی اورڈھاکہ میں قومی پرچم لہرایا۔مگر
انگریز کے تربیت یافتہ طبقہ اشرافیہ نے مولوی کوپاکستان کامخالف قرار دے کر
راستہ سے ہٹادیا۔اسی لیے آج جس طرح کاپاکستان ہمیں دستیاب ہے اسے دیکھ کر
کوئی نہیں کہہ سکتاکہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی تودور کی بات اسے
آزاد اورخود مختار ملک بھی نہیں کہاجاسکتا۔آلو پیاز کی قیمتوں کے تعین سے
لے کر خارجہ ،داخلہ اوردفاع کی پالیسیاں تشکیل دینے تک ،ملکی کرنسی ڈی
ویلیو ٹ کرنے سے لے کر ملکی سیاسی جماعتوںسے مفاہمت کرنے تک ،کوئی بھی کام
ہم اپنی مرضی سے کرنے سے قاصر ہیں ۔حدتو یہ ہے کہ عدالتوں سے سزایافتہ
افراد کومعافی دے کر ملک کی باگ ڈوران کے ہاتھوںمیں پکڑادی جاتی ہے۔انگریز
کے جانشین ملک میںحکومت کرتے ہیں ۔غیروں کی مرضی سے پالیسیاں تشکیل دیتے
ہیں ۔مال کماکر باہر منتقل کردیتے ہیں ۔نام نہا دا پوزیشن عوام کے دکھاوے
کیلئے واویلاکرتی ہے ،شور مچاتی ہے لُوٹنے والے طے شدہ وقت تک اپناکام جاری
رکھتے ہیں اورجب خفیہ معاہدے کے مطابق ان کاوقت پوراہوجاتاہے تووہ چلتے
بنتے ہیں ۔پھر باری سابقہ اپوزیشن کی آجاتی ہے ۔ صرف چہرے بدلتے ہیں
اورباقی وہی سابقہ کہانی دہرائی جاتی ہے۔کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جانے
والوں کے ساتھ بھی تھے اورآنے والوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں ۔اس طرح میوزیکل
چیئر کاکھیل جاری ہے اورپچھلے 64سال سے مسلسل جاری ہے۔آزادی کی نعمت سے
عوام محروم ہیں ،بلکہ عوام کو وہ سہولیات بھی میسر نہیں جو آزادی سے قبل
دستیاب تھیں۔آزادی سے قبل میرٹ تھااوراب کرپشن ہے،آزاد ی سے قبل خوش حالی
تھی اوراب فاقے ہیں ،آزادی سے قبل جان ومال کا تحفظ تھا اوراب دن دیہاڑے
ڈاکے پڑتے ہیں اورٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے ۔آزادی سے قبل عزتیں محفوظ تھیں اوراب
حوا کی بیٹیاں سرعام رسواہوتی ہیں۔آزادی سے قبل یہ قوم آزادی کی جنگ لڑتی
تھی اوراب غیروں کی بے مقصد جنگ لڑی جارہی ہے۔آزادی سے قبل جو لوگ انگریز
کے کتے نہلاتے تھے ،آج ان کے کتے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں آرام کرتے ہیں
اورعوام کیلئے بجلی نہیں ہے۔ آزاد ی سے قبل جو لوگ انگریز کے گھوڑوں کی
رکھوالی کرتے تھے آج ا ن کے گھوڑے مربعے کھاتے ہیں اورغریب عوام دووقت کی
روٹی کیلئے ترستے ہیں ۔انگریز کاجھوٹا کھانے والے اپنے علاج کیلئے یورپ
اورامریکہ عازم سفر ہوتے ہیں اورغریب کواصلی ڈسپرین بھی دستیاب
نہیں۔اشرافیہ کے بچے بیرون ممالک میں زیر تعلیم ہیں اورعوام مہنگائی سے تنگ
آئے بچے فروخت کرنے پرمجبورہیں۔کوئی اپنے خون کی بوتل بیچ رہاہے اورکوئی
گردہ برائے فروخت کااعلان کرتادکھائی دیتاہے۔پوراملک” جس کی لاٹھی ،اس کی
بھینس “کے قانون کے تحت چل رہاہے ۔جب کبھی ملک کوضرورت پڑتی ہے توخون عوام
دیتے ہیں اور مفاد اشرافیہ سمیٹتی ہے ۔اسی چکر بازی میں65واں یوم آزادی آن
پہنچاہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے” آزادی مبارک“ کہوں ۔عوام کویااشرافیہ
کو! |