پیپلزپارٹی کے خلاف ایک ہفتہ میں
سندھ کے اندر دوسری کامیاب ہڑتال کیا پیغام دے رہی ہے ۔کیا دیہی سندھ کوئی
سیاسی کروٹ بدل رہا ہے ۔40 برسوں سے پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ رہنے وا لا
صوبہ کیا پارٹی قیادت کی بھٹو سے زرداری خاندان میں منتقلی کے بعد اس کے
ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوگیا ہے؟ اس پر اعتماد کھونے لگا ہے ؟کیا وہ سندھ
کارڈ اب کمزور ہونے لگا ہے جس کے بل بوتے پر پیپلزپارٹی تیسری بار اقتدار
میں ہے؟کیا کمشنری نظام کے خاتمے سے سندھ میں پیدا ہوانے والا ردعمل عارضی
ہے یا یہ پیپلزپارٹی کا آسیب بن کر پیچھا کرتا رہے گا؟ان سوالوں کے سو فیصد
درست جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ ایم کیو ایم کے
دباؤ پر کمشنری نظام ختم اور کراچی و حیدرآبا د کیلئے الگ انتظام کا تاثر
قائم کرکے پی پی قیادت نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ۔ اب اس زخم سے کتنا
خون رستا ہے۔ اسے پی پی کب بند کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ وقت ہی بتائے
گا۔سندھ کے لوگ پیپلزپارٹی کو اس لئے ووٹ دیتے تھے کہ انہیں یقین ہوتا
تھاکہ پارٹی ان کے مفادات کا تحفظ کرے گی ۔لیکن کمشنری نظام پر یوٹرن نے اس
بھروسہ کو نقصان پہنچایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جس دیہی سندھ میں اس کے خلاف
بات کرنا محال ہوتا تھا وہاں اب غدار غدار کے نعرے لگ رہے ہیں ۔دیواریں
ایسے نعروں سے بھری نظر آرہی ہیں۔ وہ دیہی سندھ جس نے پی پی کے حکومت میں
ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر 40 برسوں تک اپنی سیاسی کنجی اسی کے ہاتھ میں
دئیے رکھی آج اس قدر ناراض دکھائی دے رہا ہے کہ لوگ ان رہنماؤں کے گھروں پر
توے لٹکا رہے ہیں جنہیں وہ سر وں پر بٹھاتے تھے۔ اور پھر بات پی پی کے
سیاسی نقصان تک ہی محدود نہیں ۔صوبے میں دیہی اور شہری لسانی خلیج بھی
بڑھتی نظرآرہی ہے۔
لگتا ہے پی پی قیادت ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھی ۔وہ یہ جان ہی
نہ سکی کہ دیہی سندھ 40 برسوں سے اگر بھٹو خاندان کا فدائی رہا ہے تو اس کی
وجہ وہاں پایا جانے والا سیاسی عدم تحفظ کا احساس ہے ۔ انہیں یہ خدشہ رہتا
ہے کہ وہ کہیں اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں تبدیل نہ کردیئے جائیں ۔انہیں ان
کے حصے کے وسائل سے محروم نہ کردیا جائے۔ کراچی، حیدرآباد میں مکمل اور ،میرپورخاص
اور سکھر جیسے شہروں میں ایم کیو ایم کے جزوی سیاسی کنٹرول نے انہیں اس
حوالے سے مزید حساس بنادیا ہے۔اسی حساسیت کی وجہ سے وہ پی پی کی سیاسی پناہ
میں آتے تھے۔ان کا یہی احساس پیپلزپارٹی کا سندھ کارڈ تھا ۔جسے وہ اقتدار
میں آنے اور اسے بچانے کیلئے کیش کراتی تھی۔پی پی کے اس سندھ کارڈ کو ختم
کرنے کیلئے اسٹیلشمنٹ سے لے کر سیاسی حریفوں تک نے بہت کوششیں کیں لیکن
چونکہ یہ کارڈ عوامی احساسات سے جڑا ہوا تھا اس لئے کامیابی نہ مل سکی ۔لیکن
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت نے غلط فیصلوں سے خود ہی
اس40 سالہ اثاثے کو داؤ پر لگادیا ہے ۔اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے
وہ اتنی آگے چلی گئی کہ اس نے اپنے گھر کی بھی پروا نہ کی۔ ویسے تو کہا
جاتا ہے کہ پی پی قیادت سیاسی چالیں چلنے میں بہت مہارت رکھتی ہے لیکن کم
از کم سندھ کی سیاسی بساط پر تو اس کی موجودہ چال الٹی پڑگئی ہے ۔اس نے چال
واپس نہ لی تو اس کا مات سے بچنا مشکل نظر آرہا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے
تھا کہ ایم کیوایم کو کھو نے سے تو زیادہ سے زیادہ ان کی حکومت کیلئے خطرہ
ہوسکتا ہے لیکن سندھی عوام کی حمایت سے وہ محروم ہوگئے تو ان کا سیاسی
مستقبل ہی تاریک ہوسکتا ہے۔
کمشنری نظام پر سرنڈر کرتے وقت یہ حقیقت بھی نظر انداز کی گئی کہ پارٹی کے
پاس اب بھٹویا بے نظیر جیسی کوئی کرشماتی شخصیت نہیں ہے ،لوگ جن کے دیوانے
ہوں اور ان کے ہر اقدام کو قبول کرلیں ۔پھر بھٹو خاندان کے ان دونوں
حکمرانوں کا سحر بھی ایسے ہی قائم نہیں ہوگیا تھا بلکہ انہوں نے دیہی سندھ
کے عوام میں اپنا اعتبار بھی قائم کیا تھا ۔ان کے مفادات کا تحفظ کیا تھا
۔لیکن موجودہ پی پی حکومت اپنے ساڑھے تین برسوں میں ایسا کوئی قابل ذکر کام
نہیں کرسکی جس سے سندھی ووٹرکا اس پر اعتماد بڑھے۔بے نظیر بھٹو کے قاتلوں
کو انجام تک پہنچانے کے سلسلے میں بھی کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس
معاملہ کا ذکر بھی اس وقت آتا ہے جب کسی بھٹو کی برسی یا سالگرہ کی تقریب
نوڈیرو میں ہورہی ہو ۔اس کے بعد اگلی برسی یا سالگرہ تک خاموشی چھاجاتی ہے۔
مقدمہ چلایا بھی جارہا تو ان لوگوں کے خلاف جنہیں پرویز مشرف ملوث قرار دے
گئے تھے حالاں کہ اب وہ خود اب اس کیس میں ملوث قرار پاچکے ہیں ۔جنہیں قاتل
لیگ کہا جاتا تھا انہیں اقتدار میںشامل کرکے سرکاری لیگ بنا دیا گیا ہے۔ اس
صورتحال میں ان لوگوں میں بے چینی ہونا فطری امر ہے جو اب بھی گڑھی خدابخش
میں دھاڑیں مار کر روتے ہیں ۔ دوسری طرف سیاسی محاز پر بھی حکومت کا زیادہ
وقت سندھ میں اتحادیوں کو منانے میں ہی گزرا ہے۔ اب ساڑھے تین برسوں کے بعد
پہلی بار کمشنری نظام اور حیدرآباد و کراچی کی پرانی حیثیت کی بحالی کی
صورت میں پارٹی نے کوئی ایسا قدم اٹھایا تھا جس سے دیہی سندھ میں اس کیلئے
حمایت کی نئی لہر پیدا ہوئی لیکن اسے واپس لے کر عوام کا اعتمادتوڑ دیا
گیا۔ اس فیصلے سے پی پی ووٹر کو یہ پیغام ملا کہ اس کی خواہشات کی کوئی
حیثیت نہیں ہے بلکہ پارٹی قیادت کیلئے اتحادیوں کی زیادہ اہمیت ہے۔
پارٹی اپنے اس فیصلے کی کوئی قابل قبول توجیہہ اپنے ووٹروں کے سامنے پیش
نہیں کرپارہی ۔ کہاجارہا ہے کہ سندھ کا مینڈیٹ پیپلزپارٹی کے پاس ہے ۔درست
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مینڈیٹ سندھ کے لوگوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے
دیا ہے یا پارٹی کے اتحادیوں کے۔ قوم پرستوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا
ہے کہ یہ اس وقت کہاں تھے جب مشرف دور میں کراچی میں سندھی طلبا کے داخلے
پر بھی پابندی لگائی گئی ۔حالاں کہ اس سوال کا جواب قوم پرستوں سے زیادہ پی
پی پر ہی قرض ہے کیونکہ اس دور میں بھی سندھی عوام کا مینڈیٹ پارٹی کے پاس
ہی تھا ۔صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی پیپلزپارٹی کا تھا ۔ پارٹی نے
اس وقت کیوں نہیں اس پر احتجاج کیا ۔ اس کا راستہ روکا۔پھر وہ یہ بھی بھول
جاتے ہیں کہ توقعات تو اپنوں سے ہوتی ہیں اور وہ پوری نہ ہوں تو غصہ اور
اشتعال بھی آتا ہے ۔مشرف سے تو سندھی عوام کو کوئی توقعات ہی نہیں تھیں ۔وہ
تو ان کا نمائندہ نہیں تھا ۔انہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ تو اسی لئے دیئے
تھے کہ وہ ان سارے اقدامات کو واپس کردے گی جو آمر نے اپنی اتحادی جماعت کو
خوش کرنے اور اس کا سیاسی اثر بڑھانے کیلئے اٹھائے تھے ۔اب اگرپیپلزپارٹی
بھی بجائے ان اقدامات کو واپس لینے کے ان پر مہر ثبت کرے گی تو لوگ ردعمل
ظاہر نہ کریں تو کیا کریں۔
ہڑتال پر ناراضگی اپنی جگہ درست۔جلاؤ گھیراو نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے
نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ یہ راستہ دکھایا کس نے
ہے ۔ معذرت کے ساتھ خود حکومت نے۔جب پی پی کے رہنما یہ کہتے ہیں کہ انہوں
نے کراچی میں امن کیلئے کمشنری نظام ختم کیا ہے تو وہ کیا پیغام دے رہے
ہوتے ہیں ۔یہی ناں کہ حکومت سے فیصلے منوانے ہیں تو امن خراب کرنے کی
صلاحیت پیدا کرو۔پھر کمشنری نظام ختم کرنے کیخلاف ہڑتال ناکام بنانے کیلئے
حکومت جس طرح متحرک ہوئی ۔گرفتاریاں کی گئیں اس نے ایک بار پھر حکومتی
روئیے میں تضاد کو ظاہر کیا ہے ۔ اب لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ یہی تحرک اس
وقت کیوں نہیں دکھایا گیا تھا جب کمشنری نظام کی بحالی کے خلاف احتجاج
ہورہا تھا ۔اس وقت انتظامی مشینری کو حرکت میں لانے کے بجائے اپیلوں اور
ٹیلیفون کالوں کا استعمال کیوں کیا جارہا تھا۔حکومتیں رٹ قائم کرکے چلتی
ہیں بلیک میل ہوکر نہیں ۔اب بھی وقت ہے ۔سندھ میں لسانی تقسیم کی جس آگ کی
تپش محسوس ہورہی ہے اسے دہکنے سے قبل ٹھنڈا کرنے کا انتظام کردیں ۔فیصلے
اصولوں پر کریں تاکہ لوگ انہیں قبول بھی کریں ۔یہ نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی
والے کراچی کو ایک ضلع بنادیا اور چالیس لاکھ آبادی والے حیدرآباد
کوچارحصوں میں تقسیم کردیا ۔ |