صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے
مالا مال ہے۔ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ خاص طور پر
گوادر کی بندر گاہ میں تو اتنا پوٹینشل ہے کہ وہ بلوچستان بلکہ پورے
پاکستان پر ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھول سکتی ہے۔ صوبے کی انہی خوبیوں
کی بدولت حکومت نے وہاں ترقیاتی کاموں کا ایک سلسلہ شروع کیا مگر اس کے
ساتھ ہی تشدد، قتل و غارت اور بدامنی کا ایک دَور چل نکلا۔ وہی سردار جو
بلوچ عوام کی پسماندگی اور محرومیوں کا ذکر کرکے حکومت اور اداروں کو تنقید
کا نشانہ بنارہے تھے خود ہی ان ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔
حکومت نے اگر سڑکوں اور شاہراہوں پر توجہ دینا شروع کی تو وہاں تعینات
مزدوروں کو قتل کیا جانے لگا گوادر بندرگاہ پر کا شروع ہوا تو وہاں موجود
انجینئر وں اور کارکنوں پر حملے کئے گئے۔ حکومت نے تعلیم پر توجہ دینے کے
لئے عملی اقدامات کئے تو تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر تشدد شروع ہوگیا حتیٰ
کہ علم پھیلانے والی کئی شمعیں گل کردی گئیں۔ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم
کرنے کی طرف توجہ دی گئی تو بھی ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ آج حالت یہ
ہے کہ حکومت اور فوج ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے
مگر اتنی ہی شدت سے وہاں بدامنی پھیلائی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں وہاں کے
عام لوگوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے
کہ وہ کون سے عناصر ہیں جنہیں صوبے کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں
بھاتی۔
اصل بات یہ ہے کہ صوبے کے وسائل اور خزانے پر چند سرداروں کا قبضہ رہا ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کی غرض سے ان سرداروں کے ساتھ
مفاہمت کئے رکھی اور بلوچ عوام کا پیسہ براہِ راست ان پر خرچ کرنے کی بجائے
سرداروں کی جیب میں ڈالتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کا سردار امیر سے امیر
تر ہوتا گیا اور عوام تو غربت کی عمیق گہرائیوں میں دھنستے ہی چلے گئے۔ ان
سرداروں نے انہیں کبھی صوبے کا شہری قبول نہیں کیا بلکہ اپنا تابع فرمان ہی
سمجھا۔ اس طرح وہاں کے عوام کی محرومی کا سبب وہاں ترقیاتی کام نہیں بلکہ
سرداروں کا ان سے نارواں رویہ اور سلوک ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور سے ہی یہ طے
کرلیا گیا تھا کہ اب صوبے کے تمام ترقیاتی منصوبے براہِ راست شروع کئے
جائیں گے تاکہ ان کے فوائد سے عوام مستفید ہوسکیں۔ بس یہی سے سرداروں کا
وفاقی حکومت سے اختلاف شروع ہوجاتا ہے اور وہ فوراََ ہی ان غیرملکی عناصر
کی جھولی میں جاگرتے ہیں جو پہلے ہی پاکستان کو عدم تحفظ سے دوچار کرنے اور
خاص طور پر اس صوبے کے وسائل اور گوادر پورٹ پر نظریں جمائیں بیٹھے ہیں۔
حکومت، سردار اور غیرملکی عناصر کی اس جنگ میں نقصان وہاں کے عوام کو پہنچ
رہا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات پرانسانی حقوق
کی ممتاز شخصیت جناب انصار برنی کے بیان سے ان سرداروں کی اصلیت کھل کر
سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض سردار اور حکومت میں بیٹھے اکثر وزیر
ایسی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں جہاں وہ معصوم افراد کو اغواءکرانے کے
بعد یا تو بھاری تاوان وصول کرکے رہا کرتے ہیں وگرنہ دوسری صورت میں انہیں
قتل کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور بدقسمتی سے
مفاد پرستوں اور ملک دشمن طاقتوں نے یہ رواج بنالیا ہے کہ ایسی لاشوں کو
قتل کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کھاتے ہیں ڈال دیتے ہیں تاکہ
ملک اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرکے خدانخواستہ ملک
کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جاسکے۔
اس طرح یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کے ذمہ دار عناصر
کون ہیں۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ذاتی اور سیاسی مفادات
کے چکر میں تقریباََ ہر حکومت نے صوبے کو ان سرداروں کی تحویل میں دئیے
رکھا جنہوں نے اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے اختیارات اور
طاقت کا ناجائز استعمال کیا ۔اس طرح مقامی لوگ ان کے اثرورسوخ اور طاقت کی
بدولت ان کے غلام بن کر رہ گئے۔ سرداروں کے استبدادی رویوں کے تناظر میں
سوال یہ ہے کہ کس نے انہیں بلوچ عوام کے حقوق کا ٹھیکیدار مقرر کیا کیا
انہیں مقامی لوگوں نے منتخب کیا ہے یا پھر وہ کون سی خوبیاں ہیں جس کی وجہ
سے معلوم ہو کہ یہ عوام کے حقوق کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں کیا یہ واقعی
ان کے حقوق کے لئے کام کررہے ہیں یا ایک مرتبہ پھرعلیحدگی پسند جذبات کو
ہوا دے رہے ہیں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک آزاد بلوچستان کے قیام سے کس کو
فائدہ پہنچے گا وہاں حکومت کی تبدیلی سے عوام کی زندگی میں بہتری کی ضمانت
کون دے گا کیا لوگوں کوان کی اپنی دولت وسائل تک رسائی حاصل ہوگی کیا وہ
پھر سرداروں کے استحصال کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ مگر صوبے کے عوام ایسا
ہرگز نہیں چاہتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر (خدانخواستہ) ایسا ہوگیا تو ان کی
حالت مزید ابتر ہوجائے گی ۔ اکثریت کی رائے ہے کہ حکومت نے کبھی انہیں
اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی صرف سرداروں کے ساتھ ہی معاملات نمٹانا
پسند کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچ صرف چند سرداروں کا نہیں بلکہ بلوچی عوام
کا ہے۔ اس لئے ان کی خواہشات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔وہ تو سرداروں کے
استبدادی سلوک سے نجات چاہتے ہیں۔ انہیں وفاق اور سیکورٹی اداروں سے
توبہتری کی کچھ امید تو ہوسکتی ہے مگر وہ سرداروں کے رحم و کرم پر آگئے تو
ایک مستقل غلامی اور مسلسل گھٹن ان کا مقدر بن جائے گی۔ اس تناظر میں ضرورت
اس امر کی ہے بلوچستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق وہاں کے مسائل ترجیح
بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ اس سلسلے میں پاک فوج کی خدمات مثالی ہیں لیکن
فوج تنہا کچھ نہیں کرسکتی۔ حکومت اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی صوبے کو
قومی دھارے میں لانے کے لئے اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ |