لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر بننے والے
اس مملکتِ خداداد پاکستان کا 75 واں یوم تشکیل مبارک ہو۔ "75 سال کا عرصہ
گزر جانے کے بعد بھی شاید آج ہم اِس آزاد فضا میں آزاد نہیں" میرا یہ جملہ
شاید اپنے قاری کو حیرانی کی زنجیروں سے جکڑ کر اسے سوچنے پر مجبور کر دے۔
کہ کیا واقعی ہم آزاد نہیں؟ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کی
مٹی میری آنکھوں کا سرمہ، میری جان اس دھرتی پر فدا کے جہاں سے میرے نبی کو
ٹھنڈی ہوا آئی۔
بقول اقبال ؒ
وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب ﷺ کو آئی ٹھنڈی ہوا وہاں سے
اصل مقصد صرف اُن حقائق سے پردہ کشائی کرنا ہے کہ جس سے یہ قوم پچھلے 75
سال سے ناآشنا ہے۔ یہ تحریر محرم الحرام کے ان خون میں ڈوبے ایام میں بہ
چشمِ تر رقم کرنا پڑ رہی ہے کہ وہ پاکستان جس کا 75 سال پہلے قائداعظم نے
کریہ کریہ، بستی بستی، کوچہ کوچہ اعلان کیا شاید یہ وہ پاکستان تو نہیں۔ وہ
تو ایک ایسے پاکستان کا اعلان تھا کہ جس میں شاید ہر رنگ ہر نسل ہر ذات کے
فرد کو آزادی سے رہنے کا حق ہو۔ جس میں رہائش پذیر باشعور اور سلجھے ہوئے
انسانوں کو زندگی کے حَسین لمحات میسر کرنا تھا تاکہ وہ اسلام کے بتائے
ہوئے اُصولوں کے مطابق زندگی کے شب و روز بسر کر سکیں۔ جس پاکستان کا خواب
مصورِ پاکستان نے دیکھا، جس پاکستان کے لیے سر توڑ کوششیں قائد اعظم محمد
علی جناح نے کیں شاید یہ وہ پاکستان تو نہیں۔ یہ پاکستان ہم نے ان ہندوؤں
اور انگریزوں سے محض زمین کا ٹکڑا لے لینے کی حد تک تو آزاد کر لیا مگر
ہماری سوچ، فکر، پرواز، شعور و آگہی پر اب بھی انہی باطل آمیر قوتوں کا
قبضہ ہے کہ جو ہمیں آذانِ انقلاب دینے سے قاصر کیے ہوئے ہیں۔ اب بھی جو کام
اس 75 سالہ پاکستان میں ڈنکے کی چوٹ پر ہورہے ہیں وہ اقوام عالم کے سامنے
ہمارا سر نگوں کرنے کے لیے کافی ہیں۔
آج اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جو کلچر اپنے قدم جمائے بیٹھا ہے وہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے، جو نظام عدالتوں میں رائج
ہے وہ عدل و انصاف کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ وہ عدل کی مثالیں جو ہمارے بڑوں
نے اپنی جانوں کا خراج دے کر قائم کیں آج ہم اس سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔
وہ نظام جو ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے قائم کیے وہ آج یہودی اور عیسائی تو
ماننے کے لیے تیار ہے مگر ہم مسلمانانِ عالم اس نظام کے زیر اثر اپنی
زندگیوں کو گزانا اپنی شان کے شایان نہیں سمجھتے۔ جو کلچر تھانوں کا ہے وہ
بھی ناقابلِ بیان ہے۔ جو سلوک وارثانِ محراب و منبر نے اپنی قوم سے کیا وہ
بھی کوئی قابلِ فخر نہیں۔
75 سال قبل ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے والے پاکستان کے
رہائشیوں کی بے حسی اور بے بسی کا عالم تو دیکھیے کے آج تک انہیں کے بنائے
ہوئے تعلیمی اداروں میں ہم زیرِ تعلیم ہیں۔ انہیں کے قائم شدہ صحتی مراکز
میں ہم بقدرِ شوق زیرِ علاج ہونا پسند کرتے ہیں۔ موجودہ سیاست کے
علمبرداروں پر ہم بہت خوشی سے رشوت خوری کا الزام عائد کرتے نظر آتے ہیں
مگر بڑی معذرت کے ساتھ ہر شخص یہاں کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں ہے جِسے
جتنا موقع ملے وہ اتنا بڑا راشی ثابت ہو۔ کیوں واٹر فلٹر پر لگے گلاسوں کو
زنجیر سے باندھا جاتا ہے۔ کیوں ہم اپنی موٹرسائیکلوں کے ساتھ ہیلمٹ کو
وائرلاک سے باندھتے ہیں کھلا کیوں نہیں چھوڑ سکتے؟ کیوں دن بدن چوری کے
واقعات رونما ہورہے ہیں؟ کیوں ایک 8 سالہ زینب باہر آزادی سے پھر نہیں
سکتی؟ کیوں غیر ملکی سیاح یہاں محفوظ نہیں؟ کیا ہم پر حیوانیت(حوس) اسقدر
غالب آچکی ہے کہ ہم کسی عورت کو تنہا دیکھتے ہی اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ کیا
ہمارے ضمیر مر چکے ہیں؟ کیا ہمیں کوئی راہِ راست دکھانے والا نہیں؟ کیا
کوئی ہمیں پیغامِ حق سنانے والا نہیں؟ کیا اب کوئی حسین نہیں جو یزید کے
آگے ڈٹ کھڑا ہو؟ میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ معاشرے میں موجود سوئے ضمیر
لوگوں کا گریبان پکڑ کہ جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
تھانوں سے عدالتوں تک اور ہسپتالوں سے تعلیمی اداروں تک کرسی پہ بیٹھا ہر
شخص اسی ذلت میں ڈوبا نظر آتا ہے ۔ ہر شخص کسی نہ کسی برائی کے نشے میں چور
نظر آتا ہے۔ کچھ پاکباز افراد ایسے بھی ہیں کہ جن کی بدولت ہی یہ نظام قائم
ہے۔ ورنہ برائی کی شاخیں تو اس قدر گھنی ہیں کہ ہر شخص کا مکان انہیں کے
سائے کے نیچے نظر ہے۔
ہم 75 سال صرف موٹرسائیکلوں کے سائلنسر اتار کر منہ میں باجا دبائے سڑکوں
پر تیز رفتاری سے موٹرسائیکل دوڑانے کے عمل کو ہی جشنِ آزادی سمجھتے ہیں۔
اور 13 اگست کی رات جو جیالے سڑکوں پر کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تلخ
حقیقت یہ بھی ہے کہ ان آزادی کے علمبرداروں کو آزادی کی الف ب بھی نہیں
معلوم ہوتی۔ اور شعور و علم و آگہی سے ان جیسوں کا کوئی تعلق واسطہ بھی
نہیں ہوتا یا شاید ان جیسوں کے نصیب میں یہ چیزیں ہوتی ہی نہیں۔
معزز قارئین 75 سال قبل کربلا کا ایک منظر برصغیر میں بھی جلوہ افروز ہوا۔
اسی طرح مقتل سجا۔ اسی طرح مصائب کی آندھیاں چلیں اسی طرح مشکلات کا طوفان
اٹھا۔اسی طرح اجسام دونیم ہوئے اور اسی طرح شہادتیں ہوئیں۔ جانے کتنے
مسلمانوں کی آس امید کے سفینے مصائب کے بھنور کی نذر ہوگئے۔
ماں باپ، میاں بیوی اور بہن بھائی کے رشتوں میں دراڑیں اس طرح آئیں گے کہ
ان میں سے کوئی ایک اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گیا۔ کوئی اپنی ماں سے
بچھڑ گیا کسی کا باپ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کسی کا بھائی زندگی کی سانسیں
چھوڑ گیا۔ کسی کی بہن کا سہاگ اجڑ گیا۔ کسی بچے کو اس کی ماں کی ممتا کی
چھاؤں سے دور مشکلات اور مصائب کی کڑی دھوپ میں لاکر بٹھا دیا گیا اور بہت
کچھ اور یہ سب ستم کرنے والے کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ اس کی برصغیر میں
بسنے والے دوسرے مذاہب کے افراد تھے شاید جنہیں مسلمانوں کی طرف سے لگنے
والے انقلابی نعرے بُرے لگتے تھے اور ان کے کانوں میں آزادی کی اذان کی
آواز گراں گزرتی تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ہیں ہمسایوں کو بے دردی
سے قتل کیا۔ بڑی معذرت کے ساتھ آج بھی ان فرعونوں کی کچھ اولاد پاکستان میں
مقیم ہے کہ جو موسی کے وارثوں کی جانب سے لگنے والے انقلاب کے ان نعروں کو
برا جانتے ہیں۔ یہاں اول تو کوئی حق کا پرچم بلند کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اگر کوئی یہ ہمت دکھا بھی دے تو قرب و جوار اور دور دراز سے لوگ اسکی
ٹانگیں کھینچنے آجاتے ہیں۔
میرے یہ الفاظ کسی کو رسوا کرنے کے لیے نہیں بلکہ مجھ سمیت ہم سب کو بدلنے
کی دعوت دے رہے ہیں ۔ حقیقی معنوں میں آزادی منانا خدائے لم یزل کے آگے سرِ
نیاز خَم کیے رکھنا ہے۔ اُن 23 لاکھ شہداء کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہ
جن کا پاک خون میری جان سے عزیز پاکستان کی رگوں میں ہے۔ دو قومی نظریے کی
بنیاد پر بننے والے اس ملک سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے خدا ہمیں اس وطن
سے تا صُبحِ قیامت محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
پاکستان تابندہ باد
ازقلم: محمد شاہ میر مغل
|