دہلی کا اصلی بمقابلہ گجرات کا جعلی ماڈل

 اروند کیجریوال نے بی جے پی پر یہ سنگین الزام لگایا کہ وہ دہلی کے شاندار کام کو روکنا چاہتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے سنگاپور کی مثال پیش کی۔ وہاں کی حکومت نے انہیں پوری دنیا کے سامنے دہلی کا ماڈل پیش کرنے کی دعوت دی ۔کیجریوال کے مطابق دہلی کے کاموں کا دنیا بھر میں چرچا ہو نا بڑے فخر کی بات ہے ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ٹرمپ کی اہلیہ نے دہلی کے اسکولوں کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور ناروے کے سابق سربراہ نے بھی محلہ کلینک کا دورہ کرکے اس کی ستائش کی تھی لیکن دہلی کےان کاموں کو بی جے پی روکنا چاہتی ہے۔ دہلی میں چونکہ صحت اور تعلیم کے میدان میں اچھا کام ہو رہا ہے، اس لیے پہلے وزیر صحت کو جیل بھیجا گیا اور پھر وزیر تعلیم کو حراست میں لینے کی تیاری ہورہی ہے۔ اروند کیجریوال نے دہلی اور ملک کے لوگوں کو یقین دلایا کام نہیں رکے گا۔ کانگریس کو بھی لپیٹتے ہوئے وہ بولے کہ 75 سالوں میں ان پارٹیوں نے مل کر ملک کو برباد کیا ہے۔ اس عرصے میں کئی ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہم میں کیا کمی ہے؟ سب سے زیادہ باصلاحیت لوگ بھارت سے ہیں لیکن ساری سیاسی جماعتوں نے ملک کو لوٹا ہے۔

وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنے بیان میں سنگاپور کی جس دعوت کا ذکر کیا وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ سنگاپور کی ورلڈ سٹی کانفرنس میں دنیا بھر کےمیئرس شرکت کررہےہیں ۔ اس میں اروند کیجریوال کو دہلی ماڈل پیش کرنے کی دعوت دی گئی تو مرکزی حکومت کے پٹھو لیفٹننٹ گورنر نے اس پر روک لگا دی ۔ اس سے ناراض ہوکر کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر سنگاپور جانے کی اجازت طلب کی کیونکہ ان کے خیال میں مذکورہ دورہ ملک کے لیے باعث افتخار ہے مگر 7 جون سے ڈیڑھ ماہ بعدبھی جواب نہیں ملا۔ کسی ریاست کے منتخبہ سربراہ کو اتنے اہم اسٹیج پر جانے سے روکنا درست نہیں ہے۔ کیجریوال نے نصیحت کی کہ اندرونِ ملک سیاسی اختلافات کو بھلا کرباہر کی دنیا کے سامنے صرف قومی مفاد کوپیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے بی جے پی کی سب دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ امریکہ نے جب نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ویزا نہیں دیا تو پورے ملک میں اس پر تنقید کی گئی تھی ۔ کیجریوال کی یہ بات درست نہیں ہے۔ اس وقت بہت سارے لوگ خوش بھی ہوئے تھے لیکن یہ بات تو سامنے آہی گئی کہ ایک وزیر اعلیٰ کو ویزا دینے سے انکار کیا جاتا مگر دوسرے کو خوش آمدید کہا جاتا ہے،اس پر اپنی ہی حسد زدہ سرکار کے پیٹ میں مروڈ ہونے لگتا ہے۔
اروند کیجریوال چونکہ میئر نہیں ہیں اس لیے بی جے پی انہیں وہاں جانے کی اجازت دینے کے خلاف ہےَ۔ اول تو کسی وزیر اعلیٰ کے لیے غیر ملکی سفر کی خاطر مرکزی حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی حاجت ہی شرمناک ہے۔ آزادی کے 75سال بعد بھی اگر ایک وزیر اعلیٰ اس قدر محتاج ِ محض ہوتو ایسی آزادی بے معنیٰ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا پروگرام کا اہتمام کرنے والے اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اروند کیجریوال میئر نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہیں ؟ عام آدمی پارٹی کی دلیل یہ ہے کہ انہیں میئر کی حیثیت سے نہیں بلکہ وزیر اعلی کے طور پر میئرس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ دہلی کی تین عدد میونسپل کارپوریشن میں پچھلے پندر سالوں بی جے پی کے میئرس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سنگاپور میں انہیں کیوں نہیں بلایا جاتا؟ کیونکہ یہ لوگ کہ رام نومی کے موقع پر گوشت کی دوکان بند کروانے اور بلڈوزر چلانے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کام ہی نہیں کرتے ۔ ان کونہ کوئی جانتا ہے اور نہ ان کے اندر اپنے کام کو سلیقہ سے پیش کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ملک میں گجرات ماڈل کا چرچا تو خوب ہوا لیکن عالمی سطح پر اس کی پذیرائی کبھی نہیں ہوئی اور ہوتی بھی تو مودی جی یا ان کے جانشین میں دم خم نہیں ہے اس کو ٹھیک سے پیش کرسکے۔

عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نے اس موضوع پر بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اروند کیجریوال کے دہلی ماڈل سے پی ایم مودی خوفزدہ ہیں۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو پی ایم مودی سنگاپور جانے کی اجازت اس لیے نہیں دے رہے ہیں کہ کہیں بین الاقوامی سطح ان کا ’’فرضی ماڈل‘‘ پر بے نقاب نہ ہوجائے۔ سنجے سنگھ نے دہلی ماڈل کے بارے میں بتایا کہ وہاں ہر گھر کو 300 یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے۔فرشتے اسکیم کے تحت 50 لاکھ سڑک حادثے کا شکار ہونے والوں کو مفت علاج کی سہولت دی گئی ہے۔ ماؤں بہنوں کو مفت بس سفر کا موقع دیا گیا ہے۔ 18 لاکھ بچوں کو اچھی تعلیم، مفت ادویات، مفت علاج، مفت پانی دیا جا رہا ہے۔ گجرات ماڈل سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے وہ بولے گجرات کے جعلی ماڈل کا خمیازہ پورا ملک مہنگائی، بے روزگاری کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیجریوال پر ’مفت میں ریوڈی‘ بانٹ کر اپنی سیاست چمکانے کاالزام لگایا اور اس کو قوم کے نقصان دہ بتایا۔ اس الزام کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے سنجے سنگھ نے سوال کیا کہ نریندر مودی کو اگرمفت کی ریوڑی سے اتنی ہی پریشانی ہے تو وہ تمام ارکان پارلیمان کو 5 ہزار یونٹ بجلی مفت، بڑی بڑی کوٹھیاں ، موٹی تنخواہیں ، لمبی چوڑی گاڑیاں اور ہواجہازوں کے سفر سمیت تمام سہولیات کیوں بند نہیں کرتے؟ اس منہ توڑ سوال کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

ریوڈی والی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سنجے سنگھ نے بتایا کہ مودی سرکار ریوڈی کیسے تقسیم کرتی ہے ؟ پرفلہ شاردا کی آر ٹی آئی کے جواب میں مرکزی حکومت نے اعتراف کیا کہ 11 لاکھ کروڑ روپئے قرض معاف کر دیا گیا ہے۔ اس ریوڈی کی وجہ سے ملک تباہ و دیوالیہ اور بینک خالی ہو گئے ہیں ۔ سرکار کے پاس نوجوانوں کو روزگار دینے، مہنگائی کم کرنے، پٹرول ، ڈیزل اور گیس سلنڈر کی قیمت گھٹانے کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن ملازمین، عام آدمی، کسان، مزدور، چھوٹے تاجروں کا بینکوں میں جمع پیسہ نکال کر اڈانی جیسے چند سرمایہ داروں کے قرض معاف کرنے کے لیے 11 لاکھ کروڑ روپئے کی خطیر رقم ہے۔عام آدمی پارٹی کے رہنما نے ڈی ایچ ایف ایل کمپنی کا حوالہ دے کر کہا کہ اس نے 17 بینکوں سے 34 ہزار کروڑ روپیہ لوٹامگر بھارتیہ جنتا پارٹی کو 27 کروڑ روپے کا عطیہ دے کر چھوٹ گئی ۔وزیر اعظم کے عزیز دوست کی سرکاری مدد سے لوٹ مار کا راز فاش کرتے ہوئے سنجے سنگھ نےپارلیمانی اجلاس میں بتایا کہ ہندوستان کی ریاستی اور مرکزی حکومت کے تھرمل پاور پلانٹس کو فی ٹن 3000 روپئے کے نرخ پر ملتاہے۔ 7 دسمبر 2021 کو مودی حکومت ریاستی حکومتوں پر 10 فیصد کوئلہ بیرون ملک سے خریدنے کی شرط لگادی ۔

دو ماہ قبل کوئلے کا ایک فرضی بحران پیدا کیا گیا جبکہ حقیقت میں یہ ہندوستان کی کول انڈیا کمپنی کی پیداوار میں 32 فیصد اضافہ ویب سائٹ پر درج ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہندوستان میں کوئلے کی پیداوار بڑھ گئی ہے ریاستی سرکاروں کو اڈانی کے بیرون ملک کانوں سے دس گنا زیادہ قیمت یعنی 30,000 روپے فی ٹن کوئلہ خریدنے پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ اس کے سبب بجلی کی قیمت میں 2 روپئے فی یونٹ اضافہ ہوگا۔ سنجے سنگھ کے مطابق مودی سرکار کے ذریعہ اپنے دوست کا کوئلہ ریاستی حکومت کو زور زبردستی کرکے 3 ہزار روپے ٹن کے بجائے 30 ہزار ٹن کی قیمت پر بکوانا دراصل ریوڑی تقسیم کرنا ہے۔ سنجے سنگھ کے اس جواب پر معروف محاورہ ’اندھا بانٹے ریوڑیاں پھیر پھیر اپنے ہی کو دے ‘ یاد آتا ہے۔ وزیر اعظم کی آنکھوں پر سرمایہ داری کا پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے ان کی ساری ریوڑیاں سرمایہ داروں کی تجوری میں چلی جاتی ہیں ۔

سیاسی گرفتاری سے شروع ہو نے والی بات وہیں ختم ہونی چاہیے ۔ سنجے سنگھ نے ای ڈی اور سی بی آئی کے غلط استعمال پر کہا کہ محلہ کلینک کا ماڈل پیش کرنے والے ستیندر جین جیسے لوگوں کو جیلوں میں سڑا کرحزب اختلاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ انہوں اعدادوشمار کے حوالے سے کہا کہ مودی سرکار نے گزشتہ 8 سال میں 3 ہزار چھاپے مارے لیکن ای ڈی کو اس انتقامی مہم کے دوراان صرف 0.5 فیصد معاملات میں کامیابی ملی کیونکہ وہ سارے کیس جھوٹےتھے۔ ای ڈی کے ان چھاپوں کی وجہ سےتو کسی کو سزا نہیں ملتی لیکن یہ چھاپہ بذاتِ خود ایک سزا ہے۔ سنجے سنگھ نے الزام لگایا کہ ای ڈی کو دھمکیاں دینے، دباؤ ڈالنے، ڈرانے دھمکانے اور فرضی مقدمہ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حکومت اپنی باتوں کو زبردستی منوانا چاہتی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ای ڈی یا سی بی آئی کےجال میں کوئی بی جے پی والا تو دور ملک کو لوٹ کر بھاگنے والے نیرو مودی ، میہول چوکسی اور وجئےمالیا بھی نہیں پھنستا ۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ سشمتا سین توملک کو لوٹ کر فرار ہونے والے للت مودی کو ڈھونڈ نکالتی ہے لیکن وزیر اعظم کو وہ نظر نہیں آتا ۔ مودی جی کے نئے ہندوستان کی منظر کشی فیض احمد فیض کے ان اشعار میں ملتی ہے؎
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.