آزاد کشمیر اسمبلی میں بلدیاتی الیکشن سبو تاژ کرنے کی کوشش
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
13اگست کو سب یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے کہ آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس میں بلدیاتی الیکشن کے لئے ایک الگ بلدیاتی الیکشن کمیشن کی تشکیل کا ترمیمی بل پیش کیا گیا اور اپوزیشن کے تعاون سے اس مسودہ قانون کو حتمی قرار دینے کے لئے مجلس قائمہ کے حوالے کر دیا گیا جس میں حکومتی وزراء کے علاوہ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر چودھری لطیف اکبر، مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر اور سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان بھی شامل ہیں۔15ویں ترمیم کے اس بل کے مقاصد تحریر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے لئے الگ سے الیکشن کمیشن بنایا جا رہا ہے تا کہ بلدیاتی الیکشن دیانتدارانہ،منصفانہ طور پر ہو سکیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آ زاد جموں وکشمیر الیکشن کمیشن بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کا اعلان کر چکا ہے جس کے مطابق آزاد کشمیر میں28ستمبر کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔
اس سے پہلے ہی ایسی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ تمام ارکان اسمبلی یہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کی تشکیل سے تعمیر و ترقی کے امور، فنڈز ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔جبکہ عوام کی طرف سے وسیع پیمانے پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی حمایت کی جار ہی تھی ، جسے دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں کھل کر بلدیاتی انتخابات کی مخالفت نہیں کر پا رہی تھیں۔تاہم اب حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے مکمل اتفاق سے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے لئے الگ سے بلدیاتی الیکشن کمیشن کے قیام پر مشتمل 15ویں ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش ہونے اور اس پر حکومتی و اپوزیشن کے اتفاق سے قائمہ کمیٹی کی تشکیل سے سیاسی جماعتوں کی منشاء عریاں ہو گئی ہے۔حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کے لئے ایک الگ الیکشن کمیشن کی تشکیل کا مطلب ہے کہ ا س نئے بلدیاتی الیکشن کمیشن کی تشکیل میں چند ماہ لگ جائیں گے اور حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی منشا پوری ہو جائے گی کہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو ٹال دیا جائے۔یہ اس اقدام کو آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
آزاد جموں وکشمیر بار کونسل نے آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کے لئے الگ سے الیکشن کمیشن قائم کرنے سے متعلق ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کرنے کی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے بدنیتی ،انسانی حقوق کے منافی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو سبو تاژ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ آزادجموں وکشمیر بار کونسل کے وائس چیئر مین سردار طارق مسعود خان ایڈووکیٹ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت آزادکشمیر کی جانب سے لوکل باڈیز الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا بل اسمبلی میں پیش کرنا سپریم کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔اسمبلی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے مگر بدنیتی سے بنایا گیا قانون،ایکٹ ناقابل قبول ہوگا۔الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد اسمبلی میں بل پیش کرنا بدنیتی پر مبنی ہے۔الیکشن کے لیے ووٹر فہرست ہا اور پولنگ سکیم فائنل ہوچکی ہیں ایسی صورت میں الیکشن ملتوی کرنا بنیادی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہوگا۔مجوزہ پیش کردہ بل الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد پیش کیا گیا جس کا اطلاق موثر باماضی نہ ہوگا۔اس طرح کے الفاظ بدنیتی پر مبنی ہیں،حکومت اگر کوئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کرسکتی ہے لیکن اس ترامیم کا اطلاق حالیہ بلدیاتی الیکشن پر قانون کے مطابق نہ ہوگا۔بار کونسل اور وکلا آزادکشمیر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومت وقت کو تنبیہ کرتے ہیں کہ کوئی ایسا اقدام کرنے سے باز رہے جس سے آزادکشمیر کے اندر افراتفری کا ماحول پیدا ہو۔آزادجموں وکشمیر بار کونسل اس بل کے جملہ قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی اور بار کونسل بدنیتی پر اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بنائے گئے اس ترمیمی ایکٹ کو مجاز فورم پر چیلنج کرے گی اور بار کونسل سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرے گی۔
کئی افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی کیوں مخالفت کر رہی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی میں ارکان اسمبلی ہی اپنے حلقے میں تمام تعمیر و ترقی کا امور کا نگران، ذمہ دار ہو تا ہے اور اس سے ارکان اسمبلی مختلف حوالوں سے بھر پور طور پر مستفید ہوتا ہے۔ ارکان اسمبلی نہیں چاہتے ہیں بلدیاتی نظام قائم ہو جس سے مقامی سطح کے ترقیاتی امور کے معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں۔اس 15ویں ترمیم کے ذریعے نیا بلدیاتی الیکشن کمیشن قائم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ نہ '' نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی'' یعنی نہ بلدیاتی الیکشن کمیشن بنا یا جائے گا اور نہ بلدیاتی الیکشن ہو سکیں گے۔اس 15ویں ترمیم کو پیش اور اس کی حمایت کرنے والوں کا خیال ہے کہ ان کی طرف سے اس قانون سازی کو عدلیہ میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ اسمبلی کا اختیار ہے۔ جبکہ ایسے موقع پر کہ جب الیکشن کمیشن کی طر ف سے الیکشن شیڈول جاری ہو چکا ہے،28ستمبر الیکشن کے انعقاد کی تاریخ دی جا چکی ہے۔یوں اصولی اور اخلاقی طور پر بھی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ یہ اسمبلی کا اختیار ہے۔ اس معاملے میں بد نیتی واضح طور پر ظاہر ہے۔ اب یہ ذمہ داری اعلی عدلیہ پہ ہے کہ وہ اپنی حرمت پر اثر انداز ہونے کی اس کوشش کا نوٹس لیتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کو بدنیتی کی بنیاد پر سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کو ناکام بنایا جائے۔اب عوام کی نظریں آزاد کشمیر کی اعلی عدلیہ پہ ہیں، اس بار گراں کی ذمہ داری عدلیہ کو اٹھانا ہی ہے ورنہ عوامی فیصلہ تو سڑکوں پہ ہو ہی رہا ہے جس میں شدت آ جائے گی۔
آزاد کشمیر کی حکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس 15ترمیم کی حمایت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عوامی، سول سوسائٹی کی تنقید کا رخ اپنی جانب موڑ لیا ہے اور اس اقدام سے ایک بار پھر ثابت کیا گیا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کو سیاستدانوں کے مفادات کا کلب بنا دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے حکمران تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات ارشاد محمود نے اس صورتحال پہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ '' آج بلدیاتی انتخابات کرانے سے بھاگ کر آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو دھوکہ دیا۔عملی طور پر، اسمبلی کے 33 اراکین آزاد جموں و کشمیر میں حکومت کر رہے ہیں، جس نے لیڈروں کی نئی نسل کو ابھرنے نہیں دیا۔ امیدیں ٹوٹ گئیں''۔اسی طرح اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے حلقے بھی اپنے رہنمائوں پہ اس حوالے سے سخت تنقید کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے متضادبیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں کے دل میں ایک بات ہوتی ہے ، ذہن میں دوسری بات اور زبان پہ کچھ اور ہی ہوتا ہے تاہم اصل بات نہ دل میں نہ دماغ اور نہ زبان میں بلکہ اصل بات ان کی صدری کی جیب میں ہوتی ہے۔ارکان اسمبلی نے اپنی سیاسی چال بازی ، اپنی ہوشیاری میں آزاد کشمیر اسمبلی، حکومت کو ایک تماشہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیںچھوڑی ہے اور اس طرح کا غیر مناسب طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس اقدام کے خطے، آزاد کشمیر کی حیثیت و نظام کو پہنچنے والے نقصانات کا بھی کوئی احساس و ادراک نہیں کیا جا رہا۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف حکومت اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن پر مشتمل اپوزیشن کے درمیان شاندار تعاون اور ہم آہنگی وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، محمد نواز شریف، مریم نواز ، بلاول بھٹو زرداری ،' پی ڈی ایم' اتحاد کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کے لئے بھی''پیغام عبرت '' ہے۔سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاستدان اپنی مفاد پرستی میں عوامی مفادات کو شکست دینے پہ آمادہ ہیں، سیاستدان مفادات کی مدھر دھن پہ ناچ رہے ہیں۔اس صورتحال میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے رہنمائوں پر مشتمل یہ خطہ ایسے اختیارات کے قابل ہے جو انہیں کشمیر کاز کے حوالے سے اپنے رقبے اور آبادی سے قطع نظر ایک ریاست کی طرز پہ بہت بڑھ کر ملا ہوا ہے؟اب جبکہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے ، اس عمل کو تعطل میں ڈالنا بلکہ ختم کرنے کا کوئی اصولی، اخلاقی جواز نہیں ہے، اسمبلی ارکان اس معاملے کو اپنا اختیار کہتے ہوئے اپنے مفادات کے لئے اسمبلی اختیارات کو استعمال نہیں کر سکتے۔
|