اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ڈیزل اور پٹرول کی
قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں لیکن ساتھ ہی ٹریکٹرز مالکان نے بھی اپنے ریٹس
بہت زیادہ بڑھا دیئے ہیں ڈیزل 30,40روپے بڑھتا ہے جبکہ ٹریکٹرز والے 5سو
روپے فی گھنٹہ بڑھا دیتے ہیں جیسا کہ چند ماہ قبل زمین بوائی کا ریٹ فی
گھنٹہ 16سو روپے تھا گہوائی کا ریٹ فی گھنٹہ 22روپے تھا لیکن اب بوائی
26روپے راجہ ہل 3ہزار روپے اور گہوائی 35روپے فی گھنٹہ مقرر کر دیئے گئے
ہیں سب سے بڑھ کر یہ بات کہ مذکورہ تمام ریٹس ٹریکٹرز مالکان نے خود بخود
طے کر ڈالے ہیں ان ریٹس کے مقررہ کرنے میں کسی سرکاری ادارے کا کوئی کردار
نہیں ہے ہاں البتہ متعلقہ سرکاری اداروں کی اس میں لاپرواہی و غفلت ضرور
شامل ہے جو اختیارات رکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور غریب
کاشتکاروں کو ٹریکٹر مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں ان بے تکے ریٹس
کی وجہ سے بہت سے چھوٹے کاشتکار اپنی زمینوں کو بنجر بنانے پر مجبور ہو چکے
ہیں ڈیزل مہنگا ضرور ہوا ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ جس چیز کا ریٹ کچھ ماہ
قبل 16سو روپے تھا اب وہ 26سو پر چلا گیا ہے یہ غریب کاشتکاروں کے ساتھ بہت
بڑی زیادتی ہے کاشتکار یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ حکومت نام کی کوئی
چیز ہی نہیں ہے جو ڈی سی اے سی کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع اور
تحصیلوں میں ٹریکٹر مالکان کے ساتھ میٹنگ کر کے ان کی مشاورت سے ان کیلیئے
بوائی گہوائی کے سرکاری ریٹس مقرر کریں یہ کام کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں ہے
بس تھوڑی سی کاوش کی ضرورت ہے کاشتکار کے ساتھ پہلے ہی بہت زیادتی ہو رہی
ہے وہ چاروں طرف سے مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے کھادوں کی قیمتیں آسمان
سے باتیں کر رہی ہیں ڈے اے پی کی قیمت فی بوری 14ہزار تک پہنچ چکی ہے جو
4ہزار روپے ہوا کرتی تھی غریب اور چھوٹا کاشتکار کیسے جی سکے گا بیج مہنگے
کھادیں مہنگی اوپر سے رہی سہی کسر ٹریکٹرز کے من مانے ریٹس نے نکال دی ہے
حیرانگی والی بات ہے ڈے اے پی کھاد میں کونسی سی ایسی نئی چیز شامل کر دی
گئی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت 4ہزارسے14ہزار روپے تک جا پہنچی ہے یوریا
2ہزار سے 5ہزار تک پہنچ چکی ہے کس کاشتکار میں اتنی ہمت ہو گی کہ وہ اتنی
زیادہ مہنگی کھادیں خرید کر اپنی زمین میں ڈالے گا وہ اپنی بہتری زمین کو
بنجر بنانے میں ہی سمجھے گا مہنگائی نے خاص طور پر چھوٹے کاشتکار کو مار کے
رکھ دیا ہے اب وہ نہ جینے کے اور نہ ہی مرنے کے قابل رہا ہے اوپر سے متعلقہ
با اختیار سرکاری اداروں کی خاموشی نے اس کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا
ہے جس وجہ سے وہ بلکل بے بس ہو کر رہ گیا ہے اور یہ بات سوچنے پر مجبور ہو
گیا ہے کہ ٹریکٹرز والے زیادہ طاقتور اور سرکاری انتظامیہ ان کے مقابلے میں
بہت کمزور ہے
اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے اتنے زیادہ بڑھا دیئے گے ہیں کہ ایک عام
شخص سفر کرنے کے قابل ہی نہیں رہا ہے مانا کہ ڈیزل پٹرول کی قیمتیں بڑھی
ہیں لیکن قیمتیں فی لیٹر کے حساب سے بڑھی ہیں جبکہ ٹرانسپورٹرز نے کرائے فی
مسافر بڑھا دیئے ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے مقرر کیئے ہیں روات سے کلرسیداں
کا کرایہ 80روپے شاہ باغ سے کلرسیداں 60روپے شاہ باغ سے چوکپنڈوڑی 30ر
کلرسیداں سے پیر ودھائی 2سو روپے ،کلرسیداں سے کچہری 180روپے اور چوکپنڈوڑی
سے کلرسیداں 40روپے کر دیا گیا ہے سرکاری انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے
آئے روز مسافروں ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں
کنڈیکٹرز حضرات بزرگ و خواتین مسافروں کے ساتھ بدتمیزیاں کر رہے ہیں اور
ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں شریف شخص کیلیئے پبلک ٹرانسپورٹ میں
سفر کرنا ایک عذاب بن چکا ہے ٹرانسپورٹرز تو ڈیزل پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے
فائدے میں چلے گے ہیں انہوں نے کرائے ڈبل کر دیئے ہیں ان کو تو کوئی نقصان
نہیں ہوا ہے مارے تو بیچارے غریب مسافر گئے ہیں جو راولپنڈی کا سفرجہاں
پہلے 2,3سو روپے لگتے تھے اب وہ یہ سفر 5سو روپے میں طے کر رہے ہیں سرکاری
ٹرانسپورٹ اٹھارٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے وارڈن والے کہتے ہیں کرایہ
مقرر کرنا ہمارا کام نہیں ہے ہمارا کام جو کرایہ گورنمنٹ مقرر کرتی ہے اس
پر عملدرآمد کروانا ہے عوام کس کے پاس جائیں کرائے مقرر کرنا عوام کے بس کی
بات تو نہیں ہے یہ تو متعلقہ سرکاری اداروں اور حکومت کا کام ہے جو کہ نہیں
کیا جا رہا ہے ٹرانسپورٹ اتھارٹیز جن کا کام ہی پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلقہ
مسائل حل کرنا ہے وہ کوئی ایکشن نہیں لے رہے وارڈن زمہ داری نہیں لے رہے
ہیں عوام کس کے سامنے اپنا رونا روئیں اگر متعلقہ سرکاری ادارے اپنا کام
نہیں کر پا رہے ہیں تو ان کے قیام کے کیا مقاصد رہ جاتے ہیں عوام کو مصیبت
میں ڈال کر سرکاری اداروں کے خاموش تماشائی کے کے کردار سے ان کی ساکھ خراب
ہو رہی ہے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بھال کرنے کیلیئے سرکاری اداروں کو جاگنا
ہو گا اور عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے اور ان کو ٹرانسپورٹ مافیا کے ظلم
سے نجات دلانا ہو گی
|