تشبیب: صنعتِ توشیح چورُخی/چہار رخی میں تعارف،تبصرے، تجزیہ و تحسین تصنیف: ا بنِ عظیم فاطمی
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
تشبیب: صنعتِ توشیح چورُخی/چہار رخی میں تعارف،تبصرے، تجزیہ و تحسین تصنیف: ا بنِ عظیم فاطمی ٭ مبصر: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اصنافِ شاعری یوں تو بے شما ر ہیں لیکن معروف اور مروج اصناف میں حمد، نعت، سلام،منقبت، مرثیہ،قطعہ،غزل، نظم، رباعی، مثنوی، مُدس، مخمس، سہ رخی، ہائیکو کے علاوہ صنعتِ توشیح بھی ہے۔ ان اصناف میں بعض بہت مقبول اور شعراء زیادہ تر اسی صنف میں شاعری کرتے ہیں، بعض غزل گو شاعر کہے جاتے ہیں تو بعض نظم کے شاعر۔ رباعی کے شاعر بھی ہیں جیسے محبوب الہٰی عطا رباعی گو شاعر ہیں۔بعض اصناف ایسے بھی ہیں جن پر کم کم شاعری ہوتی ہے۔ صنعتِ توشیح چورُخی یا چہا ررخی ایک منفرد اور دلچسپ صنف ہے۔ اس صنف سخن میں شاعر اپنے کسی عزیز دوست، ساتھی، محبوب، کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف وتحسین مخصوص طریقے سے کرتا ہے۔ اس میں یہ بھی خاص بات ہے کہ شاعر جس کسی کی بھی شان میں شعر کہتا ہے اس کی ترکیب کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ ہر شعر کا پہلا مصرعہ یا شعر کا پہلا حرف اور پھر ہر شعر یا مصرعہ کا پہلا حرف جس کی شان میں اشعار کہے جارہیں ہوتے ہیں اس کے نام کے تمام حروف ترتیب سے پہلے مصرعے یا شعر کے پہلے لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ آخر میں تمام حروف کو جوڑیں تو اس بھلے انسان کا نام، کتاب کا عنوان بن جاتا ہے۔یہی صورت کسی کتاب کا عنوان، کسی مضمون، کہانی، افسانہ یا ناول کا عنوان اس صنف شاعری کا موضوع ہوتا ہے۔ معروف شاعر مرحوم ناصر زیدی کا ایک مضمون ”صنتِ توشیح میں ایک رومانی نظم“ کے عنوان سے روزنامہ پاکستان میں اور انٹر نیٹ پر 11فروری 2011میں پوسٹ ہو۱جس میں وہ لکھتے ہیں کہ”ابن انشا صنعتِ توشیح میں ایک مشہور شخصیت کے نام ایک نظم چھوڑ گئے۔ یہ شخصیت ہے مسز ستنام محمود کی جو افسانہ نگار بھی تھیں۔ ان کی تعریف میں ناصر زیدی نے لکھا کہ وہ یعنی ستنا م منٹو کے الفاظ میں ”جبر جنگ“ یعنی حد سے زیادہ زبردست تھی۔ یہ خاتون سکھنی تھی بعد میں ستیام کور سے ستیا محمودہوئیں۔ اسی طرح ناصر زیدی نے اقبال راہی کی ایک نظم کا ذکر بھی کیا جو در صنعتِ توشیح میں ناصر زیدی پرلکھی گئی۔ناصر زیدی کے نام ناصر کے کے حرف یعنی(ن، ا، ص،ر) سے شروع ہونے والے اشعار۔ ن) نغمگی ہے ان کے لہجے میں بلا کی دوستو ان کے شعرون میں بھی شوخی ہے صبا کی دوستو ا) ان کے دل میں آگہی کا اِک سمندر موجزن دامنِ گل میں ہو جیسے روشنی کا بانکپن ص) صابر و شاکر طبیعت کے نمائندہ ہیں یہ اس حوالے سے حقیقت کے نمائندہ ہیں یہ ر) راہِ فکر و فن میں ہیں روشن چراغوں کی طرح قلب کے آنگن میں رہتے ہیں یہ جذبوں کی طرح شاعری کی یہ صنف بہت مشہور تو نہیں لیکن دلچسپ ضرور ہے۔ پیش نظر تصنیف ”تشبیب“ جس کے شاعر ابن عظیم فاطمی ہیں ادب کی صنف ’صنعت توشیح‘ میں ہی ہے۔ جس میں انہوں نے تعارف، تبصرے اور تجزیوں پر مشتمل اشعار کہیں ہیں۔ ابن عظیم فاطمی صاحب کی محبت ہے کہ انہوں نے اپنی یہ منفرد تصنیف بطور خاص عنایت فرمائی۔ ابن عظیم فاطمی کراچی کے باسی ہیں۔ شاعر ہیں، افسانہ نگار، مبصراور نظامت کار ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں ضروری نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے ملاقات ہی کریں، بلکہ ملاقات میں تو ایک دوسرے سے کم کم متعارف ہوتے ہیں سوشل میڈیاپر لکھنے والوں کا تعارف چاہے سمندر پار ہی کیوں نہ وہ رہتے ہوں کرادیتا ہے۔ اور عملاً ایسا ہی ہے کہ متعدد احباب جن سے آج تک ملاقات نہیں ہوئی اور ملاقات ہونے کے دور دور آثار بھی نہیں سے سوشل میڈیا پر گہرے مراسم ہیں۔ بعض شاعروں اور ادیبوں سے تعلق سوشل میڈیا نے ہی قائم کرایااور وہ فاصلہ پر ہونے کے باوجود بہت اچھے دوست ہیں۔ ابن عظیم فاطمیکی کتاب میں لفظ ’جنت‘ کے حوالے سے صنف توشیح میں کہے گئے اشعارکچھ اس طرح ہیں۔یہ لفظ اے خیام صاحب کی تصنیف کے ہیں۔ ج۔ جو شناور ہیں ادب کے، جانتے ہیں وہ مزاج جس طرح خیام کرتے ہیں بیاں رسم و رواج ن۔ ناوکِ حرف وبیاں سے لاکھ ہوزخمی بدن نارسائی کا گلہ کرتا نہیں ہے ان کا فن ت۔ ندرتِ تحیر سے ہوتا ہے ہم کو یہ گماں نام ہیں کردار کے لیکن ہے س اپنا بیاں شاعر نے لفظ ’جنت‘ کے تین حرف کا استعمال اس انداز سے کیا کہ ہر شعر کا پہلا حرف ج۔ن۔ت سے شروع ہوا اور لفط جنت بن گیا۔ کتاب کا آغاز تعارف سے ہوا ہے۔ ابن عظیم کا مختصر لیکن مکمل تعارف ہے۔ جس کے مطابق ان کا بنیادی تعلق صوبہ بہار شریف سے بنتا ہے۔ موضع کوہرہ، ضلع گیا اور موضع حضرت سائیں، ضلع پٹنہ)۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی ان کا مسکن بنا۔ کئی علمی ادبی تنظیموں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ عمدہ شعر کہتے ہیں، ان کا ایک شعری مجموعہ ”سلگتی مسافتیں“ منصہ شہود پر آچکاہے۔’تشبیب‘ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ بقول اے خیام جنہوں کتاب کا پیش لفظ بعنوان ”تشبیب‘ ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالتی ہوئی کتاب“ کے عنوان سے لکھا ”ابن عظیم فاطمی کی یہ کتاب ”تشبیب“ کئی جہتوں میں حیرت انگیز بھی ہے اور فنی اعتبار سے ایک تاریخ رقم کرتی ہوئی کتاب بھی ہے“۔ اے خیام صاحب کی رائے صائب ہے۔ ابن عظیم فاطمی نے ایک ماہر مبصر ہونے کا ہی حق ادا نہیں کیا بلکہ ایک بلند پا یَہ شاعر ہونے کا عملی ثبوت بھی دیا ہے۔انہوں نے شاعری کی صنف صنعتِ توشیح کی جملہ باریکیوں اور فنی مہارت کو عمدہ طریقے سے نبھایا ہے۔شاعری کی اس صنف کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شاعر کو ہر صورت متعلقہ حرف سے شعر کو شروع کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل میں یقینا مشکلات اور تحقیق و جستجو سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ گویا اس صنف میں شاعری محنت طلب بھی ہے۔ ایک وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ”غالباً صنعت ِتوشیح چورُخی /چہار رُخی میں ایسی کسی روایت کا مجھے علم نہیں جو کتابوں کے تعارف و خراج تحسین کے حوالے سے ہو اس لیے آپ اس روایت کی اسے اولین کتاب کہہ سکتے ہیں“۔اس وضاحت کے حق میں میری رائے یہی ہے کہ اس نوکی کوئی کوئی کتاب میری نظر سے بھی تاحال نہیں گزری۔ ابن عظیم فاطمی نے صرف اپنے ہم عصروں یا ان کی تصانیف پر تبصرہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ادب کے ان اکابرین کو بھی اس میں شامل کیا ہے جن کے نام تاریخِ ادبِ اردو میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھے جائیں گے۔طوالت کے پیش نظر ذیل میں چند مثالیں ہی درج کی جارہی ہیں: ڈاکٹر وزیر آغا کی تصنیف ”چہک اٹھی لفظو کی چھاگل“۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا تعارف، ان کی تصانیف کی تفصیل، کتاب پر اظہار خیال کے بعد کتاب کے عنوان کے ہر لفظ کے پہلے حرف پر اشعار۔ پہلا لفظ ’چ‘ سے شروع ہونے والا شعر دیکھئے۔ چمک فکر و ہنر کی چھائی ہے جس کا ہنر وہ سچ ”چہک اٹھی ہے لفظوں کی چھاگل“کون جائے بچ اے خیام کی ”سراب منزل“ کے عنوان حرف ’س‘ سے شروع ہونے والا شعر سہانے خوابوں کی جستجو میں ہوئے ہیں کیا کیا وجود بے بس سراب راہوں میں سب زیادہ تھا رہا جو باقی وہ سود بے بس سید انور جاوہد ہاشمی کی کتاب ”انتظار کے پودے“ کے تعارف کے ساتھ ساتھ انور صاحب کے شان میں اشعار کچھ اس طرح ہیں۔ ا) اک تسلسل سے کار ہئنر میں رہا ایسا شہرِ ہُنر کا مزاج آشنا ن) نام انور ہے جس نے سرِ انجمن نکہت و نور پھیلایا ہر ایک سخن و) وہ ”نئے بُت پرانے پچاری“ سے ہو واقعہ ہو، روایت ہو یا ربط ہو ر) راست گوئی پہ قائم رہے ہر ڈگر راہِ حق کی رہی جستجو عمر بھر معروف کالم نگار اور افسانہ و ناول نگار نسیم انجم کی تصنیف اور ان کے نام کے حوالے سے تحسین و توسیف اس طرح کی۔یہان صرف ان کے نام کا پہلا لفظ ’انجم‘ کے حرف سے شروع ہونے والے اشعارپیش ہیں۔ ن) نہ ”دھوپ چھاؤں“ تھی منزل نہ ”کائینات“ کا دھن نظر میں ”آج کا انسان“ تھا ہر ایک چلن س) سو زندگی کا سفر ہے، قلم بنا ہے اساس سرور و کیف نشا ط و طرب ہے اک احساس ی) یہ اہل فن ہیں کہ اظہارِ زندگی ان کی یقین جن کی ہے دولت، عمل ہے خُو جن کی م) مثال بن گیا ناول ہے ”نرک“ جس کا نام مچی ہے دھوم ادب میں کیا ہے خوب یہ کام ڈاکٹر تنویر انجم، معروف افسانہ نگار کئی افسانوی مجموعوں کی خالق کی کتاب ”شگون کے پھول“ پر پہلا شعر جو’ش‘ سے شروع ہوتا ہے شعور و فکر کے قصے ہیں جن میں، ہیں بیانِ خوش شکستِ خواب کی، احساس کی، جذبوں کی آمیزش آخر میں ابن عظیم فاطمی صاحب کے لیے دعائیں اور داغ دہلوی کا شعر خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ (15اگست 2022ء)
|