"تذکار شیر یزدانی"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
عندذکر الصالحین تنزل الرحمۃ "تذکار شیر یزدانی" سوانح حیات:۔شیریزدانی حضرت سائیں پیر سیّد شیر محمدگیلانی قادری فتح پوریؒ تصنیف وتالیف:۔پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب
|
|
|
تذکار شیر یزدانی |
|
عندذکر الصالحین تنزل الرحمۃ "تذکار شیر یزدانی" سوانح حیات:۔شیریزدانی حضرت سائیں پیر سیّد شیر محمدگیلانی قادری فتح پوریؒ تصنیف وتالیف:۔پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب ------ سیّد غلام صمدانی گیلانی(سجادہ نشین آستانہ عالیہ کھوہ پاک شریف،اوکاڑہ) کی خواہش رہی کہ "اللہ پاک مجھے یہ توفیق دے کہ میں اپنے آباؤاجداد اور خاص طور پر میرے جدامجد شیریزادانی حضرت سیّد شیر محمد گیلانی المعروف سائیں شیرن پاک فتح پوریؒ کے حالات طیبات ،سبق آموز واقعات اور مجالیس و ملطوظات کو عوام الناس تک پہنچایا جائے تاکہ متوسلین ومعتقدین کا زیادہ سے زیادہ فیض و فائدہ پہنچے۔میں نے گاہے بگاہے اس سلسلہ میں اپنی مساعی اور حتی الوسع کوشش کو جاری رکھا، مختلف اہل علم،محققین ،علما اور قلم وقرطاس سے وابستہ افراد سے اپنی خواہش کا ذکر کرتا رہا اور چاہتا تھا کہ کوئی اس عظیم خدمت اور مشن میں میرا رفیق بنے۔لیکن یہ ارادہ اور کوشش تشنہ تکمیل رہی۔۔۔ (شاید)اس کے لیے ان پاک بارگاہوں سے منظوری شرط ہے۔جسے وہ قبول فرمائیں اُسی سے خدمت بھی لیتے ہیں۔ ایں سعادت بزور بازو نیست(کے مصداق) یہ عظیم خدمت وسعادت ہمارے سلسلہ کے محقق عظیم ،محب صادق جناب صاحبزادہ پیر محمد طاہر حسین قادری منگانوی کے حصہ میں آئی کہ اِس خانوادہ طریقت کے جملہ علمی وروحانی کمالات اور دینی خدمات کو منصہ شہود پر لاکر تا ابدالآباد فیضان شیر یزدانی جو ہر ایک تشنہ لب تک پہنچائیں اور انہیں اِس بحر عشق و مستی سے سیراب کریں۔" محترم پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب خانقاہ قادریہ طاہر آباد منگانی شریف ضلع جھنگ کے سب سے چھوٹے چشم و چراغ ہیں۔حضرت پیر محمد کرم حسین قبلہ عالم منگالوی ؒآپ کے والد محترم ہیں۔آپ کا نسبی تعلق قطب شاہی اعوان سے ہے ۔اور آپ کا سلسلہ نسب 38 ویں پشت میں امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت پیر محمد کرم حسین منگالویؒ کے تین صاحبزادے ہیں۔سب سے بڑے صاحبزادے حضرت علامہ پیر محمد مظہر حسین قادری صاحب اِس وقت آستانہ عالیہ منگانی شریف کے سجادہ نشین ہیں۔اورخانقاہ،اکیڈمی،رفاعی ادارے ،لنگر ،زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ عرس اور جمعہ کے موقع پرخطاب بھی فرماتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے پیر محمد اختر حسین قادری برطانیہ میں مقیم تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اور ہر سال ماہ نومبر میں خانقاہ منگالی شریف پر وقت گزارتے ہیں۔ جبکہ سب سے چھوٹے صاحبزادے پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب بھی تین ماہ پاکستان اور تین ماہ برطانیہ میں تبلیغی خدمات انجام دیتے ہیں۔ پیر محمد طاہر حسین صاحب علمی و ادبی شخصیت کے مالک، عالم باعمل پیر طریقت اور انتہائی مہمان نواز و علم دوست شخصیت ہیں۔آپ ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے چالیس کے قریب شائع بھی ہو چکی ہیں۔آپ نے اپنے دادا جان حضرت خواجہ حافظ گل محمد قادری (م۔1954ء) اور والد محترم حضرت پیر محمد کرم حسین منگالوی ؒ کے زیرمطالعہ رہنے والی کتب سے'' کتابخانہ ابن کرم منگالی شریف '' کی بنیاد رکھی اور دن رات محنت کرکے اِسے جھنگ کے ایک عظیم علمی و ادبی ورثہ میں تبدیل کردیا۔آج اس کتب خانہ میں نادرونایاب مخطوطات کے علاوہ چوبیس ہزار سےزائد اردو،عربی،فارسی،پشتو،پنجابی و دیگر زبانوں کی کتب تشنگان علم کی پیاس بجھارہی ہیں۔ زیر نظر کتاب"تذکار شیر یزدانی"اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور صاحبزادہ پیر محمد طاہر حسین قادری منگانوی کی سعی بلیغ اور کاوش جمیل ہے۔ خانوادہ فتح پور شریف و کھوہ پاک شریف پر"مآثر شیر یزدانی: اور" فیوض عارف متکلم"کے بعد "تذکار شیر یزدانی"اس بات کا بین ثبوت ہے کہ محترم پیر صاحب کی یہ علمی وتحقیقی خدمات بارگاہ شیر یزدانی میں یقنناً قبول ہیں ۔ "تذکار شیر یزدانی" ایک ایسے ولی کامل اور محبوب خدا کا تذکرہ ہے جس نےفتح پور شریف میں اپنے علم و عمل سے ہدایت کے چراغ روشن کیے اور بندگان خدا کو اللہ اور اُس کے رسول مکرم ﷺ کی اطاعت و پیروی کی راہ دکھلائی۔یہ کتاب گیارہ ابواب "حضور شیریزدانی کے آباؤاجداد"،"ولادت تعلیم وتربیت،بیعت وخلافت" ، "مسند ارشادعلمی مقام وفیضان"،"اوصاف،شمائل و خصائل"،"کوائف وصال و بعد از وصال"،"منظوم کلام انتخاب"،"مکتوبات وفرمودات" ، "ملفوظات و مجالس"،"شادی اور اولاد امجاد"،"عم عصر بزرگان دین خلفاء و متوسلین"اور "کرامات" پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مصنف جناب پیر طاہر حسین قادری صاحب لکھتے ہیں:"راقم الحروف نے بچپن سے لے کر اب تک جو کچھ حضور کے بارے میں آپ کی اولاد امجاد ،خلفائے سلسلہ اور بزرگ درویشوں کی زبانی سنا،یا آپ کے خلفاء و متوسلین کی کتابوں میں پڑھا تو اُسے یہاں پر راوی اور کتاب کے حوالہ سے ساتھ درج کرلیا تاکہ حضور سے متعلق تمام حالات وواقعات ایک جگہ جمع ہوجائیں۔اس کے علاوہ حضور کے مجموعہ کلام"مکتوبات عشق"اور ملفوظات شریفہ "مرات العاشقین"کا انتخاب علیحدہ علیحدہ باب کی صورت بطور نمونہ شامل کیا۔حضور کی اولاد امجاد،خلفائے کرام،معروف متوسلین اور ہم عصر بزرگان کا تذکرہ فقط اس حد تک کیا گیا ہے جو کتاب کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔(چونکہ)حضور کو دیکھنے والے اب موجود نہیں رہے لہٰذا سنی سنائی باتوں کے بجائے حضور کے دیکھنے والوں کی روایات چھان پھٹک کر محفوظ کرلینا بہت ضروری تھا۔" آپ کی اسی جزم و احتیاط نے "تذکارشیر یزدانی "کو ایک مستند حوالہ بنادیا ہے۔یہ ایک ایسی جامع سوانح حیات جس کا ہر صفحہ پیر طاہر حسین قادری کی محنت اور خلوص کا آئینہ دار ہے۔ہر واقعہ کے راوی کا ذکر نا،حوالہ جات اور ماخذ پر نظر رکھنا،روایت و درایت کا مکمل جائزہ لینا اور سب سے بڑھ کر اپنے پیران سلسلہ کے مزاج وافکار سے مکمل طور واقفیت رکھنا اس کے مستند ہونے پر دال ہے۔اس سوانح حیات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ نے ان واقعات کو قلم بند کرنے میں اس بات کا بلخصوص خیال رکھا کہ کوئی چیز قرآن و سنّت کے منافی نہ ہو۔کیونکہ شیوخ کرام کا یہی مزاج تھا کہ اُنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن وسنّت کی پیروی میں بسر فرمائی۔خود شیریزدانی فرماتے ہیں: "طالب صادق کو چاہیے ،ظاہر شریعت کا پابند اور باطن معرفت میں خود سند رہے تاکہ ظاہری اور باطنی کمال حاصل ہو"ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ "طالب صادق کو چاہیے ظاہر خلق کے ساتھ اور باطن میں خالق کے ساتھ رہے تاکہ شریعت و حقیقت دونوں جمع ہوجائیں ۔ظاہر سرتا پا سنّت اور باطن سربسر توحید ہو یعنی ظاہر شریعت میں شاد اور باطن سب سے آزاد" "تذکار شیر یزدانی" کی تصنیف و تالیف کے دوران صاحب کتاب کو حضور شیر یزدانی کی روحانی سرپرستی و توجہات بھی حاصل رہی۔ جس کا تحدیث نعمت کے طور پر اظہار کرتے ہوئے پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب لکھتے ہیں کہ:"تذکار شیر یزدانی کی تالیف و ترتیب کے دوران مجھے حضور کی روحانی توجہات اور برکات پہلے کی نسبت زیادہ میسر رہیں۔ہر مقام پر میری دست گیری برابر جاری رہی ،مزید ملتجی و متمنی ہوں کہ وہ نگاہ لطف واحسان اس خانہ زاد غلام کے حال پر ہمشہ برقرار رہے کہ ہم جو کچھ ہیں اُنہی کے کرم سے ہیں،اپنے قدموں سے یہ راہ طے کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔" خیال رہے کہ دنیاکی دولت سے بے رغبتی برتنے، شان و شوکت اور شہرت و ناموری سے بے نیازی اپنانے، اپنے ربّ کی رضا پر راضی رہنے، دوسروں کو اپنے سے بہتر جاننے، اللہ کی بنائی مخلوق سے محبت کرنے اور کبھی بھی غصہ و طیش میں نہ آنا بزرگان دین کا خاصہ رہا ہے ۔اور وہ اسے تصوف سے تعبیر فرماتے ہیں۔ جہاں اس تصوف کی کتاب کا ہر باب جاذبیت و دلکشی کا مرقع ہے وہاں اپنے دامن میں دعوت فکر و نظر بھی رکھتا ہے کہ حقیقی صاحبان تصوف کا طرز زندگی کیسا تھا اور آج اسی تصوف کو کیا سے کیا بنا دیا گیا ہے؟ اس کی روشن تاریخ پر ہم اگر اک نظر ڈالیں تو ایک بھی ایسا صوفی نہیں ملے گا جس نے دین کے بدلے میں دنیا کو سمیٹا ہو، جس نے وعظ و نصیحت کی کوئی قیمت مقرر کی ہو، تزکیہ و تصفیہ کی منازل سے گزارنے کے پیسے وصول کئے ہوں،تبلیغ دین کے نام پر جائیدادیں خریدی ہوں جو اپنی مجلس و محفل میں امیروں کو تو اپنے پہلو میں جگہ دے اور غریبوں کو آخری صف میں بٹھا دے، جو عوام الناس کی جیبوں کو خالی کروانا اور مریدین سے پیسے نکلوانا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہو، جو آرائش و آسائش سے رغبت رکھنے والا ہو۔ آسمان تصوف کے صرف ایک ستارے کی لاتعداد سنہری کرنوں میں سے اگرایک کرن کی آب و تاب کو ہی دل و دماغ میں اتار لیا جائے تو وہ باطن کو روشن کردیتی ہے اور ظاہر کو پابند دین وشریعت بنادیتی ہے۔ آج عصر حاضر کے مفکرین اور محققین اُمت کی زبوں حالی ، تنزل و انحطاط ،اسلام سے دوری ، اعمالِ صالحہ کے انجام دہی میں کسل مندی اور غفلت شعاری کی متعدد وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اُمت نے اپنا درخشاں و تاباں ماضی ، اکابرین و اسلاف کی پاکیزہ زندگی اوران کے علمی و عملی کارناموں کو فراموش کردیا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب جذبوں میں حرارت ایمانی ہے نہ حوصلوں میں پختگی،نہ روح میں تازگی ،نہ افکارمیں بلندی، بلکہ پست ہمتی،پژمردگی، مغربی تہذیب وکلچر انہیں ذریعۂ نجات،نظامِ اسلام انہیں فرسودہ اور روشن اسلامی تاریخ قصۂ پارینہ ” ان ھی الا اساطیر الاولین” نظر آتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بزرگان دین کی سوانح اور ان کی حکایات میں ایک خاص نور ہوتا ہے جو سننے والے پر کچھ درجہ وہی اثر رکھتا ہے جو صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔مقولہ مشہور ہے "عندذکر الصالحین تنزل الرحمۃ(تذکرۂ صالحین حصولِ رحمت کا ذریعہ ہے)، اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا:"اَلْحِکَایَاتُ عَنِ الْعُلَمَاء وَمَحَاسِنُھُمْ أَحَبُّ إِلَيَّ لِأَنَّھَا آدابُ الْقَوْم"علما کی حکایات اور ان کے محاسن کا تذکرہ میرے نزدیک بہت زیادہ محبوب ہے، کیوں کہ وہ قوم کے آداب ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ خدامستوں،خاصانِ خدا،کی سوانح، اور ان کے افکار وخیالات،میں سکونِ دل کا خاصا بیش قیمت سرمایہ پنہاں ہوتا ہے،جن کی زندگی کے مطالعہ سے روح کو تازگی، فکر کو پاکیزگی،اور خیالات کو بلندی حاصل ہوتی ہے اورزندگی کے مختلف روشن پہلوؤں سے پس آئندگان کو روشنی ملتی ہے۔ اس سے احسان شناسی کا جہاں فرض ادا ہوتا ہے تو وہیں نفع رسانی کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے، معاصی سے رکنے کی ہمت آتی ہے، نیز اسلاف کی زندگیوں کے مطالعہ سے زندگی میں تقوی و طہارت ،عبادت و ریاضت ،حق گوئی، جرأت ، خود داری،خودی و خود اعتمادی ، بادشاہوں ،حکمرانوں،اور ارباب اقتدار و سلطنت کے سامنے حق گوئی،احقاقِ حق اور ابطال باطل جیسے صفات پیداہوتی ہیں اوران حضرات کے تذکروں سے گم کردہ راہ مسافر کو نشانِ منزل کا پتہ ملتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمت اور بالخصوص نوجوانانِ ملت کو اپنے اسلاف کی رفعتوں و بلندیوں اور ان کے علمی و فکری کمالات و عجائبات، نیز ان کی پاکیزہ و روح پرور زندگیوں سے متعارف کیا جائے،تاکہ اُمت نئی تہذیب کے دلدل و مادہ پرستانہ طرز زندگی سے اپنے آپ کو نکال کر اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچل سکے اور نتیجہ میں اُمت دارین کی فوز و فلاح اور اصلاح و بہتری سے بہرہ یاب ہوپائے ۔ "تذکار شیر یزدانی" ایک ایسے ہی صوفی باصفا حضرت سیّد شیر محمدگیلانیؒ کا تذکرہ جمیل ہے۔جس نے اپنی زندگی خلق خدا کی ہدایت اور رہنمائی میں صرف کردی۔آپ کا پیغام اللہ سے قربت،نبی کریم ﷺ سے نسبت و عشق و محبت،اولیاء اللہ،صوفیائے کرام،علماء کرام سے تربیت و صحبت و ادب،انسانیت کی خدمت صرف اور صرف رضا الہٰی کے لیے تھا۔آپ نے جو چراغ جلایا وہ آج بھی روشن ہے۔ محترم پیر محمد طاہر حسین قادری صاحب نے اسی چراغ سے روشنی کشید کرکے"تذکار شیر یزدانی"جو کہ آپ کی سوانح پر اوّلین کتاب ہے،کو مرتب فرمایا ہے۔اس کا مقصد عوام الناس اور بالخصوص نوجوان نسل کو آپ کے احوال و مقام سے روشناس کرانا اورآپ کی حیات وخدمات کو معلوم تاریخ کا حصہ بنانا ہے۔ کتاب کا ابتدائیہ جناب سیّد قطب علی شاہ(دربار عالیہ قطبیہ سندھیلیا نوالی شریف) اور سیّد غلام صمدانی گیلانی(سجادہ نشین آستانہ عالیہ کھوہ پاک شریف،اوکاڑہ) نے لکھا ہے۔بڑے سائز میں 384 صفحات پر محیط یہ تذکرہ خوبصورت و دیدہ زیب سرورق کے ساتھ عمدہ کاغذ پرالمسطر پبلشرز اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔ ہم جناب پیر محمد طاہر حسین قادری منگانی شریف کو اس تحقیقی کاوش پر دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور شکر گزار ہے کہ آپ نے اپنے کرم ہائے محبت میں اس عاجزو ناکارہ کو بھی شامل فرمایا۔ربّ کریم سے پر اُمید ہیں کہ قبلہ پیر صاحب آف منگانی شریف کی یہ کتاب متوسلین و قارئین کے لیے خزانہ خیر و برکت اور فوزوفلاح ثابت ہوگی۔اللہ کریم قبلہ پیر صاحب کی اِس خدمت عالیہ کو قبول ومنظور فرمائے اور آپ کے علم وقلم سے نوروسرور کے چشمے یونہی جاری و ساری رہیں۔ اس تحفہ خاص اورکلمات محبت پر ممنون ومتشکر ۔جزاک اللہ خیرا فی الدارین محمداحمد ترازی مورخہ 17/اگست 2022ء کراچی
|