ای ڈی کی تلوار کے سیاسی شکار

معاشی جرائم یا غیر ملکی کرنسی قانون کے خلاف ورزی کی جانچ پڑتال کے لیے 1 مئی 1956 کو وزارتِ مالیات میں ایک محکمہ قائم کیا گیا اور 1957 میں اسے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا نام دیا گیا۔ ۱۱؍ستمبر 2001کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد پوری دنیا میں دہشت گردی اور اس کی فنڈنگ کو لے کر بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا۔ اس وقت ہندوستان کے اندر اٹل جی کی سرکار تھی ۔ اس نے پی ایم ایل اے کا قانون وضع کیا تاکہ دو نمبر کے پیسے کا ہیر پھیر روکا جاسکے۔ اٹل جی نے اس کا کوئی خاص استعمال نہیں کیا مگر 2005 میں پی چدمبرم نے پہلی ترمیم کے بعد اس کا نفاذ شروع کیا۔ اس طرح کانگریس پارٹی نے جس بندوق کو گولیاں بھر کے تیار کیا اس کا شکار کانگریس پارٹی سمیت خود چدمبرم ہوگئے ۔ اس قانون کے تحت پچھلے 17سالوں میں جملہ4964 کیس درج ہوئے اور 3086 چھاپے مارے گئےلیکن سزا صرف 23معاملوں میں ہوئی یعنی صرف 7.5 فیصد لوگ مجرم قرارپائے۔ باقی لوگوں کو بلا وجہ پریشان و ہراساں کیا گیا ۔ اس کے ذریعہ مخالفین کی عزت و آبرو سے ذرائع ابلاغ میں کھلواڑ کیا گیا اورشدید ذہنی کرب سے گزرنے کے بعد بے شمار دولت خرچ کرکے وہ رہا ہوئے۔
ای ڈی کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ 2020 کے بعد دیکھنے کو ملا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال ملک کی آٹھ غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں نے سی بی آئی کو جانچ کی اجازت نہیں دی۔ اس لیے پہلے جو کام سی بی آئی سے لیا جاتا تھا اب ای ڈی کرنے لگی ۔ بدعنوانی کو روکنے کی خاطر سی بی آئی کا قیام انگریزوں نے کیا مگر اس کے غلط استعمال کو روکنے کی خاطر کچھ پابندیاں بھی لگا دیں مثلاًسی بی آئی کو اسے کارروائی کرنے کے لیے صوبائی سرکار کے علاوہ متعلقہ افسران کے شعبے سے بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔ آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے ای ڈی کومختلف ترمیمات کے بعد ان پابندیوں سے بے نیاز کردیا یعنی نام نہاد جمہوری حکومت نے اپنے مخالفین کو قابو میں رکھنے کی خاطر انگریزی سامراج کو بھی مات دے دی۔ مثلاً تعذیراتِ ہند کے تحت پولیس کے سامنے لیے جانے والا بیان ثبوت نہیں مانا جاتا لیکن ای ڈی افسر کے سامنے لیا جانے والے بیان کو ثبوت تسلیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کو گھنٹوں کی تفتیش سے ذہنی اذیت میں مبتلا کرکے اپنا من پسند بیان لکھوا لینا ای اڈی کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور پھر جبریہ بیان کی بنیاد پر جیل بھیجنا آسان ہو جاتا ہے۔

عدلیہ کا مشہور اصول ہے کہ حراست استثناء اور ضمانت معمول ہے ۔ ای ڈی کے معاملے میں اس ضابطے کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ اس کے تحت جہاں گرفتاری نہایت آسان ہے وہیں ضمانت کا حصول بے حد مشکل کردیا گیا ہے۔ عام قوانین کے تحت کسی کو ضمانت دینے سے قبل عدالت کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ سرکاری وکیل کی دلیل سنے۔ اس کے بغیر بھی جج مناسب سمجھے تو ضمانت دے سکتا ہے لیکن ای ڈی ے معاملہ میں یہ سہولت نہیں ہے۔ سرکاری وکیل کے دلائل سننے کے بعد وہ ضمانت دینے یا مستر د کرنے کا استحقاق رکھتاہے۔ اس معاملے میں عدالت اسی وقت ضمانت پر کسی ملزم کو رہا کرسکتی ہے جبکہ وہ مطمئن ہوجائے کہ ضمانت کا خواستگار مجرم نہیں ہے اور وہ جیل سے باہر آکر شواہد پر اثر انداز نہیں ہوگا ۔ عدلیہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو الزام لگائے وہ جرم ثابت کرے یعنی جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم بے قصور ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ملزم کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ مجرم نہیں ہےاور عدالت میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے اس لیے ضمانت تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔

چدمبرم کو اگر پتہ ہوتا کہ مودی سرکار ان کے اور بیٹے کارتک کے خلاف اس قانون کا اس طرح استعمال کرے گی تو وہ اسے سخت بنانے کے بجائے ختم کردیتے لیکن دورانِ اقتدار ہر کرایہ دار اپنے آپ کو مکان کا مالک سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ فی الحال کانگریس خود اپنے ہی کھودے ہوے گڈھے میں گری کراہ رہی ہے۔ چدمبرم خود اس قانون کے تحت اپنے بیٹے سمیت جیل کی ہوا کھاچکے ہیں ۔ امیت شاہ نے اس قانون کی مدد سے اپنے جیل جانے کا خوب انتقام لیا۔ چدمبرم کو جی بھر کےخوار کرنے کے بعد مودی سرکار نے اب سونیا اور راہل گاندھی اس کے نشانے پرلیا ہے۔ نیشنل ہیرالڈ معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بہادر شاہ ظفر مارگ پر واقع ہیرالڈ ہاوس سمیت دہلی اور ملک کے 12 دیگر مقامات پر منی لانڈرنگ کے الزام میں چھاپے مارے ۔ اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسی کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی سے پانچ دن اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے تین دن تک پوچھ گچھ کرچکی ہے۔ اپریل میں میں سابق مرکزی وزیر پون بنسل اور کانگریس کے سینئر لیڈر ملیکارجن کھڑگے سے بھی تفتیش کی گئی تھی۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے مرکزی حکومت پر ہندوستان کی اہم اپوزیشن پارٹی کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا ان کے مطابق مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے سبب کانگریس کو خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن کانگریس عوام کے مسائل کو بلا خوف و خطر اٹھاتی رہے گی۔راہل گاندھی نے بھی فیس بک پر لکھا تھا کہ عوام خود کو اکیلا نہ سمجھیں، کانگریس آپ کی آواز ہے اور آپ کانگریس کی طاقت ہیں۔ مرکزی حکومت کے اس اقدام سے کانگریس نہیں ڈرے گی اور عوام کی آواز بلند کرتی رہے گی۔ آگے چل کرانفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے نیشنل ہیرالڈ دفتر میں واقع ینگ انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے دفتر کو سیل کر دیا اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ 10 جن پتھ کے باہر اضافی پولیس فورس تعینات کر دی ۔اس کے بعدکانگریس نےلوک سبھا میں ای ڈی کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔ اس کا کہنا تھاکہ ملک میں ای ڈی کا راج چل رہا ہے اور مخالفین کو دبانے کے لئے اس طرح کی کارروائی کی جا رہی ہے۔

مہاراشٹر کے اندر اقتدار کی تبدیلی کے لیے ای ڈی کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ڈھائی سال قبل اجیت پوار کو ای ڈی سے ڈراکر نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف برداری کے لیے آمادہ کیا گیا۔ راج ٹھاکرے کو اسی کی چنگل میں پھنسا کر اپنے خیمے میں لانے کے بعد اذان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ مہاراشٹر وکاس اگھاڑی میں وزیر داخلہ اور این سی پی کے سینئر لیڈر انل دیشمکھ کو اس قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا ۔ راشٹروادی کے ترجمان اور ریاستی وزیر نواب ملک کو بھی ای ڈی نے ہی گرفتار کیا ۔ انل دیشمکھ کی گرفتاری مکیش امبانی کے گھر پر رکھے جانے والے دھماکہ خیز مواد کے بعد ہوئی کیونکہ اگر وہ بھید کھل جاتا تو بی جے پی مشکل میں آسکتی تھی۔ نواب ملک نے جب سمیر وانکھیڈے کا پول کھولنے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس پرسنگین الزامات لگائےتو ای ڈی ان کے خلاف حرکت میں آگئی اور انہیں پابندِ سلاسل کردیا گیا حالانکہ پہلے ای ڈی نےان دونوں پر کوئی کیس نہیں کیاتھا۔

حزب اختلاف کے علاوہ بہت سارے انصاف پسند دانشور اور قانونی ماہرین بھی ای ڈی کو سیاسی مفادات کی غرض سے استعمال کیا جانے کاوالاآلۂ کار سمجھتے ہیں ۔ ان لوگوں نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرکے یہ الزام لگایا کہ جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں بھی ہیرا پھیر ی کامقدمہ جاری رہتا ہے۔ اس کے غلط استعمال کی کئی مثالیں بھی پیش کی گئیں۔ ای ڈی کے اختیارات کو چیلنج کرنے والوں کو سپریم کورٹ کے فیصلےسے امید تھی کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے بے جا استعمال سے حکومتوں کو گرانے اور اراکین اسمبلی کو اپنے خیمے میں لانے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ مگر ان امیدوں پر پانی پھر گیا۔عدالت میں افسران کے صوابدیدی اختیارات کو بھی چیلنج کیا گیا مگر اس کاکوئی اثر نہیں ہوا۔ ججوں نے افسران کو تفویض کئےجانے والے اختیارات کو قانون کے تحت حق بجانب اور مناب قراردیا۔ حکومت کی دلیل یہ تھی کہ اسی کی مدد سے وجے مالیا، نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے لوگوں سے بینکوں کے 18؍ ہزار کروڑ روپے واپس لیے گئے ۔

عدالتِ عظمیٰ کے اس حیرت انگیز فیصلے کی وجہ معلوم کرنے میں ماضی کے واقعات مدد کرتے ہیں۔ بابری مسجد کا متنازع فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس گوگوئی سے قبل جسٹس دیپک مشرا نے آخری دنوں میں دس مقدمات کا فیصلہ سنایا تھا۔ ان سے قبل سبکدوش ہونے والے جسٹس جے ایس کیھرنے آخری مہینے میں صرف پانچ فیصلے کیے تھے ۔ ان کےپیشروجسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اواخر میں 29قضیوں کا نمٹارا کردیا جبکہ جسٹس ایچ ایل دتو نے آخری مہینے میں صرف ایک فیصلہ دیا ۔ سبکدوشی سے قبل آخری ایام میں کئی جج حکومت کی خوشنودی کے لیے فیصلوں کی برسات کرکے عدل و انصاف کا خون کردیتے ہیں ۔ جسٹس کھانوِ لکر نے جاتے جاتے ای ڈی کے معاملے میں بھی سرکار کی من مراد پوری کردی ۔ اس کے بدلے ان کےکون کون سے ارمان پورے ہوں گے یہ تو وقت بتائے گا ۔ ای ڈی کا بے دریغ استعمال کرنے والی بی جے پی کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا اور کل جب ان کی سرکار نہیں ہوگی تو انہیں بھی اسی چھری سے ذبح کیا جائے گا ۔ خیر گردش زمانہ نے ایک سے یہ قانون بنوایا دوسرے سے اسے نافذ کروایا اور پھر پہلے سے اس کا استعمال کروا رہا ہے اور دوسرا اپنی باری کے انتظار کررہا ہے۔ زمانے کےاس الٹ پھیر میں جو عقل سے کام لینے والوں کے لیےسامانِ عبرت ہے ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452906 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.