اس عہد کے قابیل اور ان کے فی میل ورژن

پردیسی مرد جب جوان ہوتے ہیں صحتمند اور چاق و چوبند ہوتے ہیں اندھا دھند محنت کرتے ہیں پھر بھی اتنی مشکلوں سے ملی ہوئی بیوی کو اپنے ساتھ نہیں رکھا ہوتا اسے اپنے بےحس اور خود غرض گھر والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہوتا ہے ۔ خود پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں اُدھر بیوی سے اپنے پورے خاندان کی غلامی کرواتے ہیں ۔ یہی مرد جب بوڑھے اور بیمار ہو جاتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں کسی کام کے نہیں رہتے تو وہی بیوی ان کے ساتھ ہوتی ہے ان کی خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہے جسے اپنی زندگی ہی میں بیوگی کا مزہ چکھایا ہوتا ہے سالانہ ایک ماہ کی اوسط سے تک اس کے ساتھ نہیں رہے ہوتے ۔ سب اپنے ، خون کے رشتے کھا چاٹ کے اور لوٹ کھسوٹ کے ایک طرف ہو چکے ہوتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں مست مگن عیش کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں اور یہ عقل کے اندھے کسی کرائے کی کوٹھری میں اپنی آخری گھڑیاں گن رہے ہوتے ہیں ۔

ایسا ہی ایک عقل سے بےدخل شخص اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اور پہلا تھا ۔ بیس سال تک مشرق بعید کے ایک ملک میں ملازمت کی ۔ اس عرصے کے دوران پانچ چھوٹے بھائی بہنوں کی شادیاں کرنے کے بعد بالآخر اس بکرے کی بھی باری آ ہی گئی ۔ حسب توقع ماں بہنوں نے اس کے لئے ایک سفید پوش گھرانے کی سانولی سلونی یتیم لڑکی کا انتخاب کیا ۔ وہ خوبصورت نہیں تھی مگر کم عمر اور بہت سگھڑ و سمجھدار اور نیک سیرت تھی ۔ وہ اتنی اچھی بیوی پا کر بےحد نہال تھا اس کا شدت سے دل چاہا کہ اب اپنی باقی زندگی کا سفر اپنی شریک حیات کے ساتھ طے کرے اسے تنہائی جدائی اور جوائنٹ کے جہنم میں نہ جھونکے ۔ مگر ابھی باقی کے چار اور چھوٹے بہن بھائی کی شادیوں کا ذمہ اس کے سر تھا اور مکان کو مسمار کر کے نئے سرے سے بنوایا گیا تھا تو اس مد میں بینک سے لیا گیا قرض بھی واجب الادا تھا ۔ لہٰذا اپنی منکوحہ کا ایک شرعی اور بنیادی حق کماحقہ ادا کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ بہت بوجھل دل کے ساتھ وہ لوٹ گیا بیس سال پورے ہو گئے تو نوکری ختم ہو گئی اس نے کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی ایک معقول رقم والدین کے حوالے کی اور امارات چلا گیا چھ سال وہاں لگائے ۔ اس عرصے کے دوران والدین کا انتقال ہؤا اور خود اسے کئی طرح کی بیماریوں نے آن گھیرا تھا ۔ اب اس کے لئے پردیس میں رکنا ممکن نہیں تھا نوکری اور ساتھ ہی گھر داری بھی اس کے بس سے باہر کی بات ہو گئی تھی وہ مستقل واپس آ گیا ۔

کچھ ہی عرصے بعد بہنوں نے گھر میں سے اپنے اپنے حصے کے مطالبے کا شور کر دیا جبکہ گھر بنایا بھی اسی نے تھا اور اس کا خرچ بھی وہی چلاتا تھا ۔ بھائیوں پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی وہ جو کماتے تھے تھوڑا بہت ماں باپ کے ہاتھ پر رکھ کر باقی سب اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور انہی کی مشاورت و معاونت سے اپنے بہتر مستقبل کی سرمایہ کاری کر چکے تھے ۔ بہنوں کے ساتھ وہ بھی اپنے اپنے دکھڑے رونے لگے کہ انہیں رقم کی ضرورت ہے ۔ اس نے انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی ان کی نمکحرامی اور احسان فراموشی پر ان سے بہت خفا بھی ہؤا پھر اسی وجہ سے آپس میں بہت جھگڑا بھی ہؤا مگر کوئی صبر کرنے کے لئے تیار نہیں تھا انہیں بس اپنا اپنا حصہ درکار تھا کیونکہ مکان کے کاغذات باپ کے نام پر تھے اسی وجہ سے وہ سب اس کے دعوے دار بن بیٹھے تھے ۔ آئے دن کی چخ چخ سے تنگ آ کر بالآخر مکان فروخت کر دیا گیا ۔ اور سگے بہن بھائیوں نے جانے کیا ہیر پھیر کی کون سا چکر چلایا کہ برائے نام سی رقم اس کے حصے میں آئی اور بڑی بڑی رقمیں وہ شاطر لوگ لے اڑے اور یہ دو سال تک اپنی غریب سسرال میں پڑا رہا ۔ بیماری اور بیروزگاری میں انہی غریبوں نے اس کا ساتھ دیا جن کی بیٹی کے ساتھ یہ ہر طرح کی حق تلفی کا مرتکب ہو چکا تھا ۔ پھر چھبیس سال تک دیار غیر میں گدھوں کی طرح محنت کرنے والا یہ قربانی کا بکرا ملک کے سب سے بڑے شہر کی ایک پسماندہ و غربت زدہ آبادی میں کرائے کے دڑبے میں گیا ۔ شاید سوچتا ہو گا کہ جنت تو پکی ہو گئی اور یہ وہ جنت ہوتی ہے جو ہمیشہ اپنی منکوحہ کو اپنے جیتے جی بیوہ کر کے اور اس کی زندگی کو جہنم بنا کے پکی کی جاتی ہے ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1855251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.