ہمارے ملک کی آزادی کو 75 سال ہو گئے ، جو ہم تمام
ہندوستانیوں کے لئے بے حد خوشی اور باعث فخر ہے ۔ اس جشن کو حکومت ہند نے
’’ امرت مہو تسو ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ اس جشن پر حکومت کی جانب سے ’’ہر گھر
ترنگا‘‘ کی مہم چلائی گئی ہے ۔ حالانکہ ہم لوگ بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ
یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے خاص موقع پر بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد
، ہندو، مسلمان ، سکھ ، عیسائی سبھی فخر اور حب الوطنی کے ساتھ ملک کا چم
لہراتے ہیں ۔ بلا شبہ بیگم ثریا طیب کا ڈیزائن کردہ یہ قومی پرچم امن ،
اتحاد ، ہم آہنگی ، یکجہتی اور قومی اقدار کی عکاسی کرتا ہے ۔آزادی کے امرت
مہو تسو کے اس جشن پر ’’ہرگھر ترنگا‘‘ مہم اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے
کہ جن لوگوں نے اس قومی پرچم کی اہمیت اور تقدس کو 52 برسوں تک نہیں سمجھا
، انھیں اب اپنی غلطیوں کا شدّت سے احساس ہو گیا ہے کہ ہم نے جنگ آزادی میں
کوئی کردار ادا کیا ، نہ ہی ہمارے درمیان کوئی ایسی شخصیت پیدا ہو سکی ، جس
کی جنگ آزادی نے کسی طرح کی کوئی قربانی رہی ہو۔ بہر حال اب یہ لوگ بھی ’
گھر گھر جھنڈا ‘ مہم میں پیش پیش ہیں۔لیکن افسوس کہ اب بھی ان کے درمیان
ایسے لوگ موجود ہیں جو قومی پرچم کی توہین کرنے میں پیچھے نہیں ہیں ۔اپنے
متنازعہ بیان سے سرخیوں میں رہنے والا یتی نرسنگھا نند نے تو وزیر اعظم
نریندر مودی کی ’ہر گھر ترنگا‘ مہم کو ہی چیلنج کرتے ہوئے قومی پرچم اور اس
مہم کو بائکاٹ کرنے اور ترنگا کی جگہ بھگوا پرچم لہرانے کی اکثریتی طبقہ سے
اپیل کی ہے ۔اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ترنگے کے نام پر بہت بڑی مہم
ہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی چلا رہی ہے۔یہ بات اس وقت کوئی اور کہتا
تو اسے ’ دیش دروھ‘ قرار دے کراس پر اتنے سارے الزامات لگاکر جیل میں ڈال
دیا جاتا کہ پوری زندگی وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزارنے پر مجبور ہو
جاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یتی نرسنگھا جیسا شدت پسند مسلم دشمن ہی نہیں بلکہ
یہ ملک دشمن ہے ، جو کھلم کھلّا قومی پرچم کی توہین کر رہا ہے ۔ ضرورت اس
بات کی تھی کہ اس جشن آزادی کے اس بہت ہی خاص موقع پر ایسے بیانات ،جوملک
کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔اس پر نہ صرف حکومت کے ذمّہ داروں
کا سخت بیان آتا بلکہ اسے فوری طور پر ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار کر
جیل میں بھیج دیا جاتا ۔ لیکن افسوس کہ تا دم تحریر ایسی کوئی خبر نہیں ملی
ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے زہر افشانی کرنے والے کوشہرت تو ضرور ملتی ہے
لیکن اس کے منفی اثرات دور تک جاتے ہیں ۔ ا س لئے ایسے لوگوں کی زبان پر
لگام لگانا ضروری ہے، تاکہ پھر کوئی ملک دشمنی کی ایسی کوئی حرکت نہ کرے ۔
اپنے وائرل ویڈیو میں یتی نرسنگھا اس بات پر بھی معترض ہے کہ ترنگا بنانے
کا سب سے بڑا آرڈر مغربی بنگال کی ایک کمپنی دیا گیا ہے جس کے مالک کا نام
صلاح الدین ہے ۔ اتنی خبر رکھنے والے یتی کو اس بات کی بھی خبر ہونی چاہئے
کہ پرچم بنانے کا ٹھیکہ جن لوگوں کو دیا گیا ہے ، ان میں پانچ گجرات کے ،
دہلی کے دو ، پنجاب اور مغربی بنگال کے ایک ایک کو ٹھیکہ دیا گیا ہے ۔ جن
سے حکومت فی پرچم بیس روپئے میں خریدے گی ۔ اس پورے ایونٹ پر 720 ک روڑ
روپئے کا خرچ آئے گا ۔ جن سے ملک کے بیس کروڑ لوگوں کے گھروں میں ترنگا
لہرانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ یہ روپئے حکومت
اپنے خزانہ یا پھر پی ایم کئیر فنڈ سے خرچ کرے گی ۔ لیکن اس سلسلے میں جو
خبریں آ رہی ہیں ، وہ یہ ہے کہ یہ روپئے حکومت ریلوے ، بینک اور دیگرسرکاری
اداروں کے ملازمین سے ان کی مرضی کے بغیر ان کی تنخواہ سے کا ٹ رہی ہے ۔ اس
سلسلے میں اطلاع یہ ہے کہ نارتھ سنٹرل ریلوے کے 63 ہزار ملازمین سے قومی
پرچم کے نام پر فی کس 38 روپئے وصول رہی ہے ۔ جس کی نارتھ، ایمپائز یونین
نے سخت مخالفت کی ہے۔ ان کے کہنا ہے کہ پرچم کے لئے ان کی تنخواہ سے کٹوتی
کرنا مناسب نہیں ہے ، ملازمین پرچم خود خریدتے ہیں ۔ اسی طرح پرچم کے نام
پر بینک کے ملازمین نے بھی ان کی تنخواہ سے بغیر ان کی رضامندی کے پیسے کاٹ
لئے جانے کو غیر مناسب قدم قرار دیا ہے ۔ افسوسناک خبر یہ بھی سامنے آ ئی
ہے کہ ہریانہ میں غریبوں کو راشن دینے سے قبل ہر راشن دوکانداروں نے بیس
روپئے میں جھنڈا خریدے جانے کی شرط لگا دی ہے۔ اتر پردیش کے سرکاری اسکولوں
میں چھوٹے چھوٹے غریب و نادار بچوں کو کہا جا رہا ہے کہ ہر بچہ اپنے گھر سے
پندرہ روپئے ترنگا لے کر آئے ،تبھی اسکول میں داخلہ ملے گا ۔ غریبوں کے
ساتھ یہ سب سراسر ظلم ہے ۔ اس طرح زبردستی ’ہر گھر ترنگا ‘ کی مہم سے حب ا
لوطنی کو پرکھنے کی کوشش قطئی مناسب نہیں ہے ۔ حب الوطنی ایک داخلی احساس
اور جذبہ ہے جو ملک سے محبت کا اظہار ہے اور یہ احساس و جذبہ کوئی زور
زبردستی سے نہیں پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسے کسی ایونٹ کا محتاج ہے
۔ ’ہر گھر ترنگا‘ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ سارے
پرچم راویت سے انحراف کرتے ہوئے کھادی کے کپڑوں سے نہیں بلکہ مرکزی حکومت
کے حکم پر تیار پولسٹر کے کپڑوں سے تیار کئے جا رہے ہیں۔ اس سے ایک جانب
جہاں ٍمہاتما گاندھی کی کھادی کی روایت کو زبردست نقصان پہنچے گا وہیں
پولسٹر کی تجارت کرنے والے امبانی اور پولسٹر تیار کرنے اور امپورٹ کرنے
والے پڑوسی ملک چین کو بڑا فائدہ پہنچے گا ۔حکومت ہند کی اس پالیسی کے خلاف
کانگریس رہنما راہل گاندھی نے سخت اعتراض کیا ہے اور امبانی وچین کا بھی
ذکر کیا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حب الوطنی کے مقدس احساسات وجذبات کو
بھی سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جائے تو اس طرح کے کئی سوال ضرور کھڑے
ہوتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آزادی کی 75 سال کے اس جشن پر ہر گھر
ترنگا کی بجائے ہر گھر روٹی اور ہر گھر روزگار دینے کا اعلان اور نعرہ ہوتا
ہوتا ، تو کتنی اچھی بات ہوتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔
ملک کی آزادی کو 75 سال کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کم نہیں
ہیں ۔ اسی ملک میں ایک بادشاہ شیر شاہ ایسا گزرا ہے، جس نے صرف پانچ سال
حکومت کی اور پورے غیر منقسم ہندوستان کی کایا پلٹ دی ۔آج بھی ہمارا ملک اس
کے بنائے قدموں کے نشانات پر چل رہا ہے۔ اس نے تعمیر و ترقی کی مثالیں قائم
کی ہیں ، جنھیں ہم فراموش نہیں کر سکتے ہیں ۔ اس لئے آزادی کے اس خاص موقع
پر کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت محاسبہ کرتی کہ جن مقاصد کے لئے ہم نے آزادی
حاصل کی ہے ۔ ان میں ہم کہاں تک کامیاب ہوئے ۔ ’وشو گرا‘ بننے کا خواب بے
شک بہت اچھا ہے ۔ لیکن وشو گرو بننے سے قبل اپنے ملک کی حالت پر نظر ڈالنا
اور ملک کے حقائق سے روبرو ہونا ضروری ہے ۔آج ملک کی حالت یہ ہے کہ لوگ
بھوک سے مر رہے ہیں ، خود کشی کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی
اس بات کی نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بھوک سے کوئی نہیں مرے ، اس کا
خیال حکومت کو کرنا چاہئے ۔ ایک عالمی سروے کے مطابق اپنے ملک میں بھوکے
رہنے والوں کی تعداد 116 ممالک کے مقابلے 101 ویں نمبر پر ہے ۔ بے روزگاری
کا عالم یہ ہے کہ حکومت کے مطابق بائیس کروڑ بے روزگار نوجوان نوکری کے لئے
اپلائی کرتے ہیں اور ان میں سے صرف سات لاکھ لوگوں کو ملازمت نصیب ہوتی ہے
۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ پڑھ لکھ کر یہ نوجوان بے روزگاری کی مار جھیل
رہے ہیں ۔ملک میں معیشت الگ تباہ کن مرحلے میں ہے ۔ آر بی آئی بار بار ملک
کی بد ترین اقتصادی صورت حال کے تئیں متنبہ کر رہی ہے ۔ ملک پر قرض کا بوجھ
بڑھتا جا رہا ہے ۔ خود حکومت نے یہ قبول کیا ہے کہ ملک پر قرض کا بوجھ اب
155 لاکھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ اگلے سال قرض کا صرف سود 6.23 لاکھ کروڑ
روپئے ادا کرنے کے لئے ملک کو 12لاکھ کروڑ کا مذید قرض لینے کی نوبت آ گئی
ہے ۔ ڈالر کے مقابلے روپئے کی قدر گرتے گرتے 80 روہئے تک پہنچ گئی ہے ۔سچ
تو یہ ہے کہ ملک کو اقتصادی اعتبار سے کھوکھلا کر دیا گیا ہے ۔ کوئی واضح
منصوبہ یا حکمت عملی نہیں ہے اور ملک کے چند تاجروں کے مفادات کو ترجیح
دینے کے لئے بینکوں کے خزانے خالی ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان باتوں پر آئے دن
ملک بھر میں ہنگامے ہو رہے ہیں ۔ لیکن ان پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ اس
وقت بڑھتی مہنگائی عام آدمی کراہ رہا ہے ۔ آر بی آئی بھی اس امر کا اعتراف
کر رہی ہے کہ مہنگائی بے قابو ہو رہی ہے ۔ ابھی ابھی پارلیامنٹ کا مانسون
سیشن کئی دنوں تک تعطل کا شکار رہا کہ حکومت مہنگائی کے سوال پر بحث کرانے
کو تیار نہیں تھی لیکن جب کئی روز تک حزب مخالف مہنگائی کے مسئلہ پر چرچا
کے لئے اڑی رہی ، تب آخر کار حکومت کو سپر ڈالنا پڑی اور بحث کے دوران جس
طرح حکومت کی فضیحت ہوئی ہے ، وہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ ملک میں عوام کی
بنیادی سہولیات کا کس قدر فقدان ہے ۔ اس کا آئے دن بین الاقوامی سطح پر
تنقید ہوتی رہتی ہے ۔ گزشتہ سال کے عالمی وبا کے دوران ملک میں طبی سہولیات
کی جس طرح پول کھلی ہے ، وہ بہت ہی شرمناک ہے ۔ ڈاکٹر ، دوائیں ، آکسیجن ،
ایمبولنس ، اسپتال کی کمیوں سے کس طرح لوگ تڑپ تڑپ کر مرے ہیں ۔ اس کا
اندازہ WHO کی اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔جس میں اس نے بتایا ہے
کہ انڈیا میں کووڈ سے مرنے والوں کی تعدا 47 لاکھ سے بھی زیادہ ہے ۔ ملک کی
فضا دن بہ دن مسموم ہوتی جا رہی ہے ۔ ملک کی یکجہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی
کا ماحول دانستہ طور پر آلودہ کیا جا رہا ہے اور ملک کے ماحولیات کا یہ
عالم ہے کہ دنیا میں بڑھتی آلودگی میں ہم181 نمبر پر یعنی بالکل آخری
پائدان پر ہیں ۔افسوس کہ اس جانب بھی کوئی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی
ہے ۔اب رہا ملک میں بڑھتی فرقہ واریت کی مسموم فضا کی تو اس ضمن میں اقوام
متحدہ کے ساتھ دیش اور دنیا کے لوگ مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ ایسی مسموم
فضا سے ملک کو بڑا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ چند روز قبل ہی ریزرو بینک
آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ مضبوط معیشت کے لئے
فرقہ وارانہ ہم آہنگی بہت ضروری ہے ۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اقلیتوں
کو دوسرے درجے کا شہری بنایا گیا تو ٹوٹ جائے گا ہندوستان۔ ایسے انتباہ کے
بعد بھی ان مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور صرف چھوٹے وعدے اور دعوٰے
پر ہی ملک کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششیں ہو رہی ہے ۔ اس لئے کیا ہی
بہتر ہوتا اگر ہم اس آزادی کے اس بہت ہی خاص اور جشن آزادی کے موقع پر اس
بات کا محاسبہ کریں کہ ان 75 برسوں میں ہم نے کیا کچھ کھویا ہے اور کیا
پایا ہے ۔ جو پایا ہے ان پر ہم بے شک جشن منائیں اورجو کھویا ہے ان پر بہت
سنجیدگی سے ملک کے مفادات میں لائحہ عمل تیار کریں۔ حکومتیں تو آتی جاتی
رہتی ہیں ۔ حکومت کو لوگ ملک کے مفاد میں لئے گئے فیصلوں اور ترقی اور
خوشحالی کے لئے مثبت کاموں سے یاد رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
|