ایک فیصلہ، جو بہت سوں کے نزدیک بڑا متنازعہ ہے، کے آنے
پرتحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کا رقص جاری ہے۔تالیاں بج رہی
ہیں۔خوشی منائی جا رہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ قابو آ گیا، قابو آگیا۔ اب اسے
بچنا نہیں چائیے۔لمبے عرصے سے عوام میں جو ان پارٹیوں میں ناقدری کا رحجان
تھااور جو اب بھی جاری ہے مگر ان پارٹی لیڈروں کا خیال ہے کہ اگر وہ بدنام
تھے تواب اس فیصلے کے بعد ان کا مخالف بھی اب نیک نام نہیں رہا۔اس کی کوشش
ہے کہ نعرے بازی اور بیان بازی سے اپنی ڈوبتی ساکھ کو کسی طرح سہارا دیا
جائے۔مگر یہ شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو کیونکہ جب ایک دفعہ ساکھ بگڑ جائے تو
پھر کچھ کیا جائے بگڑی بن نہیں سکتی۔سچی بات یہ ہے کہ تالیاں نہیں بغلیں
بجائی جا رہی ہیں۔ جو نعرے لگ رہے ہیں ان سے انتقام اور بدلے کی بساند آرہی
ہے۔ہمارے ملک میں سیاست ایک گند ہے ۔ کوئی کتنا بھی نیک، ایماندار اور صاحب
کردار ہو سیاست کی بستی میں داخل ہو کر اس گند کے چھینٹوں سے خود کو محفوظ
نہیں رکھ سکتا۔تحریک انصاف بھی اسی ملک میں سیاست کر رہی ہے یقیناً اس میں
بھی کچھ نہیں، بہت سی خا میاں ہوں گی۔ مگر ہمارے یہ پرانے لیڈر تو کرپشن،
بد دیانتی اور گند کے کوہ گراں ہیں۔ عمران خان اپنی تمام تر خامیوں کے
باوجود ان سے بدرجہا بہتر ہے۔قوم اگر آج اس کی حمایت میں کھڑی ہے تو اس کی
صرف ایک وجہ ہے کہ وہ ان بدترین لوگوں کے مقابلے میں ہر حال میں بہت بہتر
ہے۔بدتر لوگوں کے جم غفیر میں کم درجے کی برائی۔آج کا نوجوان جو سیاسی
جماعتوں سے نا امید ہی نہیں مکمل مایوس ہے، عمران خان اس کی آخری امید ہے۔
حکومت کے حامیوں کے ایسے فیصلے حکومتی اقابروں کو کچھ حوصلہ سے تو سکتے ہیں
مگر عام آدمی کی سوچ پر حاوی نہیں ہو سکتے۔فیصلہ کرنے والے پوری طرح دیکھتے
ہیں کہ ک کا دامن کس قدر آلودہ ہے۔
دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر الزام ہے کہ گھر کا سب کچھ لوٹ کر ،چرا کر
گھر سے باہر لے گئے ہیں۔اپنے گھر کو اجاڑ گئے ہیں مگر ڈھٹائی سے ہر جرم سے
منکر ہیں۔ انہیں عدالتوں سے کھیلنا آتا ہے۔ کسی نہ کسی فنی خامی کو بنیاد
بنا کر خود کو بچانا بھی جانتے ہیں۔پہیے لگانا بھی ان کے بائیں ہاتھ کا
کھیل ہے مگر لوگ حقیقت جانتے ہیں اس لئے لوگ انہیں چور قرار دیتے ہیں۔
دوسرے وہ ہیں جن پر الزام ہے کہ یہ لوگ باہر سے چیزیں چرا کر ، ٹھگ کر گھر
میں لے آئے ہیں ۔ اس لٹے ہوئے خالی گھر میں کچھ حاصل تو کرکے لائے ہیں۔مگر
وہ بھی چور ہی قرار پائے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر سے چوری کرکے باہر
سمیت لے جانے والے چوروں کوتو ہم کچھ نہ کہیں مگر چوری کرکے گھر کو بہتر
شکل دینے والے اکیلے ملزم قرار پائیں۔ یہ قدم اٹھانا عدالتوں اور اسٹبلشمنٹ
دونوں کے لئے دشوار ہوگا۔دونوں کو بیک وقت سنا جاتا تو بہتر تھامگر اب سب
یک طرفہ ہے۔ ویسے تو اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس طرح کا قدم
اٹھانے کے بعد عوام کو قابو میں رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔خاص طور پر
اس وقت جب عمران خان شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہو۔ایسے وقت
میں لوگ ضرور پوچھیں گے کہ ایک فریق ہی نشانے پر کیوں ہے اور دوسروں پر
اتنا کرم، کچھ وجہ تو پتہ چلے۔ویسے چور چور کے شور میں کسی سیاست دان کو یہ
احساس ہی نہیں کہ عوام کا کیا حال ہے ، مہنگائی نے انہیں کس قدر کچل دیا
ہے۔ان کے لئے جینا کس قدر دشوار ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ مگر سیاست
اور سیاست دانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ان کو عوام سے کیا۔ ان کے لئے
تو یہ ایک مشغلہ ہے، کھیل ہے۔ ان کی جائیدادیں، ان کی اولادیں۔ ان کے مشاغل
اور سب کچھ کہیں باہر ہے ۔یہاں تو وہ فقط حکمرانی کرنے آتے ہیں اور اس
حکمرانی کے دوران جو کچھ سمیت سکتے ہیں، سمیت کر اپنے وطن واپس چلے جاتے
ہیں۔
لوگ عدالتوں کے بارے بہت کچھ کہتے ہیں ۔ مگر مخصوص جج کل عدالت نہیں ہوتے ۔
لوگ صرف ان کے بارے بات کرتے ہیں، جو اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرتے۔ جن کا
وجود ان کے پیشے سے میچ نہیں کرتا۔جو اپنے مقاصد کے لئے غلط فیصلے کرتے
ہیں۔ان کے فیصلے خود لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ کچھ کہو۔ لوگ بہت با خبر
ہیں۔ انہیں سب کا پتہ ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست ریٹائرڈ کرنل سے پوچھا کہ
آجکل لوگ فوج کے بارے عجیب باتیں کرتے ہیں۔ ایسی باتیں کہ جن سے فوج کے
وقار میں کمی آتی ہے۔فوج کی عزت نہیں ہوتی۔ ہنس کر بولا کون کہتا ہے فوج کی
عزت کم ہو گئی ہے۔ میں ریٹائر آدمی ہوں جب بھی کسی نئے آدمی کو پتہ چلتا ہے
کہ میں فوجی ہوں وہ میرے ہاتھ چومتا ہے۔والہانہ پیار کرتا ہے۔بچے فوجیوں کو
دیکھ کر راستے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور باقاعدہ سلیوٹ مارتے ہیں، یہی پیار
ہے، یہی عزت ہے۔ وہ عزت جو عام آدمی سوچ نہیں سکتا اس سے بھی زیادہ فوج کے
لوگوں کا احترام ہے۔ لوگوں کو تحفظ کا احساس ہی فوج دیتی ہے۔ کوئی ملک فوج
کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔اس ملک کے ہر باشندے کو پتہ ہے کہ
میرے جیسے فوجی کی جان ہر وقت اس کی حفاظت کے لئے حاضر ہے، وہ کیسے میرے
بارے کچھ غلط سوچ سکتا ہے۔ہاں ایک دو بندے ہیں جن کی حرکتوں کی فوج بھی
شاکی ہے۔ فوج بھی آپ سب لوگوں ہی میں سے ہے۔ کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں۔
غلطیاں بھی انسان ہی کرتے ہیں۔سابق فوجی بھی ان ایک دو بندوں سے نالاں ہیں
مگر کوئی کچھ کر نہیں سکتا۔کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو بھینس بھی اسی کی
ہوتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ فوج ہر چند سال بعد اپنی باری لینے حکومت میں آ جاتی ہے ۔
میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ فوج نہیں آتی ہمارے سیاست دان خود اسے دعوت
دیتے ہیں۔ فوج مجبوری میں آتی ہے اور عموماً اسوقت آتی ہے جب سب کو یقین ہو
جاتا ہے کہ آج کے حالات میں فوج جرات ہی نہیں کر سکتی۔مصیبت یہ کہ فوج
مجبوری میں آتی ہے مگر مرضی سے جاتی ہے۔ آنے کے بعد اسے کوئی جلدی نہیں
ہوتی۔ آج بھی ہمارے سیاستدان پوری کوشش میں ہیں کہ حالات خراب سے خراب تر
ہوتے جائیں۔ ان کے جھگڑے ،ان کی لڑائیاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ یہ خراب حالت،
یہ جھگڑے، یہ لڑائیاں فوج کو کھلی دعوت ہے۔عام آدمی بھی مہنگائی کے ہاتھوں
اس قدر تنگ ہے کہ کسی بھی مسیحا کو خوش آمدید کہنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
تو خوش آمدید دوستو! خوش آمدید۔سیاست دان اگر راہ راست پر نہیں آتے تو
معیشت تو کوئی تو راہ راست پر لائے گا۔
تنویر صادق
|