ہمارے دیس کے متوسط گھرانوں میں جب کوئی نوجوان اپنے گھر
والوں کو اپنی پسند کی لڑکی بتاتا ہے تو سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں خاص
طور پر اس کی ماں بہنوں کے ۔ خواہ وہ لڑکی خود اپنے خاندان ہی کی کیوں نا
ہو مگر ماں کو اپنی بادشاہت خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے اور بہنوں کو اپنی
وزارت ۔ ان کو لگتا ہے کہ بھائی جس لڑکی پر ابھی سے اتنا لٹو ہے تو جب وہ
بیاہ کر گھر میں آئے گی تو یہ تو بالکل ہی ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔ چنانچہ
وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ ناہنجار بھائی کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا
دیں اور اکثر ہی کامیاب بھی ہو جاتی ہیں ۔ پھر کافی عرصہ تک بھائی کو دم
دلاسوں اور لاروں لپوں میں رکھنے کے بعد بالآخر خوب چھان پھٹک کر ناپ تول
کر خود اپنی پسند سے لڑکی بیاہ لاتی ہیں ۔ بمشکل چند ہی روز گزرتے ہیں کہ
اس لڑکی کی بات بات میں انہیں کیڑے پڑے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں ۔ اگر وہ ٹکر
کی ملی ہے تو ان کی نکتہ چینیوں کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتی اور انہیں ان
کی اوقات میں رکھتی ہے ۔ کماؤ بیٹے کو اپنے قابو میں اور گھر کی بہو کو
اپنا بے دام غلام بنا کر رکھنے کی شوقین ایسی ہی ایک خود غرض اور مفاد پرست
ماں بہنوں کو ان کی ہی پسند کی ہوئی ایک لڑکی نے ایسا سبق سکھایا جس کی
نظیر نہیں ملتی ۔
ایک نوجوان جو باپ کی زندگی ہی میں گھرانے کا کفیل بن گیا تھا بیرون ملک
ایک اچھی ملازمت کرتا تھا ۔ دو بڑی بہنوں اور ان کے بعد اپنے سے دو چھوٹی
بہنوں کی بھی شادی کے فرض سے سبکدوش ہؤا تو اس کی بھی باری آ ہی گئی ۔ ایک
چھوٹا بھائی ابھی زیر تعلیم تھا اور اس بکرے پر نظر کرم کی بنیادی وجہ یہ
تھی کہ اس کی بہنیں میکے ملنے اور رہنے آتیں تو ماں اکیلی ہونے کی وجہ سے
انہیں کچن میں اس کا پورا پورا ہاتھ بٹانا پڑتا تھا اور واپس جانے سے پہلے
پورا گھر صاف سمیٹ کر جانا بھی ان کے ذمہ ہوتا ۔ میکے آنے کا تو جیسے کوئی
مزہ ہی نہیں رہا کہ آکر کھانا بھی خود ہی پکاؤ اور صفائی بھی کرو ۔ اب
انہیں اپنے لئے ایک خدمتگار کی ضرورت محسوس ہونے لگی جو ان کی آمد پر انہیں
بٹھا کر کھلائے اور یہ ہل کر پانی بھی نہ پیئیں ۔ انہوں نے کمال فیاضی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے بھائی سے پوچھا کہ کوئی لڑکی پسند یا نظر میں ہے تو بتاؤ
۔ اس نے پرانے محلے کی ایک لڑکی کا نام لیا جسے وہ بہت پہلے سے پسند کرتا
تھا مگر بہنوں کی ذمہ داری کی وجہ سے خاموش تھا ۔ اب جو اس نے منہ کھولا تو
ماں بہنوں کے منہ حیرت سے کھل گئے کیونکہ بقول ان کے اس لڑکی کے خاندان کا
تعلق ایک نیچ ذات سے تھا اور وہ ہرگز اسے اپنے گھر کی بہو نہیں بنا سکتی
تھیں ۔ لڑکے نے مذاق میں کورٹ میرج کی دھمکی دی تو ماں نے اسے دودھ نہ
بخشنے کی دھمکی دے کر اس کا منہ بند کرا دیا ۔ اور خود اس کے لئے علی
الاعلان ایک بہت سگھڑ اور سلیقہ شعار لڑکی ڈھونڈنے لگیں جو آ کر پورا گھر
سنبھال لے ان کے سمیت ۔ کبھی اپنے شوہر کے پاس جانے اور اس کے ساتھ رہنے کی
بات نہ کرے وہ سال دو سال بعد چکر لگا لیا کرے گا ۔ اور اپنی شرط واضح کرنے
کے بعد ایک سفید پوش گھرانے کی مناسب پڑھی لکھی محنتی لڑکی بیاہ لائیں ۔
شوہر اس کے ساتھ مہینہ بھر گزار کر واپس چلا گیا اور لڑکی گھر کے کام کاج
کے ساتھ باہر کی بھی ذمہ داریاں پوری کرنے لگی ۔ ہر آئے گئے کی مہمانداری
نندوں کی ناز برداری بوڑھے بیمار ساس سسر کی تیمارداری و تابعداری کے ساتھ
ساتھ سودا سلف دوا دارو یوٹیلٹی بلز بینک کا لین دین وغیرہ وغیرہ ۔ اکثر ہی
دیور اس کا معاون و مددگار ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ میکے ملانے کے لئے بھی
کبھی کبھی وہ ہی لے جاتا تھا ۔ دونوں کی آپس میں خوب بننے لگی بلکہ گاڑھی
چھننے لگی ۔
چھ ماہ گزرے ہوں گے کہ ایک دن لڑکی نے فون پر اپنے شوہر سے کہا کہ میری
شادی تو تم سے ہوئی ہے مگر میں رہتی تمہارے بھائی کے ساتھ ہوں ۔ نکاح میں
تمہارے آئی اور ہر گھڑی میرے ساتھ ہوتا ہے ایک نامحرم ۔ ویسے بھی تمہیں
بیوی کی نہیں اپنے گھر والوں کے لئے نوکرانی کی ضرورت تھی تم مجھے طلاق دے
دو ۔ آپس میں منہ ماری ہوئی اور شوہر نے طیش میں آ کر فون پر ہی اسے تین
طلاقیں کہہ دیں ۔ اور اس مختصر سے عرصے کے دوران لڑکی نے کیسا اپنی پوری
سسرال پر اپنی دھاک بٹھا دی تھی کہ اس واقعے کے بعد بھی ساس نندیں اسے
کھونا نہیں چاہتی تھیں انہیں پتہ تھا کہ ایسی مفت کی ملازمہ پھر نہیں ملنے
والی ۔ اور بعد عدت کے وہ اسے دوبارہ بیاہ لائیں ۔ لڑکی نے انہیں مایوس
نہیں کیا وہ اپنی ذمہ داریاں بدستور پوری کرتی رہی اپنے دیور سے نکاح پڑھوا
کر ۔ اور خود کو ایک نہایت ہی فرمانبردار اور خدمت گزار بہو کے طور پر
منوانے میں کامیاب رہی ۔
طنز و مزاح سے شروع کیے گئے اس حقیقی واقعے میں ان لوگوں کے لئے ایک سبق ہے
جو شادی کو ایک پارٹ ٹائم جاب سمجھتے ہیں اور اپنی منکوحہ کو اس کے بنیادی
حقوق سے محروم کر کے اسے اپنے پورے خاندان کی فل ٹائم میڈ بنا دیتے ہیں ۔
استطاعت رکھنے کے باوجود اسے رفاقت اور رہائش نہیں فراہم کرتے ۔ ایک فرض کو
پس پشت ڈال کر وہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں جو ان کی ہوتی ہی نہیں ۔ سماجی
و تمدنی یا معاشی وجوہات کی بناء پر اگر کوئی انہیں اپنی بیٹی دے دیتا ہے
تو کم از کم اتنا تو اہتمام ہونا چاہیئے کہ اس پر پورے گھر کا بوجھ نہ ڈالا
جائے اس کی پرائیویسی کا احترام کیا جائے ۔ اس کے محتاط رویئے کو کسی غرور
و تکبر پر محمول نہ کیا جائے اور کوئی لڑکی اگر کسی سسرالی عزیز کے ساتھ
بہت زیادہ گھل مل جائے تو اسے ہلکا نہ لیا جائے ۔ جو لوگ بیویوں کے ساتھ
ہونے والی زیادتی ناانصافی اور ان کے حقوق کی پامالی کو ایک معمول کی بات
سمجھتے ہیں اور اپنے سگوں کی سیان پتیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں عموماً
اس کا خمیازہ انہیں اپنے بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے کسی نا شکل میں ۔ |