علامہ اقبال کے روحانی مرشد امولانا جلا ل الدین رومی اس
کائنات میں چراغ لے کر انسان کی تلاش میں نکلتے ہیں۔انھیں رستم و سہراب اور
شیرِ خدا جیسے بلند ہمت انسانوں کی تلاش ہے لیکن ا پنی جستجو اور تلاش میں
ناکامی کے بعد مولانا روم کو بر ملا کہنا پڑا کہ مجھے جس انسان کی تلاش تھی
وہ اب نہیں ملتا۔علامہ اقبال اپنے پیرو مرشد کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
جو نہیں ملتا مجھے بھی تو اسی کی تلاش ہے اور وہ انسان اسی کارگاہِ کائنات
میں موجود ہے ۔تلاش تو اس کی ہوتی ہے جو نہ ملتا ہو۔جو ملتا ہو اس کی تلاش
چہ معنہ دارد۔جو سرِ راہ موجود ہو اس کی تلاش ہیچ ہے۔ مولانا روم کا چراغ
لے کر عظیم انسا نوں کی آرزو اور تلاش کا فلسفہ ہی در اصل علامہ اقبا ل کی
شاعری کی بنیاد ہے کیونکہ وہ ایسے ہی با صفا انسانوں کی کھیپ تیار کرنا
چاہتے تھے لہذا انھوں نے انسانوں کو مقامِ بلند سے ہمکنار کرنے کیلئے اپنا
تصورِ خودی پیش کیا ( تصورِ خودی پر کالم علیحدہ تحریر ہو گا) اپنے تصور
میں تراشیدہ آدم کی توانائیوں کے پیشِ نظر علامہ اقبال تو یہاں تک کہہ گے
کہ ( خدا ہم در تلاشِ آدم است)ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ ( مہ و ستارہ سے
آگے مقام ے جس کا۔،۔ وہ مشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے ) ۔ جب فکری
یلغار زیادہ جوش آور ہوئی تو پھر یوں گویا ہوئے ۔(یزداں بہ شکار آمد اے ہمتِ
مردانہ)۔انسانی سر بلندی کی انتہا یہ ہے کہ انسان خدا کو بھی اپنے دام میں
لے سکتا ہے۔اسی لئے تو(ہاتھ ہے اﷲ کا بندہِ مومن کا ہاتھ) تاریخی حقیقت ہے
۔ وہ اپنے ایک مکتوب میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں۔ (فطرت زندگی کی گہرائیوں
میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کیلئے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے )۔وہ
دنیا کیسی ہوگی،اس کے خدو خال کیا ہوں گے ،وہ کب وجود پذیر ہو گی اور کون
اس دنیا کی رہبری کریگا ا؟ نئی دنیا اور اس میں مقیم آدم علامہ اقبال کی
شاعری کی روح ہیں۔ دہ انسان کیلئے جس طرح کا پیکر تراشتے ہیں وہ بے شمار
صلاحیتواں کا استعارہ ہے۔نیطشے نے اپنی تحریروں میں ایک سپر مین کا تصور
دیا تھا لیکن جبرو کراہ اور فسطا ئی سوچ نے اس کے سپر مین کے تصور کو طاقِ
نسیاں کر دیا۔اس کے پیش کردہ تصور سے جس طرح کے واقعات نے جنم دیا اس نے
دنیا کو لہو لہان کر دیا جبکہ اقبال ایک ایسے انسان کا ہیولہ پیش کرتے ہیں
جو محبت کے گیت بھی گاتا ہے اور آزمائش میں جراتمندی سے نبرد آزما بھی ہو
تا ہے ۔ اس کے ایک ہاتھ میں محبت کا پرچم ہے تو دوسرے ہاتھ میں سر فروشی کا
جھنڈا ہے ۔ (مصارفِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر ۔ ، ۔شبستانِ محبت میں
حریرو پرنیاں ہو جا) علامہ اقبال کے تصورِ انسان میں طوفان کی تندی ہی نہیں
بلکہ محبت کی گلکاریاں بھی ہیں ( جس سے جگرِ لالہ میں ٹھڈک ہو وہ شبنم۔،۔
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان ) قوت و حشمت اور شان و شوکت اقبال
کی شاعری کی بنیاد ہے لہذا انھیں سرِ عام کہنا پڑا ۔( عصا نہ ہو تو کلیمی
ہے کارِ بے بنیاد ) ۔ ان کی شاعر ی میں پندو نصاح نہیں بلکہ زندگی کے بلند
حقائق کا اظہار ہے جو کسی بھی انسان کو بلند پروازی کی قوت عطا کر سکتا ہے۔،۔
علامہ اقبال ا پنی پوری شاعری میں انسانی جوہر پر زور دیتے ہیں اور اپنے
افکار کو اسی جوہر کے محور سے بار بار پیش کرتے ہیں کیونکہ یہی جوہر انسان
کے مقدر کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر سکتا ہے۔اس جوہر کا نام خودی ہے ۔اس کا
ئنات میں انسان محبت کی آرزوکرتا ہے ،زمانے کی ساری مشکلات اور موانعات کا
مقابلہ کرتاہے کیونکہ اس کا محبوب اسے دنیا سے ٹکرانے کی جرات عطا کرتا
ہے۔محبت کا کمال یہی ہے کہ یہ رگ و میں بجلیاں بھر دیتی ہے۔انسان کسی مہ
جبیں کے تیرِ نظر کا شکار ہونا چاہتا ہے،محبت کی دنیا سجانا چاہتا ہے ، حسن
و جمال سے دل کے نہاں خانوں کو روشن کرنا چاہتا ہے اور حسنِ جہاں سوز کی
تابناکیوں سے دلِ شکستہ کو آراستہ کرنا چاہتا ہے۔وہ اپنے شب وروز اپنی محبت
کی نذر کرکے نئی دنیا بسانا چاہتا ہے۔اقبال اس کا مخالف نہیں لیکن اقبال کا
فلسفہ جستجو ،حرکت اور جہدِ مسلسل کا فلسفہ ہے ۔اقبال کے بقول اگر انسان کے
پاس محبت کی سب سے بڑی علامت لیلی بھی مخمل (ڈولی )میں اس کی ہمنشیں ہو تو
اسے پھر بھی جستجو اور تگ و دو کوترک نہیں کرنا ۔(تو رہ نوردِ شوق ہے منزل
نہ کر قبول ۔،۔لیلی بھی ہمنشیں ہو تو مخمل نہ کر قبول)۔مخملی دنیا اقبال کے
تصوراتی انسان کا مطمع نظر نہیں لہذاوہ اپنی جستجو اور جہدِ مسلسل سے ساری
عنایات کو ٹھکردیتا ہے اورمحبت کی آنچ سے زندگی کو مزید بلندیو ں کی جانب
محوِ سفرکرتا ہے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو اقبال پکار اٹھتا ہے ۔(میرِ
سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف۔، ۔آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف)
۔،۔(تیرے محیط میں کہیں گہرِ زندگی نہیں ۔،۔ ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ
چکا صدف صدف)۔،۔
ایک طرف تو یہ کیفیت ہے جبکہ دوسری جانب وہ یوں گویا ہوتے ہیں (وہ حرفِ راز
کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں۔،۔ خدا مجھے نفسِ جبرائیل دے تو کہوں ) ۔بات
وحی کی نہیں ہو رہی اور نہ ہی نبوت کو پانے کی کسی خوا ہش کا اظہار ہو رہا
ہے بلکہ یہ اس گوہر کو طشت از بام کرنے کی ہنر مندی کا اظہار ہے جو خدا کی
طرف سے اقبال کو ودیعت ہوا تھا ۔بات اس خدائی پیغام کی ہے جسے اقبال شاعری
کی وساطت سے انسانوں تک پہنچانا چاہتے تھے ۔(میری نوائے شوق سے شورحریم ِ
ذات میں ۔،۔ غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں)۔ ،۔( حوروفر شتہ ہیں اسیر
میرے تخیلات میں ۔،۔ میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں ) ۔ انسانی نگاہ کی
بلندی خدائی تجلیات کی راہ میں حائل ہو جائے کیا اس سے بھی بلند انسان کا
مقام ہو سکتا ہے؟علامہ اقبال اس کا انتہائی آسان نسخہ تجویز کرتے ہیں
(گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر۔،۔ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار
کر )۔علامہ اقبال کا اصرار تھا کہ اگر مصارفِ زندگی میں رفعتوں کو سر کرنا
ہے تو پھر (بیا بہ مجلسِ اقبال وہ یک دو ساغر کش۔،۔ گر چہ سر نہ تراشد
قلندری دارد) ۔(ترجمہ اقبال کی بزم میں آؤ اور اس کے خیالات و نظریات کے
ایک دو جام پیو ۔اگر چہ اقبال نے اپنا سر تو نہیں منڈھوایا لیکن قلندری اسے
عطا ہو چکی ہے)۔اسی بات کو دوسری جگہ یوں پیش کیا۔(تھا ضبط بہت مشکل اس
سیلِ معانی کا ۔،۔ کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر) ۔،۔( اٹھتے ہیں حجاب
آخر کرتے ہیں خطاب آخر ۔،۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر)۔کیا کسی اور
شاعر نے بھی ایسا دعوی کیا ہے کہ وہ مالکِ کائنات سے رازو نیاز کی باتیں
کرتا ہے اور مالکِ کائنات اس کے نالوں کا جواب دیتا ہے ۔اقبال کا کمال یہی
ہے کہ ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے اس نے ۔خدا سے اپنی ہنر مندی کا اظہار
پوری جرات سے کرتے ہیں (تو شب آفریدی چراغ آفریدم۔،۔ سفال آفریدی ایاغ
آفریدم)۔،۔(بیابان و کہسارو راغ آفریدی۔،۔خیابا ن و گلزارو باغ آفریدم
)۔،۔ترجمہ (تو نے رات بنائی تو میں نے اس میں روشنی دینے والا چراغ بنا
لیا۔تو نے صحرا ، پہاڑ اور مرغزار بنائے تو میں نے اس میں گل و گلزار، باغ
باغیچہ اور دیدہ زیب پھول اگا لئے)۔اسی لئے تو اقبال کا یہ دعوی ہے کہ ( بر
تر از گردوں مقامِ آدم است ) یہ خدا سے مسابقت اور مقابلہ کا معاملہ نہیں
بلکہ خدا کی تخلیق کردہ کائنات کوجمالیات اور حسن سے بھر دینے کا ولولہ ہے
۔اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے زعم میں اقبال بڑے فخر سے خدا سے ہمکلام
ہوکر کہتے ہیں کہ تو نے مجھے آسمانی جنت سے نکالا تھا تو میں نے تیری زمینی
کائنات کو جنت میں بدل لیا۔اب مجھے لوٹنے کی کوئی جلدی نہیں ہے ۔ (باغِ
بہشت سے مجھے حکم ِ ِ سفر دیا تھا کیوں۔،۔ کارِ جہاں دراز ہے اب میرا
انتظار کر)۔واہ واہ ۔ ( جا ر ی ہے )۔،۔
|