آپ درست اپنی جگہ؛ غلط میں بھی نہیں

 ہما رے ہاں اکثر گفتگو کے دوران ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب ہم اپنے آپ کو بہت بڑا عقل مند اور دانشور جان کر دوسرے شخص کی رائے کو اس طر ح ردّ کر تے ہیں کہ اس کے ردّعمل میں گفتگو کے دوران بات اس حد تک پہنچ جا تی ہے کہ آخر باہم دست وگریباں۔ ا س کے برعکس بات اس طرح خوش اسلوبی سے کی جا ئے کہ دوسرے کو اپنی تضحیک بھی محسوس نہ ہو اورآپ کی بات کا وزن بھی برقرار رہے تو کیسا رہے۔ ذرا سوچیے! اگر ہم کسی دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں گے تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ دوسرا بھی ا ٓ پ کی بات سنے۔

دو کان اور ایک زبان کی منطق بھی بیان کی جاتی ہے کہ ُسننا زیادہ اور بو لنا کم چاہیے۔لہذا دوسروں کی بات کو غور سے ُسننے اور اپنی بات اختصار اور جامعیت سے بیان کرنے میں حکمت پوشیدہ ہے۔ بات بڑی واضح ہے کہ اگر ہم دوسرے کی بات کو غور سنیں گے تو اس بات کا اچھے سے جواب دیں گے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ز یادہ تر دوسرے کی پو ری با ت سُننا ہی گوارہ نہیں کرتے بلکہ بات مکمل ہو نے سے پہلے ہی اپنی دانشوری کا ثبوت دینے کی کو شش کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سناتے ہیں کہ ہاں! ہاں! بات سمجھ میں آ گئی ہے۔ حلا نکہ بات کرنے والے کی تشنگی ابھی با قی ہے اور وہ مزید وضاحت کرنا چاہ رہا ہو تا ہے۔یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر آپ دوسرے کو سننے کی زحمت گوارہ نہیں کر رہے تو وہ بھی آپ کی بات کو اتنی ہی اہمیت دے گا۔

اچھے ابلاغ کی ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ اس میں دوسرے کی بات کو نہ صرف سُنا جاتا ہے؛ توجہ دی جا تی ہے؛ سمجھا جاتا ہے بلکہ ذہن نشین کرنے کی بھی بھر پور کو شش کی جاتی ہے۔اب خود سو چیے کہ ہم دوسرے کی بات کو کس طور پر سنتے ہیں۔ اول اگر آواز کی لہریں کا نوں کے پردہء سماعت تک پہنچ بھی جائیں تو توجہ دینے کی زحمت گوارہ نہیں۔اگر توجہ دے بھی دی تو اس سے اگلا مرحلہ (بات سمجھنا) مشکل سے طے پاتا ہے۔مزید براں اگر بات کو سمجھ لیا تو ذہن نشین کرنا اور بھی دشوارمرحلہ۔
آپ کے سا تھ کبھی ایسا ہوا ہو کہ آپ بڑے انہماک سے پوری ابلاغی قوت سے دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں اور آگے سے جواب میں یہ سننے کو ملے کہ جناب !پھر سے کہیے گا میں ذرا سُن نہیں پا یا۔ یا یہ کہ کیا کہا آپ نے ۔ دوبارہ کہیے گا۔ آپ اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں گے۔ جی ہاں! آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ آپ کو اور آپ کی بات کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ اس کے بر عکس کوئی شخص اگر آپ کی بات غور سے سنتا ہے تو آپ کو اپنی اہمیت کا احساس ہو نا شروع ہو جا تا ہے۔

کئی بار ایسا ہو تا ہے کہ جس سے آپ بات کر رہے ہوتے ہیں وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا ہو تا ہے۔ جسما نی طو ر پر آپ کی سا منے لیکن ذہنی طور پر اس کے ذہن میں دوسرے خیالات چل رہے ہوتے ہیں۔وہاں پر بھی اس کی ذہنی پر واز کو کم کرتے ہوئے اپنے مو ضوع کی طرف لائیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری بات غور سے سنیں تو ہمیں چا ہیے کہ پہلے کچھ ان کی دلچسپی اور اُن کے متعلق بات سے شروع کیا جائے۔بات اس طرح سے ہو کہ سننے والے کو محسوس ہو کہ اُس کے فائدے اور نفع کی بات ہے۔الفاظ کا چناؤ عام فہم اوربو لنے کا انداز ُپر کشش ہو نا چا ہیے۔ ٓٓئیں۔الفاظ کا چناؤاور استعمال ایسا ہو کہ سننے والے کو ایسا لگے کہ اس کو اہمیت دی جا رہی

اب اس جانب آتے ہیں کہ اگر اختلاف رائے کا اظہار کرنا ہو تو پھر کیا کیا جائے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چا ہیے کہ اختلاف رائے سے زحمت کے کا نٹوں کی بجائے رحمت کے پھول کھلیں۔ یہ تبی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم باہمی احترام کو قائم اور بر قرار رکھیں۔اگر آپ کسی سے اختلاف رائے رکھتے ہیں تو کس حد تک۔جس حد تک متفق ہیں پہلے وہ بیان کریں ۔ ساتھ ہی جہاں پر آپ کا نقطۂ نظر مختلف ہے بیان کر دیں۔ دوسرے کی رائے کو یکدم اور یکسر ردّ نہ کریں۔ بلکہ احترام اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کی رائے سے اختلاف کریں۔

یہ بات بھی قا بل غور ہے کہ کچھ لوگ اس اندازسے آپ سے اختلاف رائے کریں گے کہ آپ کو بُرامحسوس نہیں ہو گا۔ جی صاحب! آپ نے درست فرمایا لیکن میرا موقف یہ ہے۔ محترم ! آپ اپنی جگہ درست مگر میری رائے اس ضمن میں یہ ہیــ۔ جناب ! آپ کی بات اپنی جگہ درست مگر غلط میں بھی نہیں کہہ رہا۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر مگر میری گزارش یہ ہے۔آپ سے التماس ہے کہ اپنی رائے پر تھوڑی سی نظر ثانی کیجئے۔میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں لیکن اس با ت کے دوسرے پہلو پر بھی اگر غور کر لیا جائے۔ آپ کا کہا میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اگر تھو ڑی سی بات میری بھی سُن لی جائے تو مہربانی۔آپ نے بڑے اچھے انداز سے اس موضوع کا احا طہ کیا ہے لیکن کیا اچھا ہو کہ اس کے دوسرے پہلوؤں پر بھی غور کر لیا جائے۔ غرض کہ مختلف مثبت انداز سے دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے معمولات میں برداشت ، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا جائے اور اختلاف رائے کو باہمی اختلاف کی بنیاد نہ بننے دیا جائے۔
 

Dr. Ghazanfar Ali Khan
About the Author: Dr. Ghazanfar Ali Khan Read More Articles by Dr. Ghazanfar Ali Khan: 9 Articles with 5337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.