سوئیڈن میں 24 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔۔ قدرت کے انوکھے فیصلے سے لوگوں نے کس طرح فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیر بدلی؟

image
 
کیا ہوتا اگر کبھی بھی اندھیرا نہ ہوتا، اگر سورج کبھی غروب نہ ہوتا؟
 
شمالی یورپ کے کچھ حصوں میں لوگوں کو یہ تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ 24 گھنٹے سورج کا چمکنا کیسا لگتا ہے کیونکہ ان کے علاقے میں یہ حقیقت ہے۔
 
اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ 24 گھنٹے اندھیرا رہے۔ ان دنوں میں سورج اُفق سے اوپر نظر ہی نہیں آتا۔
 
گذشتہ ادوار میں زراعت پر منحصر سویڈن کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہاں زیادہ تر کام گرمیوں میں ہی نمٹا لیا جاتا تھا۔
 
سویڈن ایک انتہائی غریب ملک تھا مگر اب اس کی فی کس جی ڈی پی 60 ہزار ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 29 لاکھ روپے) ہے اور عالمی بینک اسے زیادہ آمدن والے ممالک میں شمار کرتا ہِے۔
 
مگر پھر بھی قدرتی روشنی سیاحت سے لے کر توانائی تک اور ہوٹلنگ سے لے کر شمالی سویڈن کے اصلی باشندوں کی روایتی زندگیوں پر اثرانداز ہو کر اس کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
 
یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن میں سکینڈینیویئن تاریخ کے ماہر سکاٹ میلر نے بی بی سی کی صحافی الزبتھ ہاٹسن کو بتایا کہ ’سکینڈینیویئن اور سوئیڈش ثقافت میں روشنی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق اس کی ضد یعنی سردیوں سے ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ شمالی سویڈن میں ہیں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب سردیوں میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ گرمیوں میں روشنی کی بہتات ہوتی ہے جو زبردست بات ہے۔ یہ دن سب سے زیادہ کارآمد ہوتے ہیں جب ہر چیز اگ رہی ہوتی ہے اور آپ کے مویشی چر سکتے ہیں۔‘
 
image
 
میلر کہتے ہیں کہ دو صدی قبل تک سویڈن کے زراعت پیشہ لوگوں کو روشنی والے دنوں میں سب سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا ورنہ سردیوں میں ان کے پاس جینے کے لیے ضروری وسائل باقی نہ رہتے۔
 
پھر 19ویں صدی کے وسط میں مٹی کے تیل کے دیوں نے فروغ پایا اور پھر کچھ دہائیوں بعد ہی بجلی سے چلنے والے بلبوں نے اور پھر سویڈن کی معیشت بدل گئی۔
 
یوں لوگ اندھیرے میں بھی کام کرنے اور پڑھنے لگے جس سے شرحِ خواندگی میں اضافہ ہوا۔ اس جدید معیشت نے انتہائی تیزی سے ترقی کی اور سویڈن دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک بن گیا۔
 
قدرتی روشنی
مگر گرمیوں کا سورج اب بھی معیشت کے کئی شعبوں کا اہم حصہ ہے۔ ریسرچ فرم یورومانیٹر سے وابستہ تجزیہ کار جیکاترینہ سمرنووا کہتی ہیں کہ عالمی وبا سے قبل سویڈن کی ہوٹل انڈسٹری مستحکم انداز سے ترقی کر رہی تھی۔
 
’سنہ 2019 میں سویڈن میں صارفین نے غذائی سروسز بشمول ریستورانوں، کیفیز اور شراب خانوں پر 137 ارب سویڈش کرونا (13 ارب ڈالر) خرچ کیے اور کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے کے 10 برس میں ملک کی سالانہ شرحِ نمو چار فیصد سے زائد رہی۔‘
 
یورومانیٹر کا اندازہ ہے کہ سویڈن اگلے کئی برس تک چار فیصد کی شرح سے ترقی کرتا رہے گا۔
 
image
 
گرمیوں میں شراب خانوں اور ریستوران کے لیے روشنی کا ہر گھنٹہ اہم ہوتا ہے، خاص طور پر تب جب آپ کا کاروبار ایسا ہو جس کا انحصار باہر ملنا جلنا پسند کرنے والے لوگوں پر ہو۔
 
سٹاک ہوم میں ایک مشہور ریستوران اور شراب خانہ چلانے والے رامی عواد کہتے ہیں کہ ’اکتوبر کی شروعات سے مارچ کے اختتام تک ہمارے پاس بے رحم سردیاں پڑتی ہیں اور اندھیرے کا راج ہوتا ہے تو لوگ زیادہ تر وقت گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اپریل کے اوائل میں لوگ باہر نکلتے ہیں اور اس روشنی اور اس سورج کا مزہ لیتے ہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں لوگ زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ گھر سے دور زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ وہ ہفتے کے ساتوں دن ریستوران کھلا رکھتے ہیں۔ ’اس سے بہت معاشی فرق پڑتا ہے۔‘
 
سٹاک ہوم میں سورج گرمیوں میں کچھ گھنٹے کے لیے غروب ہوتا ہے مگر شمال میں سویڈش لیپ لینڈ میں یہ افق سے نیچے نہیں جاتا۔
 
ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف سٹاک ہوم میں صنعتی معیشت کے پروفیسر میگنس ہینریکسن کہتے ہیں کہ ’آپ جتنا شمال میں جائیں گے، وہاں سردیاں اتنی ہی طویل ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نہ صرف وہ زراعت کے لیے گرمیوں کے مہینوں پر منحصر ہوتے ہیں بلکہ تفریح کے لیے بھی۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’شمال میں برف مئی کے وسط تک بھی پڑ سکتی ہے اور اس کے دو ہفتوں بعد ہی گرمیوں کا عروج ہوتا ہے۔ چنانچہ اس عرصے میں ہوٹل، شراب خانے اور ایسے دیگر کاروبار اتنے پیسے کمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ باقی کے سال میں گزارہ ہو سکے۔‘
 
image
 
شمال میں سیاحت
شمالی سویڈن میں گرمیوں کی سیاحت کا انفراسٹرکچر نہایت مضبوط ہے۔ لیپ لینڈ میں آرکٹک سرکل سے 200 کلومیٹر شمال میں واقع ایبیسکو آج کل نصف شب کو سورج دیکھنے کے لیے ایک مقبول جگہ ہے۔
 
ایک صدی سے زیادہ عرصے سے یہ فطرت سے محبت کرنے والوں کی پسندیدہ جگہ رہی ہے۔
 
مقامی سیاحتی سٹیشن کی اہلکار جیسیکا ملکیوٹز کہتی ہیں کہ ’سویڈن میں پہاڑی سیاحت اور صنعتی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئلے کی وجہ سے ریل یہاں 18 ویں صدی کے اواخر میں پہنچ گئی تھی اور 19ویں صدی کے اوائل میں فطرت دیکھنے کے متلاشی افراد کے لیے ایبیسکو آنا ممکن ہو گیا تھا۔‘
 
’جب روشنی واپس آتی ہے تو سب بہت خوبصورت لگتا ہے۔ درخت اور ماحول سبز ہو جاتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ زندگی لوٹ آئی ہے۔‘
 
سیاحت کی اس ابتدا سے اب تک یہ شعبہ سویڈن کی معیشت کا ایک اہم حصہ رہے گا۔
 
تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے مطابق سویڈن کے سیاحتی شعبے نے سنہ 2018 میں چھ فیصد کی ترقی کی اور اس کا حجم 30 ارب ڈالر تھا۔
 
عالمی وبا کے باعث آنے والے وقفے کے بعد اب لوگ دوبارہ سیاحت کے لیے سویڈن کا رخ کر رہے ہیں۔
 
ایک لگژری ریزورٹ میں ٹھہری ہوئی امریکی سیاح لارا ارینٹ نے کہا کہ ’ہم لوگ بالٹک خطے کے سات ہفتے کے دورے پر ہیں۔ ہم نے ڈنمارک سے شروع کیا اور پولینڈ تک گئے۔ ہم آرکٹک سرکل تک جانا چاہتے تھے کیونکہ ہم کبھی اتنے شمال تک نہیں آئے۔ ہم نصف شب کے سورج کا بھی تجربہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ میں نہیں نظر آ سکتا۔‘
 
image
 
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ عجیب ہے۔ ہم نے کل رات نصف شب کا سورج دیکھنے کے لیے ہائیکنگ کی اور رات ساڑھے 12 بجے ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو دن کا سماں تھا اور اتنا عجیب لگ رہا تھا۔ یہ بہت غیر معمولی ہے کہ آپ رات کے دو بجے موسم کا حال دیکھیں اور لکھا آئے کہ دھوپ نکلی ہوئی ہے۔‘
 
ارینٹ اُن کئی امیر سیاحوں میں سے ہیں جنھوں نے دو برس تک کوئی سیاحت نہیں کی اس لیے اب وہ چھٹیوں پر کچھ زیادہ خرچ کرنے کو بھی تیار ہیں۔
 
مویشی بانی پر اثرات
مگر روشنی کا واحد اثر شمالی سویڈن میں سیاحتی معیشت پر نہیں ہوتا بلکہ یہ کچھ بہت روایتی معاشی سرگرمیوں کے لیے بھی اہم ہے، خاص طور پر جب بات مویشیوں کی آئے تو۔
 
ایک مقامی گاؤں میں رینڈیئر (قطبی بارہ سنگھے) پالنے والے نیلس نٹی کہتے ہیں کہ نصف شب کے سورج سے جانوروں کو توانائی بھی ملتی ہے اور ان کی چراگاہیں بھی دوبارہ سبز ہو جاتی ہیں۔
 
وہ اپنے ایک بارہ سنگھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کے سینگ روزانہ ایک سینٹی میٹر بڑھ رہے ہیں۔‘
 
image
 
’جب یہاں گرمی ہوتی ہے تو بہت کم ہی برف ہوتی ہے اور کیڑے نہیں ہوتے۔ رات کے وقت اُنھیں کھانے کے لیے وادی میں اترنا پڑتا ہے۔‘
 
ان کے گاؤں میں 70 خاندان تقریباً 20 ہزار رینڈیئر پالتے ہیں اور مل جل کر انھیں واپس اپنے باڑوں میں لاتے ہیں۔
 
’یہ بالکل دن کے جیسا ہوتا ہے اور ہم اس روشنی کا استعمال کر کے کام بھی کر سکتے ہیں اور بارہ سنگھوں کو باڑوں میں بھی واپس لا سکتے ہیں۔‘
 
مگر رینڈیئر سویڈن کی معیشت کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ’کیونکہ ہماری ثقافت، ہمارا طرزِ زندگی ہمیں سب سے مقدم ہے۔ ہم نے زندہ رہنے کے لیے سب کچھ قدرت سے ہی حاصل کرنا سیکھا ہے اور آج ہماری بنیادی آمدن گوشت فروخت کر کے ہوتی ہے۔‘
 
image
 
صاف توانائی کی جانب سفر
قدیم روایات سے لے کر جدید ٹیکنالوجی تک روشنی ہی اس معیشت کو مستقبل میں لے کر جا رہی ہے۔
 
سویڈن سنہ 2040 تک اپنی تمام تر توانائی کو قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے اور جہاں اس میں سب سے بڑا حصہ پانی اور ہوا کا ہو گا، وہیں شمسی توانائی بھی انتہائی اہم ہے۔
 
رواں برس سورج سے تقریباً دو گیگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی جو دو جوہری ری ایکٹرز کے برابر ہے۔ یہ مقدار سنہ 2015 میں پیدا کی گئی بجلی سے 2000 فیصد زیادہ ہے۔
 
ایک کاروبار جو پھل پھول رہا ہے وہ برفانی ہوٹلز ہیں۔ ان میں دو طرح کے ہوٹلز ہوتے ہیں، ایک تو مستقل اور دوسرے جنھیں ہر سردیوں میں شروعات سے بنایا جاتا ہے۔
 
سالانہ تعمیراتی کام کے لیے برف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بڑی مقدار میں برف پورے سال جمع کر کے رکھی جاتی ہے اور نصف شب کا سورج اس پورے مرحلے کا اہم حصہ ہے۔
 
image
 
آئس ہوٹل کی مینیجر سارا ہومکوئیسٹ کہتی ہیں کہ ’جب دریا جم جاتا ہے تو برف ایک میٹر گہرائی میں ہوتی ہے۔ ہمارے پاس آری والا ٹریکٹر ہے جو دو دو ٹن وزنی برف کے بلاک کاٹتا ہے۔ پھر ایک اور ٹریکٹر انھیں اٹھاتا ہے اور ایک ٹھنڈے گودام میں لے جاتا ہے۔‘
 
اس گودام کا اندرونی درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے اور یہ بجلی بھی سورج سے حاصل کی جاتی ہے۔
 
’ہمارے پاس اگلے 50 دن تک سورج لگاتار چمکتا رہتا ہے جس سے گودام کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہم خاصی بجلی پیدا کر لیتے ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: