بخشش ومغفرت کا عظیم الشان مہینہ

بخشش و مغفرت کا عظیم الشان مہینہ شروع ہے جس میں خدواند قدوس کی رحمتیں و برکتیں گھنگھورگھٹاؤں کی طرح چھا کر،ساون کی بارشوں کی طرح ،معصیت و ظلمات کے دھبوں کو دھو ڈالتی ہیں ۔سارا سال بندہ خدا کی رحمت کو تلاش کرتاہے مگراس ماہ مقدس میں اللہ تعالٰی کی رحمت بندوں کو تلاش کرتی ہے ۔

ہر چیز کا ایک سیزن اور موسم ہوتاہے جس میں وہ چیز آسانی کے ساتھ کم پیسوں میں زیادہ حاصل ہوجاتی ہے اوراس میں لوگ معمول سے زیادہ خریدوفروخت کرتے ہیں اسی طرح رمضان المبارک مسلمانوں کے لیےنیکیوں کا موسم ا ور سیزن ہےجس میں خدا کی رحمت ہر گھڑی برستی رہتی ہے اور چھوٹے چھوٹےنیک عمل ان مبارک ساعتوںمیں بہت زیادہ ثو اب کا باعث بنتے ہیں ۔

دوکاندار وتاجر کاروبار کے سیزن میں دن رات مشقت برداشت کررہاہے مگر افسوس کہ جب نیکیوں کا سیزن آتاہے تو راتوں کی بیداری اور دوپہر کی پیاس برداشت کرنا دشوار لگتاہے ۔

ہم لوگ اس بابرکت مہینے کی قدروقیمت کو کیاجانیں جن کے شب وروز دنیاوی کاموں میں گزررہے ہیں جن کی سوچ دنیا کے زیادہ سے زیادہ حصول کی طرف لگی ہوئی ہے اس کی قدورمنزلت کو وہی جان سکتاہے جس پر اللہ کا فضل ہو اور وہ ہی لوگ اس مقدس مہینے میں اللہ تعالٰی کی رحمتوں ،انوارات وبرکات کو پہنچانتے ہیں،اور اس کی قدر کرتے ہیں۔

حضوراکرم ﷺ جب رجب کا چاند دیکھتے تو دعا فرماتے اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان (مجمع الزوائد جلد ۳صفحہ ۱۶۵)
"اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجئے ۔"

یعنی ہماری عمر لمبی فرمادیجئے کہ ہمیں اپنی عمر میں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہوجائے ۔اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمر میں اضافے کی دعااس نیت سے مانگناکہ میں اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرکے گزاروں گا تاکہ میری اخروی زندگی اچھی ہوجائے تو ایسی دعاکرنااس حدیث سے ثابت ہورہی ہے ۔

گیارہ ماہ انسان دنیاوی کاموں میں الجھ کر اللہ تعالٰی سے دور ہوجاتاہے تو اس دوری کو قرب میں بدلنے کے لیے اللہ تعالی ٰ نے رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا ۔

اس مقام پر اک سوال اور ذہن میں پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالی تو بندے کے قریب ہیں جیسا کہ قران پاک میں ہے:
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ(البقرہ:186)
"جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں پس بے شک میں قریب ہوں"
اور دوسرےمقام پر ارشاد فرمایا :
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ (ق:16)
اور ہم اس سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں"

لہذا مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ قرب وہ حاصل کر ے جو اللہ سے دور ہو جبکہ اللہ تو بندے کے قریب ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشک وشبہ اللہ بندے کے بے حدقریب ہیں لیکن بندہ اللہ سے دور ہے اس کے پاس وہ اعمال نہیں جن سے اللہ کاقرب حاصل ہوتاہے مثلا حکمران وقت جب چاہے اپنی رعایا میں سے کسی سے بھی ملاقات کرسکتاہے لیکن رعایا میں ہرسے فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ جب چاہیں حکمران وقت سے ملاقات کرسکیں وہی ملاقات کرسکتاہے کہ جس نے ایسے کام کیے ہوں کہ جس سے اسے بادشاہ کا قرب حاصل ہے ،رمضان شریف میں اعمال صالحہ کرنے سے اور نواہی سے بچنے سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے ۔

چنانچہ گیارہ ماہ دنیاوی کاموں میں گزارنے سے انسان پر مادیت غالب آگئی اللہ تعالی کے ساتھ انسان کو جو تعلق تھا وہ کمزور ہوگیا اللہ تعالی نے انسان پر کمال درجے کی شفقت فرمائی کہ رمضان المبارک جیسا مقدس ومتبرک ومکرم مہینہ عطا فرمایا کہ تمہارے دلوں پر جو زنگ چڑھ گیا ہے اس کو نیکیوں کے ذریعے کھرچ ڈالو اور ہمارے قریب آجاؤ۔

چنانچہ ارشاد فرمایا:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون(البقرہ:183)
"اے ایمان والوں!تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سےپہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو ۔

اس آیت میں روزے کی فرضیت کو بیان کرنے وقت پہلے ترغیب دی گئی کہ بھوک وپیاس کی تلخی کو برداشت کرنا یہ مت سمجھ لیناکہ کوئی نئی چیز فرض کردی گئی ہے بلکہ تم سے پہلی اقوام وملل پر بھی روزے فرض تھے ۔

رمضان کا ایک ایک حرف اس ماہ مقد س کی عظمت کا ظاہر کرتاہے ۔
را، سے مراد رحمت کا مہینہ
میم، سے مراد مغفرت کا مہینہ
ضاد، سے مراد ،ضمانت کا مہینہ
الف ،سے مراد الفت کا مہینہ
نون ،سے مراد نورانیت کا مہینہ

جس بند ے کورحمت ،مغفرت ،جنت کی ضمانت ،لفت ونورانیت چاہیے و ہ اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے۔

رمضان کالفظ رمض سے ہے اور اس کامعنی جلانا یا جلنا(قاموس الوحیدصفحہ 669)

رمضان کو رمضان اس لیے کہتےہیں کہ گناہ جل جاتے ہیں ،بعض اہل علم نےکہاکہ اس کو رمضان اس لیے کہ کہتے ہیں کہ انسان کا نفس جل جاتاہے ۔

حضرت سلمان فارسی ؓ کی روائیت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا :
فقال یا ایھاالناس قد اظلکم شہر عظیم (صحیح ابن خزیمہ ،جلد۳،صفحہ ۱۹۱)
"اے لوگوں!تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہاہے جو بہت بڑا مہینہ ہے ۔"

عظیم کالفظ عظمت سے ہے عظمت کا معنی اتنا اونچا یابڑا کہ جس کا کوئی مقابلہ نہ کرسکے مثال کے طور پر دیکھے شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس سے بڑا کوئی گناہ نہیں قران مجید میں ہے۔

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان:۱۳)
"اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے"

اللہ کی ذات سے بڑی کوئی ذات نہیں قران مجید میں ہے:
وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ (البقرہ:۲۵۵)
"اور وہی سب سے برتر عظمت والا ہے"

حضوراکرم ﷺ کے اخلاق عالیہ سے زیادہ کسی بلند اخلاق نہیں قران مجید میں ہے:
"وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ"(القلم :۴)
" اور بلاشبہ آپ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں"

"قرآن مجید سے زیادہ شان والی مرتبے ومقام والی دنیا میں کوئی کتاب نہیں قرآن کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ (حجر:۸۷)
"اور بلاشبہ ہم ہی نے عطا کیں آپ کو (اے پیغمبر!) بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں اور عظمتوں بھرا یہ قرآن"
امت محمد ی ﷺ سے بڑی شان میں کوئی امت نہیں، فرمایا:
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا (احزاب:۷۱)
"اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانا سو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی"

قیامت کے زلزلے کی ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ (الحج:1)
"اے لوگوں! اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ ایک بڑی چیز ہے"

مذکورہ بالا مثالوں سے معلوم ہوا کہ عظیم کا لفظ کسی چیز کی انتہائی درجہ کی قوت اور حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے آتاہے ۔اسی چنانچہ اسی طرح رمضان المبارک سے بڑا شان ومقام میں کوئی مہینہ نہیں تو ارشاد نبوی ﷺ ہے :
"قد اظلکم شہر عظیم"

اور مزید ارشاد فرمایا:
اس مہینے میں اس مہینے میں لیلۃ القدر ہےجس میں عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے ۔اوریہ وہ مہینا ہے جس کی رات کا قیام تمہارے لیے ثواب کی چیز ہے اور دن کا روزہ اللہ نے تم پر فرض کیاہے ۔(رات کے قیام سے مراد تراویح ہے ۔)

یہ صبرکا مہینہ ہے اور صبر کے بدلےاللہ تعالی جنت عطا فرماتے ہیں کیا یہ صبر نہیں ہے کہ آپ کھانے پینے اور نفسانی خواہشوں سے رک گئےفرمایا اس کا بدلہ اللہ جنت عطا فرماتے ہیں ۔جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے ایساہے جیساکہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایساہے جیساکہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کاہے اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھایاجاتاہے جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگے خلاصی کا سبب ہوگا اورروزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خٰلاسی کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جا ئے گا صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہرشخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روز ے دارکو افطار کرائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ( پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں ہے )یہ ثواب تو اللہ تعالی ٰایک کھجور سے کوئی افطا ر کرادے ایک گھونٹ پانی پلادے یاایک گھونٹ لسی پلادے اس پر بھی عطا فرمادیتے ہیں ۔

آپ ﷺ نے فرمایا اس ماہ کا پہلا عشرہ "رحمت" اور دوسرا "مغفرت"اور آخری حصہ "آگ "سے آزادی ہے ۔

اور مزید فرمایا اس مہینے میں چار کا م کرو پہلا کام کلمہ طیبہ کی کثرت کیا کرو ،اور دوسرا کام استغفار زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے ۔

اور تیسرا کام جنت کی طلب کرو۔

ایک اور مقام پر آپ ﷺنے جنت کا شوق دلاتے ہوئے فرمایا:
سب سے پہلے جو گروہ جنت میں داخل ہوگا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے پھر جو ان کے بعد جنت میں جائیں گے تو ان کے چہرے اس چمکدار ستارہ کی طرح ہوں گے جو آسمان میں بہت روشن ہے، نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ تھوک آئے گا نہ ناک کی ریزش، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اس کا پسینہ مشک (جیسا خوشبودار) ہوگا ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگتا رہے گا ان کی بیویاں بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی عورتیں ہوگی (باہمی الفت کی وجہ سے) سب ایک جان ہوں گے اور سب لوگ اپنے باپ آدم کی شکل پر ساٹھ گز لمبے ہوں گے آسمان میں۔(بخاری شریف)

اور چوتھا کام جہنم سے پنا ہ مانگو ۔

اور ایک حدیث میں جہنم کی ہولنا کی بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نےفرمایا:
جہنم کو لایا جائے گا اس دن جہنم کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی اور ہر ایک لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوئے کھینچ رہے ہوں گے۔(مسلم شریف)

اور دوسری حدیث میں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کہ دوزخ کی آگ کو ایک ہزار برس جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر ایک ہزار برس اور جلایا گیا جس سے وہ سیاہ ہوگئی ہے پس اب دوزخ کی آگ بالکل سیاہ وتاریک ہے جس میں نام کو بھی روشنی نہیں ہے ۔ (ترمذی)

اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے لوگوں خدا کے خوف سے روؤ اور رونا چونکہ اختیاری چیز نہیں ہے اس لئے اگر تمہیں رونا نہ آئے تو بہ تکلف روؤ (یعنی ان احوال کا تصور کرو جو خوف خداوندی سے رلا دے اور رقت طاری کردے ) حقیقت یہ ہے کہ دوزخی جہنم میں روئیں گے اور ان کے آنسو خون بن کر ان کے رخساروں پر اس طرح بہیں گے گویا وہ نالیاں ہیں اور جب ان کے آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنا شروع ہوجائے گا اور آنکھیں لہو لہان ہوجائیں گی ان کی آنکھوں سے بہنے والے خون اور آنسو کی زیادتی اس درجہ کی ہوگی کہ، اگر ان کے آنسوؤں کے بہاؤ میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو یقینًا وہ چلنے لگیں " ۔(مشکوۃشریف)

اورآخر میں فرمایا جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے حق تعالی قیامت کے دن میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے ۔(صحیح ابن خزیمہ ،جلد۳،صفحہ ۱۹۱)

اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ ان مقد س گھڑیوں میں اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 260352 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More