اُردو غزل کی فنی وفکر ی معراج!
(Abid Zameer, Azad Kashmir)
غزل ہماری شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
تمام اصناف نظم میں غزل کا نمایاں مقام ہے۔ مطلع‘مقطع‘قافیہ و ردیف کی بنت
بننے صنف اپنی ابتداسے آج تک زندگی کے مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنی ہو ئی
ہے۔ابتداء میں گل و بلبل‘ ہجر و وصال اور تیورِ محبوب کو بطریق احسن پیش
کیا۔غزل کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں‘ جن میں سے کچھ ذیل ہیں:
”بلتی اُردو لغت“میں غزل کی تعریف یوں ہے: غزل (ع) نظم کی وہ قسم جس میں ہر
شعر مختلف مضمون کا ہوتا ہے۔ حسن وجمال‘ عشق و محبت‘ شراب و کباب‘ فناد
معرفت‘ نصیحت یا پیش گوئی کا ذکر ہوتا ہے۔ غزل کے کم سے کم اشعار پانچ اور
زیادہ سے زیادہ اکیس ہوتے ہیں‘اعداد کے عدد طاق ہونا شرط“۔فرہنگ آصفیہ کے
مطابق ”غزل (ع) اسم مونث: معشوق یا اپنے محبوب کے ساتھ کھیلنا‘ عورتوں کے
ساتھ بات چیت‘ عورتوں کے عشق کا ذکر“۔
غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔عربی لغت ”المنجد“میں اس کے معنی یوں لکھے گئے:
”عورتوں سے باتیں کرنا‘ عورتوں کی خوبصورتی اور جمال کی تعریف کرنا۔ان سے
عشق بازی کرنا۔غزل کی کوئی جامع تعریف نہیں۔ یہ عربی اورفارسی اَدب کی
وساطت سے ”قصیدہ“ کی تشبیب کی ترقی کی صورت میں سامنے آئی۔غزل کی سب سے بڑی
پہچان اس کی ہیت ہے۔ موضوع کی کوئی پابندی اس میں دیکھنے میں نہیں آتی۔غزل
کے لیے قافیہ لازمی ہے اور ردیف لازمی نہیں۔تاہم ردیف آہنگ و موسیقیت پیدا
کرنے کے علاوہ مطلب سمجھانے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ غزل کے تمام اشعار
میں بحر کی پابندی بھی لازمی ہوتی ہے۔ غزل کے لئے اشعار کی تعداد اور موضوع
کی قید بے بنیاد باتیں ہیں۔ تاہم غزل کا ہر شعر منفرد اکائی کی حیثیت رکھتا
ہے اور الگ خیال کا مالک ہوتا ہے۔
غزل فارسی صنف ِ شاعری ہے۔ فارسی زبان نے اُردو کو وہ روایات دِی جو صدیوں
میں تعمیر ہوئی تھیں۔ غزل کو اُردو شاعری میں خاص مقام حاصل اس لئے ہے کیوں
کہ اُردو شاعری کے دکنی دور سے لے کر آج تک غزل اپنی دِل فریبی اور معنی
آفرینی کے ساتھ موجود ہے۔ غزل کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں کم سے کم الفاظ
میں بہت گہرا اور عمیق مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ اُردو غزل کی روایت کو جن
شعرا نے قائم رکھا۔ ڈاکٹر فرمان اُن کے بارے لکھتے ہیں: ”دکنی دور میں ولی‘
شمالی ہند کے دورِ اول میں میر تقی میر‘ دوسرے میں غالب اور بعدا زاں علامہ
اقبالؒ‘ حسرت موہانی اور فراق گورکھپوری وغیرہ کلاسیکی غزل کے ایسے طاقتور‘
خوش رنگ عناصر کی حیثیت سے نمودار ہوئے کہ اُردو شاعری کی پوری تاریخ پر
جدید رنگوں کا ایک ایسا خوب صورت سائبان یا شامیانہ سا تن گیا۔ اس شامیانے
کے رنگوں میں بہت نمایاں ہیں انہیں ولی دکنی‘ سراج اورنگ آبادی‘ درد‘ میر‘
ناسخ‘ مصحفی‘ آتش‘ غالب‘ ذوق‘ مومن‘ داغ‘ اقبالؒ‘ حالی‘ شاد‘ حسرت‘ فانی‘
جگر‘ یگانہ اور فراق وغیرہ سے منسوب کیا جاتا ہے“۔
غزل میں بڑی حد تک لچک موجود ہے۔ سادگی‘ زبان وبیان‘ ایجازو اختصار‘ صناع
بدائع کا استعمال‘ روانی و آہنگ‘ درد و سوز‘ بے ساختگی‘ تشبیہ‘ استعارہ کے
حسن کے علاوہ تغزل کی موجودگی غزل کے اشعار کی نمایاں صفات ہیں۔ ڈاکٹر عطش
درانی لکھتے ہیں:”غزل کے ہر شعر میں ادراک‘ احساس اور انسانی تجربہ موجود
ہوتا ہے۔ایک غزل کے متنوع شعر ہر رنگ کے قاری کو متاثر کرتے ہیں“۔
شاعری لفظی پیکر تراشی کا نام نہیں‘ محاورات و تراکیب کے جوڑنے سے شاعری کا
بے روح جسم یا ڈھانچہ تو تیار ہو سکتا ہے‘ حقیقی اور بامقصد شاعری وجود میں
نہیں آتی۔ یہ ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے اس میں جذبہ‘خیال‘ الفاظ اورروایت
کا شعور موجود ہوتا ہے، محض جدید ہونا کوئی اصلاح نہیں۔ پہلے خیالات کے
ساتھ ساتھ نئے آہنگ اور نئے معیارات میں تشکیل پاتی ہے۔
ہندوستان میں مغلوں کے دَور کے بعد ایک نئی تہذیب تشکیل ہوئی۔ جس نے ایک
نئی زبان کو بھی جنم دیا۔ اسلامی تصوف کے زیر ِ اثر اس میں حقیقی اور مجازی
عشق دونوں پہلو پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:”غزل سے متعلق
کسی کی گفتگو کرنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ غزل
کے شرارہ معنوی کا تعلق اسی ذہنی شعلے سے ہے۔ جو اسلامی اور ہندوستانی
تہذیبوں کے اختلاط سے پیدا ہوا۔ اُردو غزل نے تصوف کی گود میں آنکھ کھولی۔
اُردو وہ حال و قال کی محفلوں‘ صوفیوں اور درویشوں کی صحبتوں میں پروان
چڑھی“۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی ”جدید شاعری“ میں اس کے خدوخال کے بارے لکھتے ہیں:”جو
شاعری روایت کی بنی بنائی ڈگر سے تھوڑا ہٹ کر چلتی ہے اور جس کی رفتار میں
تجربہ کا آہنگ ہوتا ہے اس کو ادبی اصلاح میں جدید کہتے ہیں اور یہ صورت حال
کسی خاص دور کی شاعری میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب احساس بدلتاہے۔ زندگی کے
نئے تقاضے جب نئے شعور کو بیدار کرتے ہیں‘جب سوچنے کے انداز میں تبدیلی
ہوتی ہے‘ جب غور کرنے کا آہنگ ایک نیا روپ اختیار کرتا ہے‘ جب تصورات کے
چراغ جلتے ہیں‘نئے خیالات کی شمعیں فروزاں ہوتی ہیں‘نئے نقطہ نظر کا آفتاب
طلوع ہوتا ہے‘ نئے معیار بنتے ہیں‘ نئی قدروں کی تشکیل ہوتی ہے۔اور ان
حالات کے سائے میں زندگی اور اَدب کا قافلہ نئی راہوں پر گامزن ہوجاتا ہے۔
اس عالم میں شاعری‘ ایک نیا روپ‘ ایک نیا اندازاور ایک نیا آہنگ اختیار
کرتی ہے۔ اسی کو جدید شاعری کہتے ہیں“۔
غزل اُردو شاعری میں اپنا اہم مقام رکھتی ہے۔ کلاسیکی شعرا نے اسے خون سے
سینچا ہے۔ میر‘ غالب اور اقبالؒ نے اسے جو فنی اور فکری معراج عطا کی ہے وہ
جدید میں مختلف رنگوں میں کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے۔ جدید دورروایتی غزل سے
نکل کر جدید موضوعات کا متقاضی ہے اور جدید اُردو غزل نے معاشرتی مسائل سے
نکل کر آفاقی مسائل کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔فارسی میں غزل عربی قصیدے
اور اُردو میں فارسی سے آئی۔ ایران سے نکل کر اس صنف نے بہت زیادہ ترقی کی‘
خاص کرکے برصغیرپاک وہند میں پھیلی۔ اُردو شعرا کے سامنے فارسی شاعری کے
نمونے تھے جن سے اُردو شعرا نے فیض اٹھایا اور فارسی تراکیب‘ تشبیہات و
استعارات کو قبول کیا۔
|
|