ہونٹوں پہ کبھی ان کے

مشکلات ،پریشانیاں اور دکھ انسان کی زندگی کا وہ تعمیری حصہ ہوتے ہیں جنکی بدولت وہ زندگی کو گذارتے ہیں گذارتے بھی ایسے ہیں کہ پھر زندہ رہنے والے انہیں بھولتے نہیں اور جو لوگ اپنے ساتھ پیش آنے والی تکلیفوں کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں انہیں پھر زندگی گذارتی ہے بکھرے ہوئے تنکوں کی طرح جدھر کی ہوا چلی ادھر کو یہ چل پڑتے ہیں کبھی کبھی تو یہ اڑتے اڑتے کسی کی آنکھ میں بھی چلے جاتے ہیں پھر انہیں تکلیف کاسبب بننے کے باعث باہر نکال پھینکنا پڑتا ہے دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوئے جو ثابت قدم رہے یوں ان لوگوں نے زندگی کو گذارا کہ زندگی بھی ان پر رشک کرنے پر مجبور ہوئی ایسے افراد پھر منزلوں کے عادی نہ رہے بلکہ منزلیں ان تک پہنچنے کو ترستی رہیں گذشتہ روز 22اگست کا دن تھا اور یہ ایک ایسی ہستی کا جنم دن ہے جنہوں نے زندگی کے دکھوں اور دردوں کو بہت قریب سے نہیں بلکہ چھو چھو کر دیکھے تھے جو آج ہم میں موجود نہیں مگر انکے الفاظ کی شیرینی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے خوبصورت شاعرہ ادا جعفری نے زندگی گذارنے کا سلیقہ بتادیا کہ محرومیوں کا خاطر میں لائے بغیر کیسے انسان کامیاب ہو پاتا ہے۔
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
اگر حوصلے کی بات کی جائے تو انہی کا یہ شعر کیا خوبصورت مطلب بتاتا ہے ۔
میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

ادا جعفری اردو زبان کی پہلی خاتون شاعرہ تھیں جنکا کلام جیون یوں ہی بیتے گا 1940میں چھپنے والے رسالے نئی امنگیں میں شائع ہوا تھا آپ کی پیدائش 22 اگست 1924 کو بدایوں میں پیدا ہوئیں خاندانی نام عزیز جہاں تھاتین سال کی تھیں کہ والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی شروع شروع میں ادا بدایونی کے نام سے شعرکہے اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھاان کی شادی قیام پاکستان سے قبل نورالحسن جعفری سے 29 جنوری 1947 کو لکھنؤ انڈیا میں ہوئی نورالحسن جعفری سول سرونٹ اور وفاقی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور پاکستان بننے کے بعد وہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں تعینات ہوتے رہے نورالحسن جعفری خود بھی ادب کا جھکاؤ رکھتے تھے اردو اور انگریزی دونوں اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے وہ انجمن ترقی اردو کے صدر بھی رہے شادی کے بعد وہ ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ادبی انعام ملا شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ جو رہی سو بے خبری رہی کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995میں لکھی۔ 1991میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا وہ کراچی میں رہائش تھیں ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی تھیں اورادا جعفری نے جو کہا وہ کمال کا کہا شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا اس وقت دوسری جنگ عظیم کی بھونچالی فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940 اور 1950 کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی ہر لحاظ سے پر شعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھا اورسیاست کی نئی بساط بچھ رہی تھی جسکے نتیجہ میں پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ادا جعفری کی زندگی میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراو آیا ہے اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے کا حوصلہ پیدا ہو ا ان کے لیے زندگی کی کوئی خوشی یا کوئی غم محض ذاتی یا محض کائناتی نہیں رہا بلکہ دونوں ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ذات و کائنات میں وہ دوئی جس نے 1950ء سے کچھ پہلے تک ان کے دروں خانہ جاں میں تضاد و تصادم کی ایک کرب آلودہ فضا پیدا کر رکھی تھی اب وہ باقی نہیں رہی پہلے ان کی نظر ماضی حال پر مرکوز تھی اب ان سے آگے بڑھ کر مستقبل کو خوش آئند بنانے اور زندگی کو مزید خوبصورتی سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں وہ بہت آگے نکل گئی جہاں خواب کشاں کشاں انہیں ایک نئے موڑ پر لے آیا پہلے وہ صرف درد آشنا تھیں اب ’’شہر درد‘‘ کے بیچوں بیچ آبسیں ’’شہر درد‘‘ چونکہ امیر غریب، عام و خاص، محبوب محب اور اپنے پرائے سب کا ہے اس لیے ’’مرگ انبوہ جیے دارد‘‘ کے مصداق ہے ہر چند کہ اس کی وسعتیں ان کی وحشت جاں کے لیے صحرا جیسی سازگار تو نہیں تاہم فرزانگی کو شرمسار کرنے اور پائے جنوں کو جنبش میں لانے کے لیے بہت ہیں ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے ان کی ہائیکو کا مجموعہ ’’ساز سخن‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ادا جعفری نے صغائے حیات اور سائل کائنات کو موضوع بنایا ہے اور کامیابی سے اردو ہائیکو کہیں ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی آنے والی پود کو حوصلہ دیا ہے اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ادا جعفری مختصر علالت کے بعد 12 مارچ 2015 کو کراچی میں انتقال کرگئی انکی تصانیف میں ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ 1950(شاعری)۔شہر درد 1967 (شاعری) جسے 1968 میں آدم جی ادبی انعام ملا۔غزالاں تم توواقف ہو۔ 1974 (شاعری)۔ ساز سخن بہانہ ہے۔ 1982 (شاعری) ہائیکو۔حرف شناسائی (شاعری)۔موسم موسم۔کلیات2002 ۔جو رہی سو بے خبری رہی ۔ 1995 (خود نوشت) شامل ہیں انکی شاعری کا ایک اپنا ہی جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے ادا جعفری کے تین بچے ہیں صبیحہ میری لینڈ امریکہ میں آباد ہیں، عظمی بھی امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور چھوٹا بیٹا عامر کراچی میں ہی رہائش پذیر ہے آخر میں انکی غزل کا ایک شعر جو ہر اردو بولنے والے کی دھڑکن میں سمایا ہوا ہے ۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 510828 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.