"امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
"امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی" مصنف: ڈاکٹر فاروق حسن
|
|
|
"امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی" |
|
"امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی" مصنف: ڈاکٹر فاروق حسن ------------------------- امام عبدالملک بن عبداللہ شافعی جوینیؒ متاخرین میں امام شافعی کے اصحاب میں سے علی الاطلاق سب سے بڑے عالم تھے۔آپ فارسی النسل جوینی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔419ھ (17 فروری 1028ء)میں بشتنقان،موضع جوین نزد نیشا پور،خراسان میں )پیدا ہوئے ۔امام الجوینی کا نام عبد الملک ہے۔ کنیت ابوالمعالی، لقب الجُوَینی، خطاب امام الحرمین اور ضیاءُ الدین ہے۔ مکمل نسب عبد الملک بن ابی محمد عبد اللہ بن یوسف بن عبد اللہ بن یوسف بن محمد بن حیویہ الجُوَینی النیشاپوری الشافعی ہے۔ الجوینی کا بچپن موضع جُوَین نزد نیشاپور میں گذرا۔ کم عمری میں ہی وہ علم حدیث کی جانب مائل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم اور فقہ اپنے والد ابومحمد عبد اللہ بن یوسف سے حاصل کیا۔439ھ 1047ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد الجوینی اُن کی جگہ درس دینے لگے تھے۔درس و تدریس کا یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جبکہ الجوینی ابھی 20 سال کے بھی نہ ہوئے تھے۔اولاً الجوینی اپنے والد کی جگہ درس دیتے رہے، بعد ازاں وہ امام بیہقی کے مدرسہ میں درس دینے لگے۔ نیشاپور کے دیہی مقام بیہق میں قیام کے دوران میں شیخ الاصول والکلام امام ابوالقاسم عبد الجبار الاسفرائنی الاسکاف (متوفی 452ھ سے علم الکلام سیکھا۔ نیشاپور فقہ شافعی کا مسکن بن چکا تھا اور یہاں کے ائمہ کرام و محدثین عظام فقہ شافعی کے ساتھ ساتھ اشعری عقیدہ علم الکلام سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ نیشاپور عقیدہ اُصول اشعری کے ائمہ کا مسکن تھا، یہی خوش قسمتی الجوینی کو میسر آئی۔ الجوینی قیام نیشاپور کے دوران میں کئی ائمہ اشعریہ سے ملاقات کرتے رہے۔ علم الکلام کے اِس دبستان کی بنیاد امام ابوالحسن الاشعری(متوفی 324ھ935ء) نے رکھی تھی۔ دسویں صدی عیسوی میں اشعری عقیدہ علم الکلام اپنے عروج پر تھا۔ نیشاپور میں طغرل بیگ سلجوقی کے وزیر عمید الملک الکُنْدُرِی نے الجوینی کی کھلم کھلا مخالفت کرنا شروع کردی۔ وہ برملا اِس دبستان کو بدعت قرار دے کر منبروں پر ائمہ اشاعرہ کی مذمت کرنے لگا۔ سلجوقی سرپرستی میں کی جانے والی مخالفت کے سبب الجوینی نیشاپور سے ہجرت کر گئے۔ البتہ مؤرخین کے نزدیک یہ سوال اختلافی ہے کہ الجوینی کب نیشاپور سے ہجرت کرکے گئے؟۔ اِسی مخالفت کے سبب الجوینی کے استاد امام ابوالقاسم اسفرائنی الاسکاف بھی ہجرت کرکے بغداد چلے گئے۔ غالباً یہ ہجرت کا واقعہ 452ھ سے قبل کا ہوگا کیونکہ امام ابوالقاسم اسفرائنی الاسکاف کی وفات 452ھ میں بغداد میں ہوئی۔ سلجوقی وزیر السلطنت عمید الملک الکُنْدُرِی 445ھ 1054ء میں وزیر سلجوقی سلطنت بنا اور ذوالحجہ 456ھ نومبر 1064ء تک وزیر رہا۔ اس مدت میں الجوینی نیشاپور واپس نہیں آئے بلکہ وہ حجاز اور بلاد الشام میں مقیم رہے۔ نیشاپور سے نکلنے کے بعد الجوینی المعسکر پہنچے اور پھر بغداد آئے۔ بغداد میں جلیل القدر علما اور فقہا سے تحصیل علم کرتے رہے۔ 450ھ کے اوائل میں حجاز پہنچے اور پہلا حج اداء کیا۔ اُس وقت الجوینی کی عمر 31 سال تھی ۔ 450ھ سے 454ھ تک یعنی 1058ء سے 1062ء تک الجوینی مکہ مکرمہ میں مقیم رہے،اس دوران میں وہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں درس و تدریس میں مشغول رہے۔ حرمین میں درس و تدریس کے سبب اعزازی لقب امام الحرمین زبان زدِ عام ہو گیا اور الجوینی امام الحرمین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ الجوینی جب حجاز سے واپس نیشاپور آئے تو منبر و محراب اِن کے حوالے کر دیا گیا۔ خطابت، تدریس، مجلس جمعہ، مذاکرہ و مناظرہ بھی الجوینی کے سپرد کر دیا گیا۔ 30 سال تک بغیر کسی مخالفت کے نیشاپور میں مقیم رہے۔اس حوالے سے مشہور قول علامہ ابن کثیر الدمشقی کا ہے لیکن اگر تاریخی تسلسل دیکھا جائے تو نظام الملک طوسی کا عہدِ وزارت ذوالحجہ 456ھ نومبر 1064ء میں شروع ہوا۔جب سلجوقی وزیر السلطنت نظام الملک طوسی نے نیشاپور میں بغداد کے مدرسہ نظامیہ کی طرز پر مدرسہ نظامیہ نیشاپور کی بنیاد رکھی تو اُس نے ائمہ اشاعرہ کی حمایت کی اور اُنہیں واپس وطن بلوا لیا۔ جو لوگ واپس نیشاپور آئے اُن میں الجوینی بھی تھے۔ الجوینی مدرسہ نظامیہ نیشاپور میں تا وقت وفات معلم کی حیثیت سے تعلیم دیتے رہے۔ دنیائے اسلام کی مشہور فلسفی شخصیت امام غزالی نے اِسی مدرسہ میں الجوینی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ الجوینی بحیثیت معلم 457 ھ 1064ء سے 478ھ1085ء تک مدرسہ نظامیہ نیشاپور سے وابستہ رہے۔ اوائل ماہِ ربیع الثانی 478ھ اوائل ماہِ اگست 1085ء میں الجوینی علیل ہو گئے۔ دوران میں علالت اپنے پیدائشی گاؤں جُوَین میں چلے گئے کہ شاید وہاں جانے سے صحت عود کر آئے مگر علالت سے صحت یاب نہ ہو سکے اور بروز بدھ 25 ربیع الثانی 478ھ20 اگست 1085ء کی شب عشاء کے بعد جُوَین نزد نیشا پور میں وفات پائی۔نمازِ جنارہ بیٹے ابوالقاسم نے پڑھائی۔ بوقتِ وفات عمر 59 سال 3 ماہ 8 دن قمری اور 57 سال 6 ماہ 3 دن شمسی تھی۔ الجوینی کی وفات کے سوگ میں بازار بند کردیے گئے، اِن کے شاگردوں نے اپنے قلم اور دواتیں توڑ ڈالیں۔ بوقتِ وفات الجوینی کے طلبہ کی تعداد 455 تھی جو اِن کی وفات کے غم میں ایک سال تک علمی اشتغال میں رکے رہے۔ الجوینی کی زندگی کا بیشتر حصہ خراسان،نیشاپوراورحجاز میں گزرا۔اُن کی زندگی میں کئی سیاسی انقلابات آئے۔آل بویہ کی حکومت قائم ہوئی،خلافت عباسیہ میں خود مختار ریاستیں اورسلطنتیں وجود میں آئیں۔امام جوینی پانچویں صدی ہجری(گیارہویں صدی عیسوی) کے متکلم ،فقہ شافعیہ کے فقیہ اور الہیات کے عالم تھے۔ وہ مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں درس و تدریس اور بحیثیت خطیب اعظم و محدث کے باعث" امام الحرمین" کہلائے ۔اُن کی وجہ شہرت اُن کی مشہور کتاب الورقات ہے۔ آپ کی دیگر تصنیفات میں نهاية المطلب في دراية المذهب،مختصر النهاية،مختصر التقريب،الرسالة النظامية في الأركان الإسلامية ،البرهان، الورقات في أصول الفقہ، الغنية، التحفة، التلخيص،العمد،الدرة المضية فيما وقع من الخلاف بين الشافعية والحنفية،الكافية في الجدل،الأساليب في الخلاف،لشامل في أصول الدين،الإرشاد إلى قواطع الأدلة في أصول الاعتقاد،لمع الأدلة في قواعد عقائد أهل السنة والجماعة،العقيدة النظامية في الأركان الإسلامية،شفاء العليل في بيان ما وقع في التوراة والإنجيل من التبديل،قصيدة على غرار قصيدة ابن سینا في النفس، اورغياث الأمم في التياث الظلم شامل ہیں۔ "امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی" --------- امام جوینی کے اصول فقہ اور خدمات کے حوالے سے یہ ڈاکٹر فاروق حسن صاحب کی نئی تصنیف ہے، جسے "گلوبل اسلامک مشن ،یوکے نے شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔کتاب کاسبب تالیف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق حسن صاحب لکھتے ہیں کہ "امام جوینی کی فقہ و اصول ،فلسفہ و علم کلام میں خدمات پر لگ بھگ گذشتہ ایک ہزار سال میں خصوصاً بلاد عرب و فارس میں بہت کچھ لکھا گیا اور عصر حاضر میں عرب و یورپ کی جامعات میں بھی اُن پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔مگر برصغیر کی جامعات کے تحقیقی مجلات و مقالات میں خاص طور سے اردو زبان میں امام جوینی کی اصول فقہ میں کتابوں اور اُن کے متکلمانہ اسلوب بیان اور اُن کی اصولی آراء وخدمات کو خاطر خواہ توجہ نہ مل سکی جس کی وہ فی الواقع مستحق تھیں،اور نہ جدید دور کے جدید ذہن کو قائل و مطمئن کرنے والے متکلمانہ منھج سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکا۔ اس لیے ارادہ کیا کہ اردو زبان میں امام جوینی کی اصول فقہ پر تصانیف اور اُن کےمنھج اصولی اور اُن کے کام میں مسلم مفکرین اور علمائے مستشرقین کی دلچسپی کو اجاگر کروں تاکہ طلبہ و باحثین اس سے فائدہ اٹھائیں اور امام جوینی کے اُن علمی و فکری پہلوؤں کو تلاش کریں جن پر عصر حاضر میں کام کرنے کی ضرورت ہے مگر کسی وجہ سے اب تک محققین کی نگاہوں سے اوجھل رہے یا جس کی ماضی میں اُنہوں نے ضرورت نہیں سمجھی۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد امام جوینی کی علم اصول فقہ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رکھنے والی کتب و مباحث کا تعارف اور اُن کے اعلیٰ علمی،فکری و تحقیقی معیار سے متعلق اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں،خاص طور پر دینی مدارس اور کلیات و جامعات کے کلیہ معارف اسلامی کے طلبا میں شعور وآگاہی کو فروغ دینا اور اسلام کے ایک اہم شعبہ فن "اصول فقہ" کے مطالعہ سے متعلق نئی راہیں ہموار کرنا ہے۔بالخصوص اُن کے لیے جو اسلامی قوانین (اصول فقہ) کی تاریخی نشوونما کی تفہیم میں دلچسپی رکھتے ہوں۔" جناب ڈاکٹر فاروق حسن صاحب ------------------------------ ہیومینیٹیز ڈپارٹمنٹ ،این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں علوم ِاسلامیہ کے استاد ہیں۔آپ نے پاکستان،مصر اور امریکہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ڈاکٹر صاحب متعدد قومی و بین الاقوامی علمی مجالس کے رکن ہیں۔امریکہ،اٹلی،نیدر لینڈ،ترکی،ملائشیا،انڈونیشیا،کمبوڈیا،ایران اور مصر کی جامعات میں اپنے تحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں۔تاریخ ِاصولِ فقہ،تکثیریت ،مکالمہ بین المذاہب اور مسلم دنیا کو درپیش علمی و فکری مسائل اور اُن کا حل ،آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔ ڈاکٹر فاروق حسن صاحب نے فن اصول فقہ پر جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔بعد ازاں آپ نے "ابراہیمی مذاہب کے مابین امن"کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر جان ایل ایسیوزیٹو کی زیر نگرانی جارج ٹاؤن یونی ورسٹی (واشنگٹن ڈی سی امریکہ) سے فل برائٹ اسکالر شپ پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔ آپ نے جامعہ الازھر الشریف مصر سے "الدورۃ التدریبیہ للمعلمین وللوعاظ واللدعاۃ"کیا۔اور وہاں کے کبار اساتذہ شیخ الازھر شیخ سید محمدالطنطاوی سے تفسیر،ڈاکٹراحمد عمر ہاشم سے حدیث اور ڈاکٹر محمد حمدی زقزوق سے استشراق،جبکہ شیخ فتاح شیخ اور شیخ صالح زیدان سے اصول ِفقہ میں اکتساب فیض کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دارالعلوم امجدیہ کراچی سے حفظ القرآن کیا اور شیخ القرآء قاری خیر محمد چشتی الازھری سے تجوید سیکھی اور درس نظامی کی تعلیم کبار مشائخ امجدیہ سے حاصل کی ۔آپ نے مفتی وقار الدین رضوی سے دور حدیث کیا۔اور الجامعۃ العلمیہ الاسلامیہ کراچی سے مفتی سید شجاعت علی قادری اور علامہ انوار اللہ وغیرہ سے بھی تخصص فی التفیسر کیا ہے۔واضح رہے کہ استاذ العلماء مولانا محمد حسن حقانی اور شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازھری بھی آپ کے اساتذہ کرام میں شامل ہیں۔ "امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی"ڈاکٹر صاحب کی چھٹی اور اصول فقہ کے حوالے سے چوتھی تحقیقی کتاب ہے ۔ اس سے قبل "فن اصول فقہ کی تاریخ،عہد رسالت مآب ﷺ سے عصر حاضر"،"برصغیر میں تدوین اصول فقہ" اور"امام محمدالغزالی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور بعض شبہات کا ازالہ"شائع ہوکر مشہور و معروف ہوچکی ہیں۔ "امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی"پانچ فصول پر مشتمل ہے۔ فصل اوّل: امام جوینی کا تعارف اور اُن کی علمی وفکری مقام،فصل دوم :امام جوینی ،اصول فقہ اور مستشرقین،فصل سوم:امام جوینی کی اصول فقہ میں تصانیف اور کتاب الورقات کا تعارف،فصل چہارم:کتاب التلخیص فی اصول الفقہ کا تعارف،اور فصل پنجم:کتاب البرھان کے تعارف پر مبنی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر فاروق حسن صاحب نے اختصار کو مد نظر رکھا ہے اور موضوع کی مناسبت سے اہم،ضروری اور مفید معلومات کو شامل کیا ہے تاکہ شائقین اصول فقہ تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کے لیے اصل ماخذ کی طرف با آسانی رجوع کرسکیں۔ زیرنظرکتاب محترم ڈاکٹر فاروق حسن صاحب کی وہ تصنیف ہے، جس میں آپ نے امام جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات کا تعارف کے ساتھ فن اصول فقہ کی تاریخ، خصوصیات، مستشرقین کے مناہج، اورامام جوینی کی منھجیات اصولیہ سے تعلق رکھنے والے عربی متون،رجال،تراجم و طبقات ،اعلام الاصولیین،اسماء المولفین،اصول فقہ کی بعض متعلقہ کتابوں کے مقدمۃالتحقیق ،عربی قلمی و مصورہ کتابیں،فہارس کتب مطبوعہ و مخطوطہ،پانچویں صدی ہجری کے علماء شافعیہ و اشاعرہ وغیرہ کا مطالعہ اور تجزیہ جامع و تحقیقی انداز میں کیا ہےکہ قاری ایک ہی نظر میں امام جوینی پر مختلف ادوار میں کئے جانے والے کام سے آگاہ ہو سکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین اِس کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق صاحب ،صدر نشین شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی،کراچی لکھتے ہیں کہ "امام الحرمین جوینی کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات اور اہل مغرب کی دلچسپی،اسی عالم بے مثل کی اصول فقہ میں تجدیدی خدمات کے بارے میں ہے جن کی علمی خدمات کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا۔" کتاب کے ناشر اور گلوبل اسلامک مشن یوکے کے چئیرمین جناب محمد مسعود احمد سہروردی اشرفی فرماتے ہیں کہ "حضرت امام جوینی کی خدمات کے تعلق سے یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ہمارے لیے اتنی ہی سعادت کافی ہے کہ ہم اس کتاب کو شائع کررہے ہیں جس میں ایک ایسے امام کی خدمات کا ذکر ہے جن کے بارے میں تصدیق موجود ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔۔۔وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے میرے دین کی مدد کی۔" حواشی اور حوالہ جات سے مزین ایک سو چونتیس (134) صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت ہی خوبصورت سرورق کے ساتھ نہایت ہی اعلیٰ پیپر پر انٹرنیشنل معیار کے مطابق شائع کی گئی ہے۔جس کے لیے کتاب کے ناشر اور گلوبل اسلامک مشن یوکے کے چئیرمین جناب محمد مسعود احمد سہروری اشرفی صاحب اور اُن کے رفقاء قابل ستائش ہیں۔ آخر میں ہم جناب محمد مسعود احمد سہروری اشرفی صاحب کے دل سےشکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں اِس قیمتی تحفہ سے نوازا اوردعا گو ہیں کہ اللہ کریم مصنف اور ناشر و معاونین گلوبل اسلامک مشن یوکے کی اِس کوشش و کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین بحرمۃ سید المرسلیٰن ﷺ محمداحمد ترازی
|