انہی صفحات پر بارہا عرض کیا جا
چکا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے اور نہ ہی آنے والے
وقتوں میں اس قسم کی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھی جا سکتی ہیں۔ حال ہی
میں معروف امریکی اخبار” وال سٹریٹ جنرل “نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان
کی امداد القاعدہ اور طالبان کے خلاف کاروائی کے ساتھ مشروط کر دی ہے ،
اخبار کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اسی بنیاد پر پاکستان کو عسکری اور سول
امداد ملے گی ۔
ایک اعلیٰ فوجی امریکی عہدیدار کے مطابق یہ نئی حکمت عملی دونوں ملکوں کے
تعلقات کی حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے ، اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر
نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ ہمیں کچھ ایسا دکھا دیں جس کی بناءپر ہم
کانگریس کو اپنی بہتر کارکردگی کے متعلق بتا سکیں کہ ہم کس طرح مل کر کام
کر رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کس انداز سے مصروف عمل
ہے ۔ اخبار نے مسٹر اوبامہ کی طرف سے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پہلی کی طرح
پاکستان کو امداد فراہم نہیں کر سکتے ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ
پاکستان کی جانب سے ٹھوس اقدامات کب اٹھائے جائیں گے۔۔۔؟امریکہ کی جانب سے
مشروط امداد کی بات پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آئی بلکہ اس سے پیشتر بھی
کئی بار اس قسم کے مظاہر دیکھنے کو ملے ہیں تاہم عسکری ماہرین کے مطابق جس
قسم کی ذلت آمیز امداد کی پیشکش بقول امریکی اخبار کے اب کی گئی ہے اس طرح
کی امداد بارے امریکی رعونت بھرا رویہ اور لہجہ حالیہ کچھ دنوں سے ہی
دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ امریکی خیرات کے یہ چند ٹکڑے
بڑی ہی ذلت ، جان کھپائی اور توہین کے بعد پاکستان کی جھولی میں ڈال دیے
جائیں جس کے عوض حسب سابق ہم سے اپنے ہی ہم وطنوں اور فوجی جوانوں کے سرخ
خون کا خراج مانگا جائے گا۔من حیث القوم ہماری لیے اس سے بڑھ کر ذلت ،
رسوائی ، بے عزتی اور بے توقیری کیا ہوگی کہ ہمارے ارباب بست وکشاد نے
کفریہ طاقتوں سے مرعوب ہوکر اور اپنے ایمان کی کمزوری کے باعث ا مریکہ کی
نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کراچی تا پارا چنار پورے ملک کو کسی
جہنم نظیر وادی میں تبدیل کر دیا ہے ا ورصرف اپنے ذاتی مفادات کی آڑ میں
پوری قوم کو تباہی و بربادی کے عمیق گڑھے میں گرا دیاہے ،آج پوری سرزمین
اپنوں ہی کے لہو سے تر بہ تر ہے اور خون مسلم جس قدر اس دھرتی پر ارزاں ہوا
اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔ نائن الیون کے بعد اس
پرائی جنگ میں کونسا ایسا نقصان ہے جو بحیثیت قوم ہم نے برداشت نہ کیا
ہو۔۔۔؟آج خود امریکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اس پرائی لڑائی ”Proxy
War“ میں چالیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا ہو چکا ہے جو پاکستان جیسے
ملک کے لیے ایک بہت بڑا معاشی و اقتصادی دھچکا ہے ، امریکی ادارے کنفلیکٹ
مانیٹرنگ سیل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ ڈرونز حملوں ، خود کش دھماکوں
میں پاکستان کے چھ ہزار فوجی جوان اور تیس ہزار عام شہری جاں بحق ہو چکے
ہیں ۔جب کہ اس بھاری نقصان کے بدلے میں ہمیں جو امداد قطرہ قطرہ کر کے
نہایت تضحیک اور ذلت کے ساتھ دی جا رہی ہے اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنی
موت آپ مر جائیں تاکہ ہمیں پھراس طرح کے ذلت آ میز دنو ں کا کبھی سامنا نہ
کرنا پڑے۔
امریکی امداد کے عوض اپنوں سے غداری کی بدنامی کا داغ اپنے ماتھے پر سجائے
ہم آج بھی بغلیں بجارہے اور شاداں و فرحاں ہیں کہ امریکہ بہادر نے ہمیں
دنیا بھر میں اپنا” فرنٹ لائن “کا اتحادی ڈکلیر کرادیا ہے جو ہمارے لیے کسی
اعزاز سے کم نہیں ۔ ہمارے اسی طرح کے ننگ دین اور ننگ ملت کردار سے حیرت
زدہ ہو کر امریکی وکیل سٹیفن ہارن نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ پاکستانی قوم
تو چند سکوں کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچنے پر تیار ہو جاتی ہے۔مجھے یاد
پڑتا ہے کہ اس وقت ہمیں سٹیفن ہارن کے یہ الفاظ بہت برے لگے تھے مگر آج اس
شخص کے یہ الفاظ پتھر پر لکیر ثابت ہو کر ایک تلخ حقیقت کا روپ دھار چکے
ہیں کہ واقعی ہم ڈالروں اور سکوں کے عوض کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں
۔کیاعافیہ صدیقہ اس قوم کی بیٹی اور ماں نہیں تھی جسے ننگ ملت پرویز مشرف
اور اس کے غدار دوستوں نے باہمی مشاورت سے غیروں کے ہاتھ فروخت کر ڈالا
؟سٹیفن ہارن نے تو محض ایک نوجوان ایمل کانسی کی امریکہ حوالگی پر اتنے سخت
ریمارکس دیے تھے مگر آج تو صورتحال اس سے کئی گنا زیادہ ناگفتہ بہ ہو چکی
ہے ، سوچتا ہوں کہ سٹیفن ہارن ہماری موجودہ حالت پر تبصرہ کیوں نہیں کرتا
پھر خیا ل آتا ہے کہ وہ اس پر بھی اپنی سٹیٹمنٹ ضروری جاری کرتا مگر اس نے
اپنی سابقہ بات کے جائزے کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ آئینہ اس قوم
کو دکھایا جاتا ہے جس میں غیرت کا کچھ ”عشر عشیر“ بھی باقی ہو جس قوم میں
عزت و توقیری نامی شے ہی عنقا ہو چکی ہو اس سے اپنی اصلاح کی توقع رکھنا
عبث ہے ۔آج کا تازہ منظر نامہ یہ ہے کہ فوجی قیادت تو پھر بھی کسی حد تک
حالات سے سبق سیکھ چکی ہے جس کا اظہار حالیہ کورکمانڈر کانفرنس میں بھی کھل
کر کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے امریکی مطالبے کو ایک
بار پھر سختی سے مستر د کر نے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو شمسی ایر بیس خالی
کرانے کا عندیہ دے دیا گیا ہے، ایسے اقدامات سے ہماری فوجی قیادت بلاشبہ
ملی غیرت اور حمیت کا ثبوت دے رہی ہے مگر سیاسی قیادت بدستور ریت میں گردن
دبائے بیٹھی ہے اور اس سے اس قسم کی توقع رکھنا یقینا احمقوں کی جنت میں
بسنے کے متراد ف ہوگا۔ایک لمحے کو ذرا سوچیے کہ اگر ہماری سول قیادت بھی
امریکی دھمکیوں اور ہوائی باتوں کا اسی لہجے میں جواب دے تو کوئی وجہ نہیں
کہ ہمارے حالات بہتر نہ ہو پائیں اور ریاست کو صحیح نہج پر نہ لایا جا سکے۔
عسکری ماہرین کا بھی یہ اصرار بڑھ رہا ہے کہ امریکی دوستی سے نجات حاصل کر
کے ہی پاکستان خود انحصاری کی جانب منزلیں طے کر سکتا ہے اور موجودہ حالات
میں پاکستان کے پاس اس وقت ایک گولڈن چانس ہے کہ وہ امریکی تعلقات سے مستقل
طور پر گلوخلاصی کر کے چائنہ جیسے تیزی سے ابھرتے ہوئے طاقتور ترین اپنے
مخلص ہمسایے کو گلے سے لگالے اور پاک چائنہ تعلقات میں مضبوطی لائی جائے ۔
اگر پاکستان کی عسکری قیادت کی بیدار ی اور فقط ایک انگڑائی سے امریکی چہرے
سے پریشانی صاف ہویدا ہوتی دکھائی دیتی ہے تو سیاسی قیادت کی بیدار ی سے
یقینا امریکی اکڑفوں سے مکمل چھٹکارا پا یا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بہر حال اب
نوشتہ دیوار بن چکی ہے کہ پاک چائنہ مثالی تعلقات ہی امریکی غرور کو خاک
میں ملائیں گے اور اس کے رعونت بھرے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے اگر
خدا نخواستہ ہم نے چائنہ کو اگنور کرنے کی اور امریکیوں کے گھٹنوں کو ہاتھ
لگانے کی یہ روش ترک نہ کی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ |