پکچر تو ابھی شروع ہوئی ہے صاحب !
(Imran Khan Changezi, Karachi)
پاکستان سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے اور اس کی معیشت آئندہ دس سالوں کیلئے اپاہج ہوچکی ہے پھر بھی ڈیموں کی تعمیر کے نام پر آج بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہی ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سیلابی تباہی یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اپنے پر پرزے مزید پھیلائے گی اور اگر اس سال اللہ کی رحمت سے ہم مزید برساتوں اور سیلابوں سے محفوظ رہے تو بھی ہما را مستقبل اس وقت تک محفوظ نہیں ہوگا جب تک ڈیموں کی تعمیر سے انکار کی سیاست چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر نہیں کئے جائیں گے ۔ یعنی ڈیم نہیں بنائیں گے تو سیلاب میں ڈوب جائیں گے اور مگر ڈیم بنانے کیلئے جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اسے ہم کہاں سے لائیں گے ! یہ وہ سوال ہے جس کا جواب محب وطن حلقے بصد کوشش اب تک تلاش نہیں کرپارہے ہیں ! |
|
|
پاکستان میں برساتوں اور سیلابوں کے باعث ہونے والی تباہی کے حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو اعدادو شمار پیش کئے ان کے مطابق اس سال معمول سے 500فیصد زائد بارشیں ہونے سے تباہ کن سیلاب آیا جس کی وجہ سے1265افراد ہلاک ہوئے ‘ 14لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا ‘7لاکھ 35ہزار سے زائد مویشی سیلاب برد ہوگئے ‘ بجلی کے 881فیڈرز متاثر ہوئے جبکہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ‘ پل ‘ سڑکیں اور ٹرین کی پٹریاں بہہ گئیں۔ غرض کے ایسی تباہی ہوئی ہے جس سے نمٹنا ترقی پذیر پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ کسی ترقی یافتہ ملک حتیٰ کہ امریکہ جیسی سپر پاور کیلئے بھی ممکن نہیں ! حکومت نے سیلاب متاثرین کی کیمپوں اور محفوظ مقامات تک منتقلی کیساتھ انہیںخوراک ‘ ادویات اور علاج و معالجے کی فراہمی کیلئے فوج کی خدمات حاصل کیں اور فوج نے مستعدی و فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درکار وسائل کو پوری طرح استعمال کرکے جو مثالی خدمات انجام دی ہیںاس کیلئے ہر پاکستانی نہ صرف اپنی فوج پرفخرکرتا ہے بلکہ انہیں خراج تحسین بھی پیش کررہا ہے ۔ فوج کی مستعدی نے سیلاب میں بہہ کر انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے خطرات کو ٹال دیا ہے اور تمام سیلاب متاثرین محفوظ مقامات تک منتقل ہوچکے ہیں ۔ اب ان متاثرین کیلئے عارضی کیمپوں کے قیام اور خوراک و راشن کی فراہمی کیلئے اقدامات و انتظامات کئے جارہے ہیں جبکہ اگلا مرحلہ ان متاثرین کی واپسی اور ان کے گھروں کی تعمیر کا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نے سیلاب سے متاثر ہونے والے ہر گھر کیلئے فوری طور پر 25ہزار روپے ‘ سیلاب سے ہلاک ہونے والے ہرفرد کیلئے 10لاکھ روپے اور سیلاب میں زخمی ہونے والے ہر فرد کیلئے5لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے ۔ جس کے بعد صورتحال کچھ یوں ہے کہ تباہ ہونے والے 14لاکھ گھروں کو 25ہزار روپے فی گھر دینا ہے ‘ ہلاک ہونے والے1265افراد کیلئے 10لاکھ روپے فی کس دینا ہے ‘ 5ہزار سے زائد زخمی افراد کو 5لاکھ روپے فی کس فراہم کرنا ہے جبکہ ٹرین کی پٹریوں ‘ سڑکوں ‘ پلوں ‘ بجلی ‘ پانی ‘ گیس اور سیوریج کے نظام کی از سر نو تعمیر و بحالی کیلئے بھی ایک خطیررقم درکار ہوگی ۔ حکومت نے اس صاری صورتحال سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے جس کے بعد عالمی برادری نے دل کھول کر پاکستان کی امداد کی ہے جس کا تخمینہ تو فی الحال نہیں لگایا جاسکتا مگر اس کے باوجود ہم عالمی برادری کے مشکور ہیں جس نے ماضی کی طرح ایک بار پھر پاکستان کو مشکل حالات سے نکالنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سیلاب سے بچ جانے اور اس کی تباہ کاریوں سے جانی و مالی طور پر محفوظ رہ جانے والے علاقوں کے پاکستانی عوام نے بھی مشکل کی اس گھڑی میں اپنے سیلاب متاثرہ بھائیوں کی مدد کیلئے دل کھول کر عطیات دیئے اور سماجی تنظیموں نے اپنا بھرپور فرض نبھایا ہے مگر اس کے باوجود صورتحال ابھی تک قابو سے باہر ہے ۔ یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ سیلاب آنے کی بنیادی وجہ ڈیموں کی ضرورت و تعمیر سے انکار کی وہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان سیلابی پانی میں غرق ہوچکا ہے اور اس کی معیشت کم ازکم آئندہ دس سال تک کیلئے اپاہج ہوچکی ہے اس کے باوجود آج بھی ڈیموں کی تعمیر کے نام پر کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہی ہے اور وہ ڈیموں کی تعمیر کیلئے اٹھنے والی ہر آواز کو گلے میں گھونٹنے کی ماضی کی پالیسی کے اسیر بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ محکمہ موسمیات مسلسل پاکستان میں مزید بارشوں اور سیلابوں کا عندیہ دے رہا ہے جبکہ برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے بھی سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں 7ہزار 253گلیشئر ز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی اور برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب کے بیان کو دیکھا جائے تو اس بات کا ادراک ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والی تباہی یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ ابھی اپنے پر پرزے مزید پھیلائے گی اور اگر اس سال اللہ نے اپنی رحمت سے ہمیں مزید برساتوں اور سیلابوں سے محفوظ بھی رکھا تو بھی ہمارا مستقبل اس وقت تک محفوظ نہیں ہوگا جب تک ہم ڈیموں کی تعمیر سے انکار کو چھوڑ کر ان کی ضرورت و اہمیت کو جان کر زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر نہیں کریں گے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے بلکہ پکچر تو ابھی شروع ہوئی ہے ! کیونکہ اگر ڈیم نہیں بنائیں گے تو ڈوب جائیں گے ! اور ڈیم بنانے کیلئے قومی اتفاق رائے کہاں سے اور کیسے لائیں گے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا محب وطن حلقوں کی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ پاکستان مستقبل قریب میں مزید کسی سیلاب یا پانی کی کمی کامتحمل نہیں ہوسکے گا ! |