عمران خان 2018ء میں وزیراعظم بنے تو ان کے پاس اعلیٰ
عدلیہ کا صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ موجود تھا ،یہ بات زبان زد عام تھی کہ
کچھ بھی ہو بندہ کرپٹ نہیں ہے پھر خان صاحب نے اپنی 22سالہ سیاست میں
مخالفین کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے عام آدمی کو یہ یقین
ہوچکا تھا کہ وہ اپنے دورِ حکمرانی میں سادگی ، ایمانداری اور خود احتسابی
کی وہ تاریخ رقم کریں گے کہ آنے والی نسلیں بھی ان کے دورِ اقتدار کو یاد
رکھیں گی لیکن افسوس ایک ایک کرکے عوام کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے اور
خان صاحب بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح اقتدار کے حصول کے لئے عوام کے دلوں
سے کھیلنے والے اور جھوٹے دعوے کرکے اقتدار حاصل کرنے والے روایتی سیاستدان
ہی ثابت ہوئے ،عمران خان کے بطور وزیر اعظم ساڑھے تین سالہ دور کا جائزہ
لیں تو ہر شعبے میں ان کے قول وفعل میں اتنا بڑا تضاد سامنے آئے گا کہ عام
آدمی کی ان سے بندھی تمام امیدیں دم توڑ جائیںگی ، اقتدار کے حصول سے قبل
عمران خان عوام کو ہالینڈ کے وزیر اعظم کےسائیکل پر دفتر آنے اور سرکاری
وسائل کے کم سے کم استعمال کے قصے سنایا کرتے تھے لیکن جب خود وزیر اعظم
بنے تو اپنے گھر یعنی بنی گالہ سے وزیر اعظم ہائوس آنے کے لئے سائیکل اور
گاڑی تو دور کی بات سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے جس کا کرایہ عوام
کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کیا گیا ، پھر وزیر اعظم بننے سے پہلے اور وزیر
اعظم بننے کے بعد بھی ان کی زبان سے ہمیشہ ہی ریاستِ مدینہ کی مثالیں سنی
گئیں جس میں حضرت عمرؓ جیسے حکمران سے بھی ایک عام شہری بھی سوال کرسکتے
تھے اور بطور حکمران وہ خود کو احتساب کے لئے پیش بھی کیا کرتے، لیکن جب
سابق خاتون اول کو تحفتاً ملنے والے ہیروں کے ہار کے حوالے سے صحافی نے
سوال کیا تو خان صاحب نے جواب دینا تو درکنار صحافیوں پر ناراضی کا اظہار
کیا، کیا ریاستِ مدینہ کے تمام اصول و ضوابط صرف عوام کےلئے تھے؟ اقتدار سے
قبل سابق وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ وہ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی وزیر اعظم
ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیں گے اور گورنر ہائوس کی دیواریں گراکر
عوام کےلئے کھول دیں گے لیکن پھر عوام نے دیکھا کہ نہ تو وزیر اعظم ہائوس
یونیورسٹی بنا اور نہ ہی گورنر ہائوس کی دیواریں گریں ،پھر توشہ خانہ
اسکینڈل نے تو عوام کے ہی نہیں بلکہ دوست ممالک کے حکمرانوں کے دل بھی توڑ
کر رکھ دیے ہوں گے کیوں کہ جس دوست ملک کے حکمران نے آپ کو 25 کروڑ روپے
کی گھڑی تحفے میں دی، چند دنوں بعد وہی گھڑی جس دکان پر فروخت کے لئے آئی
اور وہاں سے تحفہ دینے والے حکمران کو یہ بات پتہ چلی ہو گی تو سوچیں اس
حکمران نے پاکستانی وزیر اعظم اور پاکستانی قوم کے بارے میں کیا سوچا ہوگا
؟پھر دو سال تک تحفہ میں ملنے والی گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم
اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیںکی ،اس سے بھی ان کے صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ
کی ساکھ ضرور مجروح ہوئی ہوگی ، پھر بطوروزیر اعظم انہوں نے آئی ایم ایف
سے قرضہ لیا اور اس قرض کے بدلے میں بہت ساری شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ
بھی کیا لیکن جیسے ہی انھیں اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت کا خاتمہ قریب ہے تو
انہوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ آنے والی حکومت کی مشکلات بڑھانے کے لئے
آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی شروع کردی جس سے چند دنوں کےلئے پیٹرول
تو سستا ہوا لیکن اس کے نتیجے میں ڈالر ڈھائی سو روپے تک جاپہنچا اور ریاستِ
پاکستان لڑکھڑا گئی او ر ڈیفالٹ ہوتے ہوتے بچی ، جب ان کی حکومت کا خاتمہ
ہوا تو وہ اتنے جذباتی ہوگئے کہ پہلے امریکہ مخالف بیانیہ اختیار کیا جس سے
پاک امریکہ تعلقات کئی دہائیوں کی بدترین سطح پر آگئے جس سے پاکستان کا
نقصان ہوا ، صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان پر تو شوکت خانم اسپتال کو عوام
کی جانب سے ملنے والی صدقے اور زکوۃکی رقم سے غیرقانونی سرمایہ کاری کرنے
کےالزامات بھی ہیں ،لہٰذا اب وہ ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق اپنے اوپر
لگنے والے تمام الزامات کےلئے جوابدہ ہیں اور ہماری عدلیہ بھی ان کے ساتھ
پورا انصاف کرنے کی پابند ہے ، نتائج پر عوام کی نظریں لگی ہیں ،امید ہےجو
بھی فیصلہ ہوگااس میں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
|