ایک جانب سیلاب ، طوفان ، بارشیں اور چاروں طرف تباہی و بربادی کی کہانیاں
جنم دیتا ہوا پانی تو دوسری جانب بجلی کے بلوں سمیت پٹرولیم مصنوعات میں ہو
شر با ء اضافے نے اس جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے والی بے بس و لاچارقوم
جسے اقتدار کے گھناؤنے کھیل میں تختہء مشق بنا رکھا ہے ۔ ہر پندرہ روز بعد
پیٹرولیم کی قیمتوں کا جائزہ اور بجلی کے بلوں کیلئے فیول ایڈ جسٹمنٹ کے
فارمولے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا ذریعہ ہیں ۔تاریخ میں پہلا موقع ہے
کہ عوام کی قوت خرید بالکل جواب دے گئی ہے جس کی وجہ سے ہر طرح کا کاروبار
شدید مندے کا شکار ہے جس کے معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ فیول
ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں بجلی کا فارمولہ عوام کی گردن پر تلوار ہے جو ہر
مہینے چلتی ہے۔اور عوام بے چاری کو مہنگائی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا
گیا تھا کہ جیسے ہی قسط ملے گی ، بجلی سمیت پٹرول کی قیمت میں کمی واقع ہو
جائے گی لیکن حکومت کو آئی ایم ایف کی پہلی قسط ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کی مد
میں موصول ہو نے کے باوجود ایندھن و بجلی میں مزید اضافہ کر کے عام آدمی پر
آسمان گرا دیا گیا ہے ۔ یعنی موجودہ اتحادی حکومت ایک پر ایک جھوٹ بولتی جا
رہی ہے کہ قبل ازیں کہا گیا کہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے فیول ایڈجسٹمنٹ
چارجز سے مستشنیٰ ہو نگے ۔ اس پر بھی عوام کے حصے میں وااپڈا کے دفاتر کے
باہر لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی زلت کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ بعد ازاں
لاہور ہائیکورٹ نے بھی بجلی کے بلوں پر اضافی ٹیکسز کے خاتمے کا اعلان کر
دیا ۔
یعنی ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘آخر حکومت عوام کو ریلف دینے کے
بجائے ہم سے فراڈ کر گئی اور مہنگائی کم کرنے کی خوش خبریاں سنانے پر ہی
اکتفا ء کیا اور عمل ندارد!چنانچہ وزیر اعظم شہباز شریف کا 300 یونٹ تک
بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنیکا اعلان بھی
منظر عام پر آْچکا ہے کہ جس کے مطابق75 فیصد صارفین کو فیول سرچارج سے
استثنیٰ مل گیا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے کیا؟ مالی سال کے آغاز میں
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایک ریفرنس فیول کاسٹ دیتا
ہے، یعنی ایک ایسا حوالہ جس سے ہر ماہ ایندھن پر آنے والی کل لاگت کا
موازنہ کیا جا سکے۔ایک مہینے میں بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے
ایندھن کی کْل لاگت (باسکٹ فیول کاسٹ) دراصل ملک میں توانائی کے مختلف
ذرائع میں استعمال ہونے والے ایندھن (جیسے کوئلہ، ایل این جی، فرنس آئل) پر
آنے والی لاگت کے اعتبار سے نکالی جاتی ہے۔اور یوں ہر ماہ کے اختتام پر اس
ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ کا موازنہ ریفرنس فیول کاسٹ سے کیا جاتا ہے اور
اسی حساب سے یہ ’ایڈجسٹمنٹ‘ دو ماہ کے بعد بجلی کے بلوں میں لگ کر آتی
ہے۔اگر اْس ماہ مجموعی فیول کاسٹ، ریفرنس کاسٹ سے زیادہ ہو تو آپ کے بل میں
ایف پی اے کی مد میں اضافہ ہو گا جبکہ اگر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ
ریفرنس کاسٹ سے کم ہو تو ایف پی اے کی مد میں کمی آتی ہے جسے فیول پرائس
ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں۔یہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف
الیکٹرک ایکٹ 1997 ء کے تحت لیے جاتے ہیں۔ اس ایکٹ کی شق نمبر 31کیمطابق
تمام بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ تیل کی قیمتوں
میں تبدیلی کے مطابق ہرماہ کے سات دن تک بلوں میں قیمتیں ایڈجسٹ کریں۔ اسی
شق کے مطابق تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں وفاقی حکومت کویہ سرچارج ادا کریں
گی۔ایکٹ کے مطابق صارفین سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج یونٹ کے حساب سے
لیا جاتا ہے۔ جس میں اگر صارف نے دسمبر میں 100 یونٹس استعمال کیے اور بل
ایک ہزار روپے آیا لیکن دسمبر میں ہی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں
اضافہ ہو گیا تو ڈسٹری بیوشن کمنپی اسی اضافے کے مطابق فی یونٹ کے حساب سے
اس تبدیلی کو ایڈجسٹ کرے گی۔ جو فی یونٹ کے حساب سے ایڈجسٹ کیا جاتا
ہے۔حکومت کی جانب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سبسڈی دی جاتی
تھی جس کے باعث بجٹ خسارہ آتا تھا، مہنگائی میں اضافہ ہوتا اور حکومت کو
قرضہ لینا پڑتا تھا۔اب گذشتہ ایک سال سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے بل میں
ہی لگایا جائے، چاہے منفی ہو یا مثبت تاکہ یہ ایڈجسٹ ہو جائے۔ایک بل کے
اندر بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ عوام کو سات مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے سزا
دی جاتی ہے اگر نیلم جہلم کا منصوبہ متعدد بدعنوان حکومتوں کی وجہ سے بروقت
مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا تو اس کی قیمت عوام
کیوں ادا کررہے ہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ ایف سی اور ٹی آر سرچارج کس بلا کا
نام ہے فیول ایڈجسٹمنٹ اور اس پر جی ایس ٹی ایک بھتہ خوری کے علاوہ کچھ بھی
نہیں۔ ملکی معیشت ٹھیک ہو یا نہ ہو مگر ہر نئی حکومت کا اصل مقصد عوام کو
مہنگائی کی چکی میں پیسنا ہی ہوتاہے ۔حالیہ دنوں میں اس ہوشربا اضافہ کے
خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئی اور خصوصا تاجر برادری جو کے پہلے ہی کمرشل
ریٹس پر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں انپر فکس ٹیکس کی شکل میں ایک اور بوجھ
لاد دیا عوام کی اس حالت زار پر کسی بھی حکومتی ادارے یا حکومتی ترجمان کے
کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ضروری ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے
فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے بجلی کے بلوں پر ٹیکس واپس لیتے ہوئے عام
آدمی کی مشکلات کم کرے ۔ لہذاوزیر اعظم کی دردمندی اور مسئلے کے حل کے
حوالے سے عزم کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں کوئی فوری فیصلہ کیا جائے اور
گزشتہ و موجودہ اور آئندہ ماہ کی متوقع اضافی رقم کی وصول روک دی جائے اور
حکومت اس کا کوئی ایسا راستہ نکالے کہ عوام پر مزید بوجھ نہ پڑے ۔
|