ایک مصور نے تصویر بنائی اور اس کو چوراہے پر رکھ دیا اور
اس کے نیچے نوٹ لکھ دیا کہ اس تصویر میں جو خامی ہے وہ اس خالی کاغذ پر لکھ
دے اور پھر ہر ایک نے اپنی دانست کے مطابق اس تصویرکے متعلق خامیاں لکھی
کسی نے لکھا کہ اس تصویر میں آنکھیں ٹھیک نہیں بنائی گئی،کسی نے لکھاکہ کان
درست نہیں،کسی نے لکھا کہ ناک اچھی نہیں بنائی غرص کہ جس کو موقع ملا اس نے
وہ خامی کا اندراج اس کاغذ پر کر دیا۔مصور نے اگلے دن جو تصویر بنائی تھی
اس کے ساتھ ایک خالی چارٹ اور تصویر بناننے کے لیے جو ضروری سامان تھا رکھ
کر ساتھ میں نوٹ لکھا کہ جس کو جو خامی اس تصویرمیں ملی وہ اس کو درست
انداز میں خالی چارٹ پر بنائے اب کیا تھا جس کو آنکھیں ٹھیک نہیں لگ رہی
تھیں اس کو خود آنکھیں بنانی نہیں آرہی تھی اس طر ح کان،ناک کو غلط کہنے
والوں کو خود کچھ بھی بنانا نہیں آرہا تھا آخرکار جب سب ناکام ہوگئے تو
کہنے لگے کہ پہلی تصویر میں جو چیز بنائی گئی تھی بالکل درست تھی کچھ اسی
طرح کی صورت حال ہمارے ملک کے لیڈروں کی ہے اگر بات کی جائے عدم اعتماد کی
ووٹنگ سے قبل کی تو ایک طرف پاکستان تحریک انصاف اور دوسری طرف پی ڈی ایم (تیرہ
جماعتوں کا اتحاد)تھی۔ پی ڈی ایم کا موقف تھاکہ ملک کا دیوالیہ ہونا
والاہے،ملک مکمل طور پر غلط سمت کی طرف جا رہا ہے،ملک میں لاقانونیت میں
اضافہ ہوگیا ہے اور مہنگائی کا ایسا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں ہر
چیز عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوتی جارہی ہے لو گ خود کشیاں کرنے پر
مجبور ہیں بجلی،گیس ملک میں ہے نہیں مگر ان کے بل ہزاروں روپے ادا کرنے پر
عوام مجبور ہے۔کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں،فیکٹریاں
اور ملز بند ہوگئیں ہیں۔سرمایہ دار اپنا سرمایہ دیگر ممالک میں لگا رہے ہیں
آئی ایم ایف کے ساتھ کڑی شرائط پر معا ہد ہ کیا گیا ہے۔ غرص کہ ہر لحاظ سے
حکومت فلاپ ہے اور اس کو فارغ ہونا چاہیے۔ خد ا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پی ٹی
آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور پی ڈی ایم کو موقع
ملا کہ وہ تمام تر خراب صورت حال کو درست کرسکیں اور پی ڈی ایم نے مشترکہ
طور پر میاں محمد شہباز شریف کو پاکستان کا نیا وزیراعظم منتخب کیا۔پی ڈی
ایم کی حکومت وجود میں آنے کے بعد پاکستان کی پوزیشن یکسر تبدیل ہوگئی سب
کچھ بکھر کر رہ گیاہر وہ بات جو پی ڈی ایم حکومت میں آنے سے پہلے کرتی تھی
عملاسب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے مثال کے طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ بے تحاشا
کردی اور قیمت میں اضافہ حد سے ذیادہ ہوگیا۔گیس،پیٹرول اور دیگر مصونا عات
کی قیمتوں میں ہوش با اضا فہ کرکے عوام کی کمر توڈ دی گئی ہے۔جس پی ڈی ایم
کا لانگ مارچ مہنگائی کے خلاف تھا انہوں نے اقتدار میں آکر مہنگائی کے تمام
ریکاڈ توڑ دیے ہیں جو خود کو معیشت کے چمپین سمجھتے تھے انہوں نے قومی
خزانے کا بیٹرا غرق کردیاہے عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا اک خواب
بن گیا۔آئی ایم ایف کی ڈیل جو ہوئی ہے اس میں آئی ایم ایف والوں نے ناک و
چنے چبھوائے دیئے ہیں تب جا کے ڈیل فائنل ہوئی۔سعودی عرب سے امدا د لے کر
اپنے خزانے کو بحال رکھاگیاہے۔ہر وہ چیز جس کی قیمت دس روپے ہے آج وہ چار
گنا بڑھ گئی ہے۔ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔یہاں تک بچوں کے دودھ
تک کو نہیں چھوڑا گیا۔صرف اقتدار میں آنے کی حوس نے اندھا کرکے رکھا دیاہے
ان اقتدار کے پوجاریوں کے اپنے بزنس،جائیدادیں اور بچوں کی تعلیم تو ملک سے
باہر ہے مگر حکومت یہاں کرنا چاہتے ہیں ان کو کوئی سرو قار نہیں ہے کہ
مہنگائی کتنے فیصد بڑھ گئی ہے یاملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے جب یہ اقتدا ر
سے باہر ہوتے ہیں تب خامیاں نکالتے ہیں جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں تو مصوم
بن کر کہہ دیتے ہیں کہ پچھلی حکومت نے تباہی مچائی تھی۔آج پاکستان کی عوام
جاننا چاہتی ہے کہ اگر خامیاں نکال کر دور نہیں کر سکتے تو اقتدار میں آنے
کی کیا ضرورت ہے۔یہاں پر ہم عوام کی بھی ناسمجھی ہے وہ یہ کہ آج کے اس جدید
دور میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم ان مفاد پرست لوگوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں
دنیا آج چاند پر آباد کاری کے لیے منصوبہ بندی کررہی ہے اور ہمارے لیڈر آج
بھی وہی روایتی انداز میں ہمیں سڑکوں،پلوں اوردیگری اشیاء کا جھانسہ دے کر
خود ایوان میں انجوائے کرتے ہیں۔کاش کبھی ایسی حکومت بھی آئے جو اپنے تمام
تر مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے ملک کی عوام کے بارے میں سوچے،اپنی عوام کی
فلاح بہبود کے لیے منصوبہ بندی کرکے گیس،بجلی،پیٹرول اور روزمرہ کے استعمال
کی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں سے نجات دلاسکے۔ورنہ دوسری صورت میں خامیاں توہم
نکلتے رہے گے مگر جب خامیاں دور کرنے کی باری آئے گی تو پہلے والی ٹھیک ہے
کہہ کر مطمن ہوجائیں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح اور علامہ
محمداقبال نے پاکستان کی جو تصویر بنائی تھی وہ بہترین تھی کیونکہ انہوں
اپنی جندجان لگائی تھی پاکستان کی تصویر بنانے کے لیے مگر افسوس اُن
جمہوریت کے ٹھکیداروں پر جنہوں نے پاکستان کی صورت تبدیل کردی صرف اپنے
مفادات کی خاطریہاں پر تمام سیاسی راہنماوئں سے التجاء ہے اس جہاں کے بعد
یوم حساب بھی ہوگاجہاں پر عملوں کا حساب ہوگا اس دنیا میں اقتدار ملا ہے تو
اس کو امانت سمجھ کر استعمال کریں۔۔
|