رواں دور والدین کے لیے بچوں کا ویڈیو گیمز میں ضرورت سے
زیادہ مشغول رہنا اور دیگر سرگرمیوں کی جانب عدم توجہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
دیکھا جائے تو ویڈیو گیمز پچھلے تیس برس سے کھیلے جا رہے ہیں لیکن ان کے
اثرات پر تحقیق اور توجہ کا سلسلہ پچھلے پندرہ سالوں سے دیکھنے میں آیا
ہے۔2017 (نیوزوو) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کھیلنے
والوں کی تعداد تقریبا ایک ارب ہے اور ایک اندازے کے مطابق ویڈیو گیمز کی
سالانہ فروخت ایک کھرب ڈالر تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔
ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں بچوں اور ٹین ایجرز دونوں کا شمار ہوتا ہے اور
یہ اپنے کھیلنے والوں پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس میں
جسمانی، سماجی اور ذہنی اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ خواہ وہ مثبت
ہوں یا منفی۔
گزشتہ کئی برس سے ویڈیو گیمز سے مرتب ہونے والے منفی اثرات پر مختلف پہلوؤں
سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ جن میں سماجی و جسمانی طور پر ہونے والے کئ
خاطر خواہ اثرات کو واضح کیا گیا ہے۔
منفی اثرات:
وہ ویڈیو گیمز جو ماردھاڑ اور اشتعال انگیزی پر مبنی ہوں، کھیلنے والوں کی
طبیعت اور ذہن میں بھی اشتعال انگیزی کے احساسات پیدا کرتے ہیں۔ خصوصی نو
سال سے لے کر بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے رویوں میں غصہ، چڑچڑا پن اور
طبیعت مشتعل ہونے کے زیادہ امکانات پائے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے
علاوہ گولہ بارود اور خونریزی والے سینزاور ماحول سے ان کا رجحان اور لگاؤ
اشتعال انگریزی میں استعمال ہونے والی چیزوں میں زیادہ ہونے کے امکانات
ہوتے ہیں۔ جو بچے اور نوجوان ویڈیو گیمز میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں وہ
آہستہ آہستہ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ اصل دنیا سے ان کا رابطہ ٹوٹتا چلا
جاتا ہے اور وہ گیمز کوہی اپنی دنیا تصور کرنے لگتے ہیں۔
چونکہ بچوں کے ذہن حساس اور نازک ہوتے ہیں اس لیے جس دوران وہ گیم نہ بھی
کھیل رہے ہوں تب بھی وہ اپنی فرضی اور خیالی دنیا کی کمی کو شدت سے محسوس
کرتے ہیں۔ والدین کی جانب سے ویڈیو گیم کے عادی بچوں میں ان کی تعلیم کی
طرف عدم توجہ کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ روزانہ کئی گھنٹے ویڈیو گیمزمیں
صرف کرنے کے باعث ان کی سماجی سرگرمیاں اور گھر والوں کے ساتھ رابطہ اور
تعلق بھی متاثر ہوتا ہے۔ ویڈیو گیم کے شوقین لوگ اپنی فرصت کا ہر گھنٹہ
فیملی کے ساتھ بات چیت کرنے یا دیگر کسی سرگرمی میں گزارنے سے زیادہ ویڈیو
گیمز کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک نشست پر بیٹھ کر گھنٹوں ویڈیو گیم
کھیلنے سے ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہونے کا خدشہ پایا گیا ہے۔ جس میں
فزیکل ایکٹیویٹی نہ ہونے کے باعث وزن کا بڑھنا اور ایک ہی پوسچر میں رہنے
سے باڈی اسٹرکچر بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
ویڈیو گیم کے شوقین افراد رشتوں اور دنیاوی و سماجی تعلقات سے بھی دور ہوتے
نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کی خیالی اور فرضی دنیا ان کی اصل دنیا پر حاوی ہو
جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کرنے سے قاصر
رہتے ہیں اور گیم سے ہٹ کر تمام تر سرگرمیاں اور ذمہ داریاں انہیں بوجھ
محسوس ہوتی ہیں۔
ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور فرسٹریشن جیسے مسائل سے
دوچار ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ گیم میں ضرورت سے زیادہ انولومنٹ ان کو اس
کی جیت کی لگن میں اتنا آگے لے جاتی ہے کہ ہار کا سامنا کرنا ان کے لیے
مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ہار کی صورت میں وہ دلبرداشتہ ہو کر زہنی دباؤ کا
شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کی طبیعت میں خوف اور غصے کا عنصر بھی پیدا ہو
جاتا ہے۔
"گیمرز کو ویڈیو گیم کی لت کے ساتھ ساتھ 89 فیصد تک پروبلم ڈپریشن کی ہوتی
ہے۔ البتہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اشتعال انگیزی پر مبنی گیمز کے مقابلے میں
دوسرے جن میں مشتعل کر دینے والے عناصر موجود نہیں ہوتے، باہمی تعلقات کو
بہتر بناتے ہیں۔ "
(gonzalez: baez et al. from 2018)
مندرجہ بالا منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں ویڈیو
گیمز پر پابندی کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں بھی ویڈیو گیم کھیلنے
والوں میں سے کچھ گیمرز کا انتہائی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ لاہور میں پب
جی گیم پر پابندی کے بعد 16، 18 اور 20 سالہ نوجوانوں کی جانب سے سوسائڈ
اٹمپٹ کیا گیا۔
پب جی اور اس جیسے اور دوسرے گیمز نوجوانوں اور بچوں میں دوسروں کو مارنے،
اثاثوں اور پراپرٹی کو نقصان پہنچانے اور جرائم کے نئے طریقے متعارف کروانے
کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ "کسی چیز کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہو
سکتی ہے" یہ جملہ سو فیصد حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
مثبت اثرات:
ویڈیو گیمز کی زیادتی سے جہاں کئی مسائل جنم لیتے ہیں وہاں اس کے کھیلنے
والے کئ خوبیاں اور صلاحیتوں کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ ویڈیو گیمز کھیلنے والے
فیصلہ سازی اور ہدایات کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔
ان افراد کا حافظہ تیز ہوتا ہے اور یہ بیک وقت کئی کام کرنے میں ماہر ہوتے
ہیں۔ ثابقتی طبیعت کی وجہ سے ان میں اپنے ہدف اور مقصد کے حصول کی لگن
دیکھنے میں آتی ہے اور یہ صلاحیت ان کی اپنی اصل زندگی میں مختلف مقاصد کے
حصول میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ویڈیو گیمز کے شوقین افراد تخلیقی
صلاحیت اور حاضر دماغی کے بھی حامل ہوتے ہیں۔
2008 میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی جانب سے ہونے والی تحقیق میں ویڈیو گیمز
کے مثبت اثرات کو واضح کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق گیمز میں استعمال ہونے والے
تھری ڈی گرافکس سے دماغ اور آنکھوں کے درمیان حساسیت بڑھتی ہے اور اس میں
پیش آنے والی مختلف صورتحال سے انسان کے جذبات ابھرتے ہیں جو صرف منفی نہیں
ہوتے۔ مختلف شوٹنگ ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کی موٹر اسکلز میں بھی اضافہ
ہوتا ہے۔
ویڈیو گیمز اور بچوں کی نفسیاتی و سماجی طبیعت پر ہونے والی لونگیٹیوڈنل
اسٹڈی 2017 میں جرنل آف یوتھ اینڈ ایڈلسینس میں شائع کی گئی۔ تحقیق میں 9
سے 12 سال کی عمر کو ٹارگٹ کیا گیا اور اس تحقیق کا بنیادی مقصد بچوں کے
سماجی رویے پر ویڈیو گیمز کے ممکنہ اثرات تلاش کرنا تھا۔ اس تحقیق کے نتائج
کے مطابق ویڈیو گیمز کا بچوں کی پروسوشل ڈویلپمنٹ پر کوئی نقصان نہیں دیکھا
گیا۔ اشتعال انگیزی پر مبنی گیمز اور ان کے نقصان دہ اثرات ایک لمبی بحث ہے
لیکن مندرجہ بالا تحقیق کے نتائج میں مشتعل نوعیت کے گیمز کا بچوں کے سماجی
رویوں سے کوئی تعلق واضح نہیں ہوا۔ البتہ وہ گیمرز جو کثرت سے گیمز کھیلتے
ہیں اور گیمز میں مسابقتی طور پرانوالو ہوتے ہیں ان کے پروسوشل ہونے میں
کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ چناچہ والدین کو چاہیے کہ ویڈیو گیمز کے نتیجے میں
بچوں میں آنے والی تبدیلی پر غور کریں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر
توجہ دیں۔
ویڈیو گیمز کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک نے مختلف فیصلے
کیے اور لائحہ عمل اختیار کیا جس میں چین کی مثال سامنے ہے۔ چین میں مقرر
کردہ قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو پابند کیا گیا کہ وہ رات
دس بجے سے صبح آٹھ بجے تک ویڈیو گیم نہیں کھیل سکتے اور دن میں صرف 90 منٹ
کھیلنے کی اجازت دی گئی۔ 16 سال سے کم عمر بچوں کو آن لائن گیمز پر صرف 28
ڈالر خرچ کرنے پر پابند کیا گیا جب کہ 18 اور اس سے زائد عمر کے افراد کو
ماہانہ 56 ڈالر ویڈیو گیمز پر خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ ویڈیو
گیم کھیلنے والے ہر شخص کو اپنے اصلی نام سے رجسٹریشن کروانا لازمی قرار
دیا گیا۔
رواں سال 27 جولائی 2022 کو اسی موضوع پر آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی
جانے والی تازہ ترین ریسرچ میں بھی ویڈیو گیمز کے منفی اثرات کو کاؤنٹر کیا
گیا۔ تحقیق کے مطابق ویڈیو گیمز کھیلنے والوں پر ویڈیو گیمز کے کوئی اثرات
مرتب نہیں ہوتے۔ اس ریسرچ میں لوگوں میں موجود ویڈیو گیمز کے منفی اثرات سے
متعلق خوف کو ٹارگٹ کیا گیا۔
اس تحقیق کے لیے 7 مختلف اقسام کے گیمز کا انتخاب کیا گیا اور چالیس ہزار
گیمرز کی ایک بڑی تعداد کا انفرادی طور پر چھ ہفتوں تک مشاہدہ کیا گیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور ریسرچر اینڈی شبلسکی کے مطابق سب سے اہم
عنصر یہ ہے کہ آپ کیوں کھیل رہے ہیں؟ ان کے مطابق گیمنگ صرف اس پر منفی
اثرات مرتب کر سکتی ہے جو اس کو کسی مجبوری کے تحت کھیل رہا ہو، اس کے
علاوہ تمام یوزرز کے لیے گیمنگ میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ انہوں
نے ہدایت دی کہ یہ سمجھنے کے لئے کہ گیمرز کی زندگی میں گیمنگ کیا جگہ
رکھتی ہے، یہ ریسرچ پہلا قدم ہے۔ کسی فرد پر گیمنگ کے اثرات سمجھنے کے لیے
ریسرچ کی بہت ضرورت ہے۔
ویڈیو گیمز کے اثرات پر ماہرین کی جانب سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ
بچوں کی نفسیات، جسمانی صحت اور سماجی صلاحیتوں پر سمجھوتہ کرنا بہتر نہیں۔
البتہ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ویڈیو گیم کھیلنے کے اوقات
اور ان کے کھیلنے کے گھنٹے مقرر کریں۔ بچوں کے ساتھ والدین کی جانب سے ہونے
والی گفتگو انتہائی اہم ہے۔ والدین کو چاہیے کہ گیمز کے انتخاب پر نظر
رکھیں اور اس کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے مختلف انداز سے بچوں کی
رہنمائی کریں۔ کسی بھی چیز کی زیادتی اور منفی و مثبت پہلوؤں سے ان کو
روشناس کروائیں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سمجھ سکیں۔ والدین کو
چاہیے کہ بچوں کے فارغ اوقات کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کریں جو ان کی
جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے مفید ہوں۔ مختلف معیاری سرگرمیاں یا لرننگ
کورسز کی مصروفیت بچوں کو گیمنگ کا عادی ہونے سے روک سکتی ہے کیونکہ
ٹیکنالوجی سے بچوں کو مکمل طور پردور رکھنا اس مسئلے کا حل نہیں۔ |