مجاہدِ ملت مولانا ظہور احمد بگویؒ،حیات اور خدمات(1900ء۔1945ء)
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
مجاہدِ ملت مولانا ظہور احمد بگویؒ،حیات اور خدمات(1900ء۔1945ء) مرتب و مولف:۔صاحبزادہ انوار احمد بگوی
|
|
|
مولانا ظہور احمد بگویؒ،حیات اور خدمات |
|
مجاہدِ ملت مولانا ظہور احمد بگویؒ،حیات اور خدمات(1900ء۔1945ء) مرتب و مولف:۔صاحبزادہ انوار احمد بگوی دریائے جہلم کے کنارے واقع"بھیرہ"ضلع سرگودھا کا ایک تاریخی قصبہ ہے۔جس کا شمار پنجاب کے اُن علاقوں میں ہوتا ہے جو قدیم زمانے سے بر صغیر پر حملہ آوروں کی گزر گاہ اور قیام گاہ رہے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ326 ق م میں یونان کے ظالم فاتح سکندر اعظم کا اُس وقت کے حکمران راجہ پورو (یونانی تلفظ پورس)سے فیصلہ کن معرکہ اسی قصبے کے قرب و جوار میں ہوا تھا۔مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں بھیرہ کا تذکرہ "علم و فنون" کے مرکز کی حیثیت سے کیا ہے۔جب سلطان محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہونے کیلئے آیا تو اُس نے بھیرہ میں بھی قیام کیا۔مغلوں نے جب ہندوستان پر قسمت آزمائی شروع کی تو اُس کی گزرگاہ میں بھی بھیرہ ایک اہم قیام گاہ تھا۔1540ء میں ایک فوجی مہم کے دوران شیر شاہ سوری بھی کچھ عرصے کیلئے بھیرہ میں مقیم رہا۔اِس قیام کے دوران شیرشاہ سوری یا اُس کے کسی جانشین نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کی جو اپنی وسعت،خوب صورتی اور عمارتی شکوہ کے لحاظ سے مسلمانوں کی شان و شوکت کا شان دار مظہر تھی۔ جب مغلوں کے زوال کے بعد پنجاب پر سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو بادشاہی مسجد لاہور کی طرح یہ مسجد بھی سکھا شاہی سے محفوظ نہ رہ سکی اورسکھوں نے مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کا نظم و نسق حکومت برطانیہ نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو مقامی لوگوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کے نتیجے میں مقبوضہ مساجد کو واگزار کیا جانے لگا۔چنانچہ 1860 ءکے لگ بھگ بھیرہ کی اِس تاریخی مسجد کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔ جس کا سہر ا اُس دور کے ممتاز اورجید عالم دین علامہ احمد الدین بگوی کے سر جاتا ہے۔انہوں نے یہ کارنامہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیرمسلمانوں کی مدد سے سر انجام دیا۔خیال رہے کہ علامہ احمد الدین بگوی وہی عالم دین ہیں جوبادشاہی مسجد لاہور کی واگزاری کے بعد اُس کے پہلے ا مام و خطیب مقرر ہوئے۔ خاندان بگویہ برصغیر ( متحدہ ہندوستان ) میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے خطے کے مسلمانوں کی علمی، روحانی، سیاسی اور تہذیبی سطح پر کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔بھیرہ سے تعلق رکھنے والا خاندان بگویہ کا شمار اُن قدیم علمی گھرانوں میں ہوتا ہے،جن کی خدمات کا سلسلہ ساڑھے تین صدیوں پر محیط ہے۔اِن میں حضرت مولانا قاضی احمد الدین بگوی،جنھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کی درس گاہ سے استفادہ کیا اورشاہ اسحاق دہلوی سے سند حدیث حاصل کی،مولانا افتخار احمد بگوی،علامہ برکات احمد بگوی اور مولانا ابرار احمد بگوی جیسے نامور لوگ شامل ہیں۔اِس خاندان کے علماءوفضلاءکئی سوسالوں سے دین ومذہب اور علم وادب کی خدمت کررہے ہیں۔مولانا ظہور احمد بگوی کا تعلق بھی اسی خانوادے سے ہے۔ مولانا ظہور احمد بگویؒ کی پیدائش1900ء بمطابق 1318ھ بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ والد محترم مولانا عبدالعزیز بگویؒ استاذالکل مولانا غلام محی الدینؒ کے بیٹے اور مولانا احمد الدین بگویؒ کے بھتیجے تھے جو اُس زمانے میں بادشاہی مسجد لاہور کے مہتمم اور خطیب تھے ۔آپ کی تعلیم کا آغاز بھیرہ میں ہوا ،ابھی کم سن ہی تھے کہ والد محترم کا1908ء میں انتقال کر گئے۔آپ کی تربیت برادر محترم مولانا محمد ذاکر بگوی اور مولانا محمد یحییٰ بگوی نے کی۔ مولانا ظہور احمد بگوی نے ابتدائی دینی اور درسی کتب اپنے برادر مکرم مولانا محمد ذاکر بگوی سے پڑھیں جو پیر سیال حضرت محمد الدین سیالوی ؒ کے خلیفہ تھے۔نہم تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ میں حاصل کی لیکن برادر مولانا محمد یحییٰ بگوی کے ٹرانسفر کی وجہ سے آپ سرگودھا منتقل ہوگئے اور یہیں سے آپ نے 1919ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوگئے ۔ اسی دوران 8/نومبر 1920ء کو کلکتہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ نے مجلس خلافت میں کام کرنا شروع کردیا۔اور ترک موالات کی حمایت میں زعماء کے فتوؤں اور فیصلوں کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔بھیرہ میں آپ معتمد مجلس خلافت مقرر ہوئے ۔اورحکیم عبدالمجید سیفی کے ہمراہ ضلع سرگودھا میں تحریک خلافت کو منظم کیا ۔اُس دورمیں بیرسٹر محمد عالم سیکرٹری خلافت کمیٹی سرگودھا تھے۔حضرت پیر ضیاء الدین سیالوی ؒ کی سرپرستی میں آپ ضلعی مجلس خلافت سرگودھا کے ناظم مقرر ہوئے اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔آپ نے نومبر 1920ءکو بھیرہ سے"ضیائے حقیقت" کا اجراء کیا ۔ تحریکی سرگرمیوں کی پاداش میں مولانا ظہور احمد بگویؒ کو انگریز حکومت نے 15/مارچ1922کو سرگودھا شہر سے گرفتار کیا اور جہلم اور راولپنڈی کی جیلوں میں ڈیڑھ سال قید رکھا۔ 1923ءمیں رہائی ملی۔جس کے بعدآپ نے ضلع بھر کے قصبات اور گاؤں کا دورہ کیااور مجلس خلافت کی شاخیں قائم کیں۔اُنہوں نے 107/شہروں اور دیہاتوں کے دورے کیے اور وہاں مبلغین اور معتمدین خلافت بھیجے۔مجلس خلافت میں آپ کی سرگرمیاں سات سالوں پر محیط ہیں۔ مولانا ظہور احمد بگویؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو مجلس خلافت مرکزیہ ہند کی مجلس عاملہ کا رکن مقرر کیا گیا۔آپ 25/مئی 1924کو مجلس خلافت دہلی کے اجلاس میں بھی شامل ہوئے اور پھر لاہور اور امرتسر کے اجلاسوں میں آپ نے شرکت کی۔یہاں آپ کی ملاقات سید عطاء اﷲشاہ بخاریؒ سے ہوئی اوروہ رشتہ قائم ہوا جو ہنوز دونوں خاندانوں میں جاری ہے۔اپنی سیاسی سرگرمیوں بِناء پرمولانا ظہور احمد بگوی انگریز کے باغی اور حکومت کے معتوب بھی قرار پائے ۔ 1927ء میں مولانا ظہور احمد بگوی مولانا ضیاء الدین ثالث سیالوی کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند کا تین روزہ دورہ کیا جہاں کی مسند شیخ الحدیث پر مولانا انور شاہ کشمیری فائز تھے۔شاہ صاحب نے پیر سال کی آمد پر دارالعلوم میں چھٹی کی اور دیوبند میں حضرت ثالث سیالوی ؒ کا شاہانہ استقبال کرتے ہوئے جلسہ منعقد کیا جس میں میرٹھ سے لیکر سہارنپور تک کے لوگ شریک ہوئے ۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے خود سپاسنامہ پیش کیا۔حضرت سیالوی کی طرف سے جوابی تقریر مولانا بگوی ؒ نے کی اور انہوں نے پیر سیال کی طرف سے وہ جملے کہے جس سے مسلمانوں میں اخوت، اتحاد اور یگانگت کا رشتہ مزید پختہ ہوا ۔ 1927کے بعد مولانا ظہور احمد بگوی مستقل طور پر بھیرہ میں مقیم ہوگئے اور اپنے آباء کے اس مرکز کی نشاط ثانیہ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔آپ بے سروسامانی کے عالم میں مذاہب باطلہ کی یلغار روکنے کے لیے 5/نومبر 1929کو ’’کل ہند مجلس مرکزیہ حزب الانصار‘‘قائم کی اور اس کے امیر قرار پائے۔اور اس مجلس کے تحت جامع مسجد بھیرہ میں تین روزہ جلسوں کی بنیاد ڈالی۔ جس میں ہندوستان کے تمام مکتبہ فکر اور دیگر علمی حلقوں کے علماء کو وعظ کے لیے مدعو کیا جاتا اورحزب الانصار کے سالانہ جلسوں میں پیر جماعت علی شاہ علی پوری ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا فیض الحسن آلو مہاروی،مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری،پیران سیال ثانی و ثالث، مولانا لال حسین اختر،سید نذیر الحق میرٹھی،مولانا عبدالشکور لکھنوی جیسے لوگ آتے رہے ۔ مولانا ظہور احمد بگوی نےفرقہ باطلہ مرزائی کے گڑھ بھیرہ میں اس فرقہ کے سدباب کے لیے بھی بہت اہم کام کیا۔حکیم نورالدین کے شہر میں آپ نے اس کی ذریت کا ناطقہ بند کر رکھا۔مناظرہ ہو یا مجادلہ غرض ہر راستہ اختیار کیا۔ بھیرہ کے سالانہ جلسوں میں مجلس احرار اسلام کے زعماء کو مدعو کیا اور اس فرقہ باطلہ سے مناظرہ بھی کیا۔آپ تحریک مداح صحابہ لکھنو ء کے سلسلے میں مولانا عبد الشکور لکھنوی کے فرزند مولانا عبدالسلام لکھنوی کے ہمراہ گرفتار بھی ہوئے۔ مولانا ظہور احمد بگوی کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے۔تحریکی ذہن کے ساتھ ساتھ آپ تصنیف و تالیف کا ہنر بھی جانتے تھے۔ـ"برق آسمانی بر خرمن قادیانی"،"صور اسرافیل"،"تازیانہ نقشبندیہ"،"تذکرہ مشائخ بگویہ"،"اسلامی جہاد"،"خاکساری مذہب"،"ہدایات القرآن" آپ کی معروف تصانیف ہیں۔1925ءمیں آپ نے رسالہ"شمس الاسلام"سرگودھا سے جاری کیا جو آج بھی جاری ہے۔ 25/مارچ1945کو آپ نے دوران سفر سرگودھا کے قریب جان،جان آفرین کے سپرد کردی ۔نماز جنازہ صاحبزادہ غلام فخرالدین سیالوی نے پڑھائی۔اورخانقاہ بگویہ میں آپ کے آباء کے پہلو میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات پر نظریہ پاکستان ورکر ٹرسٹ نے مولانا ظہور احمد بگوی کو گولڈ میڈل سے نوازا۔یہ اعزاز خاندان بگویہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے وصول کیا ۔ محترم ڈاکٹرانوار احمد بگوی صاحب اسی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں۔پنجاب کے مردم خیزقصبے بھیرہ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے اپنے تعلیمی مدارج اعلیٰ نمبروں سے طے کیے۔کنگ ایڈوڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔بعد ازاں پنجاب کے محکمہ صحت سے منسلک ہوگئے۔دوران ملازمت اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور بہترین کارکردگی پر وزیر اعلیٰ پنجاب سے طلائی تمغے اور سند سے نوازے گئے۔دفتر میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کی جدوجہد پر بابائے اردو ڈاکٹر سید عبداللہ سے نشان سپاس حاصل کیا۔اپنی خاندانی روایات کے مطابق ڈاکٹر انوار احمد بگوی کو بچپن ہی سے علم وادب سے دلچسپی رہی۔آپ دوران تعلیم کنگ ایڈوڈ میڈیکل کالج کے سالنامے"کیمکول "کے مدیر بھی رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔جس میں" خمینی وفردوسی کی سرزمین"،"تقریرات مسلم"،"بھیرہ تاریخ و تمدن اوردی ہسٹری آف سرگودھا"،"انڈکس ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ"،"مخطوطات بگویہ کتب خانہ بھیرہ" وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب اسلام،سیاست،عمرانیات، طب،تنقید اور سیروسیاحت جیسے موضوعات پربھی متعددمقالات بھی لکھ چکے ہیں۔لیکن آپ کا سب سے بڑا اور بلند پایہ کارنامہ خاندان بگویہ کے علماو مشائخ کے علمی،ملی اور سماجی خدمات کے تذکرے پرمبنی ساڑھے تین سو سالہ تاریخ"تذکار بگویہ"کی پانچ ضخیم جلدوں کی تدوین ہے۔جس کے مطالعے سے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے،جیسےوہ اِن ادوار میں اکابرعلما ءکی جدوجہد کے مختلف مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ "مجاہد ملت مولانا ظہور احمد بگوی ،حیات اور خدمات"جو مولانا ظہور احمد بگوی کی ذات پر مضامین اور تاثرات کا انتخاب ہے ،ڈاکٹر انوار احمد بگوی کی نئی تالیف ہے۔343/صفحات کو محیط یہ کتاب"تحریک پاکستان گولڈ میڈل"،"ہدیہ تبریک و تحسین"،"شخصیت اور تعارف"،"تبلیغ وتردید اور تعلق"،"خصوصی پیغامات" کے ساتھ 33/صفحات کے انگریزی حصہ پر مشتمل ہے۔کتاب کی ابتداء میں"شروعات "کے عنوان سے کلر صفحات کی شمولیت اِس کے حسن اورخوبصورتی میں اور بھی اضافہ کرتا ہے ۔ منزل اُنہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ،کی مصداق ڈاکٹر انوار احمد بگوی بھی ارباب اختیار و اقتدار کے عدم توجہی کے شاقی ہیں ۔آپ لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں"مولانا ظہور احمد بگوی کی شاندار خدمات ریکارڈ پر موجود تھیں مگر نہ سرکاری محکموں نے کبھی ان باتوں پر غور کیا اور نہ ملک کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے کبھی ان شہ سواروں کو یاد کیا،جن کی محنتوں اور قربانیوں کے صدقے میں وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے رہے۔" اپنی تالیف کو تحریک پاکستان کے ایک گم شدہ باب کی بازیافت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ"مولانا ظہور احمد بگوی 1940ء کی قرار داد لاہور کے وقت اپنا ذہن بناچکے تھے ۔وہ عملاً 1941ء یا 1942ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں ذہنی اور عملی طور پر شامل ہوچکے تھے۔جب پنجاب مسلم اسٹودینس فیڈریشن کے طلباء وفود کی شکل میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں تحریک پاکستان کا پیغام پھیلانے نکلے تو ضلع سرگودھا میں ان کو طبقہ علما ء ومشائخ میں صرف مولانا ظہور احمد بگوی ہی مل سکے۔جنہوں نے نوجوان طلبہ کے ساتھ مل کر ضلع کے اہم مقامات اور دیہات میں اور سرگودھا شہر میں عوامی جلسوں سے خطاب کیا اور رائے عامہ کو پاکستان کی حمایت پر ہموار کیا۔" ڈاکٹر صاحب کے بقول مولانا ظہور احمد بگوی"ایسے آزاد وطن کے خواہاں تھے جہاں قرآن وسنت کی عملداری ہو،جہاں خلفائے راشدین کی اتباع میں آزمودہ نظام مملکت رائج کیا جائے ۔ایسا پاکستان جو آج بھی کروڑوں دلوں کی آواز اور جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔کل ہند مجلس مرکزیہ حزب الانصار بھیرہ کے پلیٹ فارم سے یہ مطالبے گویا مذہبی اور روحانی حلقوں کی جانب سے پہلی موثر اور بڑی واضح صدا تھے۔جس کی انتہا اب قیام پاکستان تھا۔لیکن یہ ملک اور قوم کی بدقسمتی ہے کہ وہ لوگ جو 1857ء سے سفید سامراج کے غلام بنے ،وہی چہرے 1947ء میں اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں براجمان تھے۔آج بھی پنجاب،سندھ،بلوچستان اور خیبر پختوانخواہ اور دیگر صوبوں میں اکثر انہی خاندانوں کے چشم و چراغ پاکستان کی ہر قابل ذکر سیاسی پارٹی اور اقتدار کا حصہ ہیں۔وہی لوگ باریاں لیتے اور بار بار اس قوم کو لوٹتے ہیں۔۔۔ان موقع پرستوں کو نظریہ پاکستان سے کیا سروکار؟اس لیے اُس سحر کا ابھی انتظار ہے!" کتاب میں شامل مضامین نگاروں مولانا عبدالرؤف ملک،لیاقت بلوچ،ڈاکٹر فرید پراچہ، حافظ محمد ادریس،پروفیسر ہارون الرشید تبسم،حکیم آفتاب احمد قریشی،مولانا بہاء الحق،علامہ محمد عالم آسی،محمد نذیر عرشی،ڈاکٹر اقبال سرور،پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال، محمد منشا قاضی ،مولانا محمد ذاکر جامعہ محمدی شریف وغیرہ نےمولانا ظہور احمد بگوی صاحب کی شخصیت اورحیات و خدمات کی مختلف جہتوں پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب نے اپنے خاندان کے بزرگوں، اپنے جد امجد کی تاریخی خدمات کو بڑے احسن انداز اور سلیقہ مندی کے ساتھ منضبط کر کے ملک کے اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ عام آدمی تک پہنچانے کا خوش گوار فریضہ انجام دیاہے۔گوبظاہریہ علمی کارنامہ اپنے ذوق و شوق،اپنے بزرگوں کے کارناموں کو تاریخ کے اَوراق میں منضبط کرنے کے خیال سے انجام دیا گیا ہے، لیکن درحقیقت اس کا اصل مقصداپنی فراموش کردہ تاریخ کےگم شدہ مگر حقیقی قیمتی اثاثے کواپنی آیندہ نسلوں تک منتقل کرنا بھی ہے۔ "مجاہد ملت ،مولانا ظہور احمد بگوی،حیات اور خدمات میں شامل تحاریر محض افراد کی تحریریں ہی نہیں ہیں بلکہ مولانا ظہور احمد بگوی سے وابستہ زمانے اور اُس عہد کے سیاسی، مذہبی، سیاسی اور سماجی احوال اور تاریخ کی عکاس بھی ہیں۔تاریخ و سیاسیات کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب گرانقدر اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جناب ڈاکٹر انوار احمد بگوی بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک عظیم اور وقیع کام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اوراُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تگ ودو میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔ہم ڈاکٹر صاحب کے لیے خیروعافیت اور مزیدترقی و کامیابیوں کے لیے دعا گو اور اِس گرانقدر علمی تحفہ کی عنایت پر شکر گزار ہیں۔ جزاک اللہ خیرا فی الدارین محمداحمد ترازی مورخہ 10 ستمبر 2022ء کراچی
|