پرل کانٹینینٹل میں حجاب کانفرنس اور سیلاب زدگان کے لئے فنڈ ریزنگ۔

آؤ سوچیں ذرا
کچھ تدبر کریں
ہے بجا کہ حجاب اک تحریک ہے
حیا اور ایماں کی تفسیر ہے
روح کی تسکین،جسموں کی چادر ہے یہ
بے حجابی کے طوفاں میں بہتر ہے یہ !
عالمی یومِ حجاب جو ہر سال 4 ستمبر کو منایا جاتا ہے ،احیاۓ تہذیب اسلامی کا بڑا ذریعہ ہے،حجاب محض لباس نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ اخلاق ہے،حیا کا مظہر ہے ،حیا اور حجاب پر مسلم معاشرے کی تہذیب و تمدن اور ادارہء خاندان کے استحکام کا دارومدار ہے۔ لاہور کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں حجاب کانفرنس بعنوان " نوجوان اور ہمارے سماجی رویئے" کا انعقاد حلقہ خواتین ،جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے کیا گیا ،ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اس کی روح_رواں اور چیف آرگنائزر تھیں۔مبرہ حمید نے تلاوت کلام پاک سے آغاز کیا، اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قدسیہ بتول نے پیش کی۔افتتاحی کلمات میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے مہمانانِ گرامی اور شرکاء محفل کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نائن الیون کے بعد ، جب دنیا کا تعصب مسلمانوں کے خلاف بڑھتا چلا گیا ،کبھی حجابی خواتین کو پارلیمنٹ سے نکالا گیا ،کبھی مروہ شیر بینی کی طرح بھری عدالتوں میں شہید کردیا گیا،اس وقت مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم نے ہر سال چار ستمبر کو عالمی یومِ حجاب منانے کا فیصلہ کیا- حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان نے اپنے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی سربراہی میں 2004ء میں اس حجاب تحریک کی سرپرستی کی ۔ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ اس بار ہم عشرہء حجاب کے ساتھ عشرہء رجوع الی اللہ بھی منارہے ہیں اور ہم نے اسے فلڈ ریلیف ڈرائیو میں تبدیل کردیا ہے۔ صدر ویمن اینڈ فیملی کمیشن ڈاکٹر رخسانہ جبین نے " نوجوان اور ہمارے سماجی رویئے" کے موضوع پر مدلل لیکچر دیا ،ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کے ساتھ انھوں نے شرکاء کانفرنس کو آگاہ کیا کہ خاندان آسمانی ادارہ ہے ،انسان نے نہیں بنایا،اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا اور پھر ان سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ایک عورت اور ایک مرد کا جوڑا مل کے خاندان بنا۔خاندان کی بنیاد "نکاح" پر ہے۔نکاح کے بغیر ہر تعلق حرام ہے۔ پاکستان کے قانون میں زنا کی تعریف بدل دی گئ ہے،اب زنا صرف وہ تصور ہوگا جہاں زبردستی ہوئی ،بصورت دیگر نہیں۔یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ تمہاری ساخت میں ردو بدل کردوں گا تو اب ردو بدل کی عملی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اٹھ کے کہہ دے کہ میں مرد ہوں تو اسے مان لیا جائے ۔2018ء میں یہ قانون پاکستان میں پاس ہوچکا ہے اور نادرا پابند ہے کہ کوئ مرد کہہ دے کہ وہ عورت ہے تو نادرا اسے عورت ڈکلئیر کردے۔عصر_حاضر کے فتنوں میں " مادیت پرستی کا فتنہ " اس قدر بڑا ہے کہ بس پیسہ مل جائے چاہے کسی طریقے سے ہو ،اسی وجہ سے مسلمان گھرانوں میں ملحد پیدا ہورہے ہیں۔ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو غلط استعمال کیا جارہا ہے،اب اس سے مراد ایسا شخص ہے جو عورت سے مرد یا مرد سے عورت میں تبدیل ہوتا ہے ،اس کا تعلق ان سے نہیں جو پیدائشی خواجہ سرا ہوتے ہیں،ہم پیدائشی خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں لیکن ہم ٹرانس جینڈرز کے نام پر بنائے گئے اس قانون کے مخالف ہیں کیوں کہ اس کے ذریعہ سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ،اس کی زد اسلام کے قانونِ وراثت اور خاندان کے ادارے پر پڑ رہی ہے۔عالمی ایجنڈے کے اشاروں پہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹس کے ذریعے الحاد،بے دینی اور ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہی ہیں۔میڈیا اور قوم ان چیلنجز کو سمجھے اور ہمارا ساتھ دے۔
کانفرنس کی اناؤنسمنٹ زرافشاں فرحین اور شاذیہ عبدالقادر نے مکالمے کے انداز میں کی جس سے حاضرینِ محفل کی توجہ بھی سٹیج کی طرف مرکوز رہی۔ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان ،ثمینہ سعید نے بہت دلسوزی سے اہل_ پاکستان کو مخاطب کیا ،آپ نے کہا کہ پاکستان ہماری امنگوں اور خوابوں کی سر زمین ہے،اس میں بسنے والے بہت بڑی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔پانی کی بے رحم موجیں بال بچے ،مویشی ،جمع پونجی سب کچھ بہا کے لے گئیں ۔ہم نے جو آہ و بکا،چیخوں کی آوازیں سنیں ،قیامت_ صغریٰ کے مناظر دیکھے ،انھیں بیان کرنا اور لکھنا بہت مشکل ہے لیکن دوسری طرف دریاؤں اور پہاڑوں کی سرزمین پاکستان پر اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی رحمت، جماعتِ اسلامی کی صورت میں کی ہے،یہ وہ جماعت ہے جس کے کارکن ،ہر مشکل گھڑی میں الخدمت کی جیکٹ پہن کر،قوم کی خدمت کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔قیام_ پاکستان کے وقت مولانا مودودی نے اپنے کارکنان کو مہاجرین کی خدمت کی ہدایت کی تھی،آج بھی ویسا ہی وقت ہے،پورے پورے دیہات صفحہء ہستی سے مٹ چکے ہیں اور لاکھوں افراد،کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ اس پہ ظلم کرتا ہے ،نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے۔جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا،اللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دور کرے گا،جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا ،اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا ۔آپ نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے اب تک 8 ارب کے قریب ریلیف کا کام ہوچکا ہے، الخدمت کے رضاکار میدان عمل میں ہیں ۔ہمیں حکومت پاکستان اور چاروں صوبوں کی حکومتوں سے کہنا ہے کہ راستوں کو بحال کریں ، پلوں کی تعمیر کریں، مخلوقِ خدا کا خیال کریں ،ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔

سالار_قافلہ ،سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان، دردانہ صدیقی صاحبہ نے اپنے کلیدی خطاب میں،اللہ کی طرف پلٹنے اور توبتہ النصوح کی تاکید کی ۔آپ نے کہا کہ نصف سے زائد پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے ،4 کروڑ سے زائد لوگ متاثرین_سیلاب میں شامل ہیں ۔زمینی اور آسمانی آفات نے وطن_ عزیز کو گھیرا ہوا ہے ۔ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا یہ حالات اتفاقیہ ہیں؟کہیں ہم سے کچھ غلط تو نہیں ہوگیا؟-فساد فی الارض کسی شکل میں ہو ،عذاب_الہی کو دعوت دیتا ہے۔اخلاقی بحران ،سودی معیشت،ہم جنس پرستی ،ناپ تول میں کمی،ان گناہوں کے سبب سابقہ اقوام ،اللہ کے غضب کا شکار ہوگئیں،اب یہی برائیاں ہمیں اپنے معاشرے میں نظر آتی ہیں۔خالص توبہ کرو ،بعید نہیں کہ اللہ تم پر رحم فرمادے۔جماعت اسلامی عشرہء رجوع الی اللہ منارہی ہے۔توبہ کا طریقہ ،اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی ہے۔جب ہم سیلاب میں ڈوبتا بلوچستان ،کے پی میں گرتے ہوٹیل ،جنوبی پنجاب کی صفحہء ہستی سے مٹتی آبادیاں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں اور عافیتوں کا صدقہ نکالنا چاہئیے۔شکر گذاری کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں۔توبہ کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کی سمت بھی درست کریں۔پاکستان کو اسلامی ریاست بنائیں۔اللہ کا فرمان ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ہمیں جب بھی اقتدار ملا ہم نے قانون سازی میں حصہ لیا۔جہیز پر پابندی کا بل ، سماجی رویوں کا بل، سینیٹر مشتاق احمد نے ہر خلاف_اسلام بل پر آواز اٹھائی ہے ۔جب ویمن ایمپاورمنٹ کے نعرے معرضِ وجود میں نہیں آۓ تھے،جماعت_اسلامی اس وقت بھی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی تھی۔فلاح_خاندان کا ادارہ اور ملازمت شدہ خواتین کا شعبہ بھی کام کر رہا ہے۔مواخات کے تحت بلاسود قرضے،کاونسلنگ سینٹرز،قرآن انسٹی ٹیوٹ ،جامعات کی صورت میں ہم خواتین کے معاشی اور معاشرتی حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔اگر ہم پر قوم نے اعتماد کیا اور ہمیں حکومت میں آنے کا موقع ملا توہم وطن عزیز کی خوش حالی اور ترقی کا مکمل منشور رکھتے ہیں۔ایسی ریاست جو ہم سب کا خواب ہے ،قرآن سے تعلق ،رزق حلال،توبۃ النصوح،خواتین کو اصل کردار پہ لانا اوراحیاۓ تہذیب اسلامی درکار ہے۔
اس موقع پر ربیعہ طارق ناظمہ صوبہ وسطی پنجاب کی جانب سے 50 لاکھ کا چیک محترمہ دردانہ صدیقی کو پیش کیا گیا۔ ناظمہ ضلع لاہور ڈاکٹر زبیدہ جبین کی طرف سے 45 لاکھ کا چیک محترمہ دردانہ صدیقی کو پیش کیا گیا، سلمی 'وقاص کی طرف سے دس لاکھ جمع کروائے گئے ۔تعلقات عامہ وسطی پنجاب کی طرف سے 7 لاکھ 38 ہزار فنڈ دیا گیا، برطانیہ میں مقیم ایک بہن کی جانب سے ایک کروڑ روپے سیلاب فنڈ میں عطیہ کئے گئے۔ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بتایا کہ کانفرنس ہال میں سوا دو کروڑ فنڈ بھی جمع کیا گیا ہے۔زرافشاں فرحین نے حاضرینِ محفل کو ایک نازک مسئلہ کی طرف توجہ دلائی کہ سیلاب متاثرین میں ہزاروں خواتین کو ڈلیوری کے مرحلے سے گزرنا ہے۔الخدمت ،پیما اور جماعت اسلامی مل کر ان کے لئے انتظام کریں گے۔

کانفرنس کے اختتام پر ڈائریکٹر ادارہ فلاح خاندان محترمہ عافیہ سرور نے انتہائ دلگداز دعا کروائی تو شرکاء کے لئے جذبات قابو میں رکھنے مشکل ہوگئے۔ جب آپ نے کہا یا اللہ میری قوم کو بھکاری نہ بنانا تو ہم اپنے آنسوؤں کو بہہ نکلنے سے روک نہ پائے۔