گجرات کے صوبائی الیکشن کا پہلا میچ دہلی میں کھیلا گیا
اور اس میں تیستا سیتلواد نے نریندر مودی کو کلین بولڈ کردیا۔ تیستا
سیتلواد کی عبوری ضمانت نے بھاجپ مکت گجرات کا راستہ صاف کردیا ۔ مودی جی
کو گجرات سے دہلی میں منتقل ہونے کے بعد آٹھ سال ہوچکےہیں لیکن تیستا
سیتلواد کی ضمانت نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی من مانی اب بھی احمد آباد تک
محدود ہے ۔ وہ دہلی میں بیٹھ کر ہندوستانی عوام کا دل نہیں جیت سکے اور سپر
یم کورٹ نے پھر ایک بارانہیں احساس دلا دیا کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ والا
جدید محاورہ درست نہیں ہے۔ یہ بات اگر صحیح ہوتی تو تیستا سیتلواد کو ضمانت
نہیں مل پاتی ۔ تیستا سیتلواد نے بیس سال قبل وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو
آئینہ دکھانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تھا اور آج پھر انہوں وزیر اعظم
نریندر مودی کو محسوس کرا دیا کہ داداگیری کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کے
آگے وہ نہیں چل پاتی ۔ اس عبوری ضمانت نے ساحر لدھیانوی کی طویل نظم’ خون
پھر خون ہے‘ کو پھر سے زندہ کردیا ہے ؎(چند مصرع پیش ہیں )
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
تیستا سیتلواد کی ضمانت اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی سرکار کاجبر اپنی انتہا
کو پہنچ چکا ہے اور اب اس کے خاتمہ کی ابتداء ہوچکی ہے ۔ عزم و حوصلے کے ان
شعلوں کو کو ئی بجھا نہیں سکتا اور عدل و انصاف کے ان نعروں کو نہ کوئی دبا
سکتا ہے۔ اس ضمانت کا راستہ یکم ستمبر کو ہی صاف ہوگیا تھا جب عدالت عظمیٰ
میں چیف جسٹس نے گجرات فسادات سے متعلق سازش معاملے میں سماجی کارکن تیستا
سیتلواد کی عبوری راحت والی عرضی پر سماعت کے وقت گجرات حکومت سے تلخ
سوالات کرنے شروع کردئیے ۔ عدالت عظمیٰ نے پوچھا تھا کہ ’’تیستا کے خلاف نہ
تو یو اے پی اے لگا ہے، اور نہ ہی پوٹا کا کیس درج ہے، پھر بھی 2 ماہ سے
انھیں حراست میں کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ
تیستا پر معمولی سی آر پی سی اور آئی پی سی کی دفعات ہیں۔ اس لیے وہ
مناسب فیصلے، یعنی راحت کی حقدار ہے۔
تیستا سیتلواد کی ضمانت کی عرضی پر چیف جسٹس یویو للت کی بنچ نے گجرات
حکومت کے ساتھ گجرات ہائی کورٹ اور گجرات پولیس کو بھی ڈانٹ لگائی۔ چیف
جسٹس کے علاوہ جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس سدھانشو دھولیا پر مشتمل خصوصی بنچ
نے ضمانت کی عرضی پر سماعت کے دوران پھٹکارلگاتے ہوئے کہا کہ پہلی نظر میں
ہی ایسا لگ رہا ہے کہ ہم تیستا سیتلواد کو ابھی او ر اسی وقت ضمانت دینا
چاہیے اور ہم ایسا ہی کریں گے۔ بنچ کے اس سخت موقف کی وجہ یہ تھی کہ پولیس
کی ایف آئی آر صرف سپریم کورٹ کے حکم کا چربہ تھی اس میں کوئی نئی تفتیش
نہیں پیش کی گئی تھی ۔ ذکیہ جعفری سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے اگلے ہی
دن یہ معاملہ درج کرلیا گیا۔ احمد آباد پولیس نے گرفتاری میں بھی کمال
پھرتی کا مظاہرہ کیا مگر اس کے بعد کمبھ کرن کی نیند میں سو گئی۔ ایف آئی
آر میں صرف سپریم کورٹ کے حکم پر اکتفاء کیا گیا ، کوئی ثبوت یا دستاویز
لگانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ اس لیے گجرات کی نااہل پولیس سپریم کورٹ کے
سامنے تیستا سیتلواد کو اتنے دنوں تک جیل میں بند رکھنے کا جواز پیش کرنے
میں ناکام ہوگئی۔
عدالت عظمیٰ نے سوال کیا کہ ملزمہ کو ۲؍ ماہ سے حراست میں رکھنے کے باوجود
ان کے خلاف اب تک چارج شیٹ کیوں داخل نہیں کی گئی؟ ایسے میں انہیں ضمانت
کیوں نہ دی جائے؟ گجرات حکومت کی پیروی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا
کے پاس ان ٹھوس اعتراضات کا کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ
تیستا کے ساتھ عام ملزمین جیسا سلوک ہونا چاہئے ۔ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے
لئے کیوں نہیں رُکیں؟ انہوں نے سیدھا سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا ؟ تشار
مہتا کا کہنا تھاکہ اس ملک میں ہزاروں لوگ اپنی پٹیشن پر فیصلے کا انتظار
کررہے ہیں جبکہ تیستا کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہا ہے۔ اس لیے گویا دوسروں
کی مانند تیستا کے ساتھ بھی ناانصافی کی جائے۔ تشار نےیہ اعتراض اس وقت
نہیں کیا جب ارنب گوسوامی کے لیے رات آٹھ بجے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھولا
گیا تھا۔ کیا وہ سرکار کا داماد لگتا ہے؟ تشار مہتا کے اوٹ پٹانگ دلائل سے
ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مودی منظور نظر کیوں ہیں؟
سالیسٹر جنرل کی اس کٹ حجتی پر چیف جسٹس نے برہمی جتاتے ہوئے کہا کہ آپ
کوئی ایسی دلیل دیں جو قابل قبول ہو ۔ عدالت کا وقت برباد کرنے یا
اسےبھٹکانے کی کوشش نہ کریں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی پوچھا کہ تیستا کو ۲؍ ماہ
جیل میں رکھ کر ان کے خلاف آپ کے پاس کیا ثبوت جمع ہوئے ہیں، ہمیں تو ثبوت
کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آرہا ۔ انہوں نے تشا ر مہتا سے سوال کیا کہ اس
معاملے میں تفتیش کا رخ کس جانب ہے اس بارے میں بھی اب تک وضاحت نہیں ہوئی
ہے۔ کپل سبل کے یہ کہنے پر کہ ان کی موکل پر صرف دستاویزات کی خرد برد کا
جو کیس درج کیا گیا ہے اس میں پولیس حراست کے فوراً بعد ضمانت مل جانی
چاہئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عبوری راحت دینے کو تیار ہیں ۔ تشار مہتا نے
اس کی مخالفت میں کہا کہ کم از کم معاملے کو ایک دن کیلئے ملتوی کردیا جائے
۔سالیسٹر جنرل کی یہ دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کے کئی پرانے فیصلوں کےپیش نظر
عدالت کو ضمانت پر فیصلہ کرنے سےقبل ہائی کورٹ کا فیصلہ دیکھنا چاہیے۔
اس منطق کے جواب میں چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے بیزاری کے ساتھ یہ
کہہ کرکے اسپیشل بنچ میں ہم روزانہ اسے نہیں سن سکتےایک دن کے لیے سماعت
ملتوی کردی۔ویسے اگر تشار مہتا کا اصرار نہیں ہوتا تو یہ کام اسی دن ہوگیا
ہوتا ۔ وہ شاید ایک دن کی مہلت لے کر کوئی دباو بنانا چاہتے تھے مگر اس میں
انہیں کامیابی نہیں ہوئی ۔ ۲؍ ستمبر کو سپریم کورٹ نے حسبِ توقع تیستا
سیتلواڈ کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان
کی مستقل ضمانت کا فیصلہ ہائی کورٹ کرے گا۔ سپریم کورٹ نے ضمانت دیتے وقت
چند شرائط لگائی ہیں مثلاً تیستا کو اپنا پاسپور عدالت میں جمع کرانا ہوگا
نیز جب تک ہائی کورٹ سے مستقل ضمانت نہیں مل جاتی، وہ ملک سے باہر نہیں جا
سکیں گی ۔ عدالتِ عظمیٰ نے تیستا کو تحقیقاتی ایجنسیوں کو مسلسل تعاون کرنے
کی تلقین کی ہےحالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ تیستا ایک سماجی کارکن ہیں
اور انہوں نے ہمیشہ ہی تعاون کیا ہے۔
ضمانت سے قبل دونوں فریق کے وکیل کپل سبل اور ایس جی تشار مہتا کے درمیان
گرما گرم بحث بھی ہوگئی۔ کپل سبل نے تشار مہتا کی دلیل کہ گجرات میں کچھ
خاص نہیں ہوا کو غلط ثابت کرنے کے لیے کہا کہ 124 لوگوں کو عمر قید کی سزا
دی گئی ہے ایسے میں یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے ۔ سبل کے مطابق تیستا کو
پھنسانے کامقصد انہیں تاحیات جیل میں رکھنا ہے۔ اس کے جواب میں تشار مہتا
بولے یہ سب 2002 سے کر رہے ہیں۔ اداروں پر انگلیاں اٹھانے کی اجازت نہیں
ہونی چاہیے۔تشار مہتا کی یہ بات درست ہے مگر سرکار جب اداروں کا غلط
استعمال کرنے لگے اور وہ اس کی تائید کریں تو لازم ہے کہ حکومت کے ساتھ
ساتھ اداروں پر بھی انگلی اٹھےگی۔ سپریم کورٹ کی اس واضح ہدایت کے بعد
احمدآباد ہائی کورٹ کے لیے مستقل ضمانت سے انکار کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے
اور اگر وہ پھر سے کوئی حماقت کرتی ہے تو عدالت عظمیٰ اس کو الٹ دے گی۔
تیستا سیتلواد کو عبوری ضمانت دے کر عدالت عظمیٰ نے اپنا وقار بحال کرنے کی
ایک کوشش کی ہے جو ذکیہ جعفری معاملے میں پوری طرح پامال ہوگیا تھا۔ اس
متنازع فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے معروف وکیل کارونا نندی نے
لکھا تھا کہ:’سپریم کورٹ کا حقوق کے طلب گار فرد کو نشانہ بنانا آئین کے
برعکس ہے۔ یہ ان تمام اقدامات کے خلاف ہے جس کی وجہ سے گذشتہ پانچ دہائیوں
میں ہماری عدالتوں کو تمام تر کمیوں کے باوجود عالمی سطح پر سراہا گیا۔ (یہ
ایک) افسوسناک دن ہے۔‘ ان کے علاوہ مشہور وکیل انس تنویر نے سوال کیا تھا:
’آخری بار سپریم کورٹ کے ریمارکس کب ایف آئی آر کی بنیاد بنے تھے؟‘ان کے
خیال میں تیستا سیتلواد کی گرفتاری ’انصاف کا مذاق‘تھی ۔انس تنویر کا کہنا
تھا کہ ’انہوں ( تیستا سیتلواد) نے (نریندر مودی پر الزام لگانے میں) مروجہ
طریقہ کار پر عمل کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنا ان کا حق
تھا۔ آپ عدالت سے رجوع کرنے پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔‘ لیکن
مودی یگ میں یہ دھاندلی بھی کی گئی ۔ تیستا تو گرفتار ہوکر رہا ہوگئیں لیکن
ان کی گرفتاری نے مودی سرکار کا فسطائی چہرا پھر ایک بار بے نقاب کردیا۔
بقول ساحر لدھیانوی ؎
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
|