دِل تھام کر اور جگر سنبھال کر رکھئے !


اگست رخصت ہوچکا ہے اور ستمبر اپنے نصف کے قریب پہنچنے کو ہے مون سون کی برساتوں نے دوماہ خوب جل تھل مچایا ہے اور سیلاب نے آدھے سے زیادہ پاکستان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اب بھی پانی کھڑا ہے اور سیلاب متاثرین ابھی تک حکومت کی مدد اور کھانے پینے کی اشیاءکے منتظر ہیں مگر افسوس کے جس طرح حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اعلانات و وعدوں کی تکمیل و پاسداری نہ کرنے کی روایت جاری رکھتے ہوئے سیلاب متاثرین کو ان کے حق سے محروم رکھا ہوا ہے اسی طرح موسم نے بھی قیامت ڈھاتے ہوئے گرمی کا زور نہ توڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے !
چہار سو آگ برس رہی ہے اور ایسی آگ برس رہی ہے کہ بے سائبان دھوپ کی تمازت سے جھلستے ہوئے سیلاب متاثرین تو اپنی جگہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں اور گھروں میں پنکھوں کی ہوا کے نیچے رہنے والوں کیلئے بھی سانس لینا مشکل بنا ہوا ہے ۔
گرمی کی شدت نے اسہال ‘ پیچش ‘ جلدی امراض اور آنکھوں کی بیماریوں کیساتھ بلڈ پریشر کو بڑھانا اور جگر کو سکڑانا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔
اس صورتحال میں جہاں ایک جانب ادویات ساز کمپنیوں نے موقع فائدہ اٹھانے کیلئے مارکیٹ سے ہیپاٹائٹس کی بنیادی دوا Hepa-Merzکی قیمت میں اچانک 41روپے کا اضافہ کرکے اس کی 120ملی لیٹر کی بوتل 251روپے کی کر دی ہے وہیں بلڈ پریشر اور دیگر ادویات کی قیمتوں میں بھی من مانا اضافہ کردیا گیا ہے ۔
ایسے میں مسیحا برادری کیسے پیچھے رہ سکتی تھی انہوں نے بھی ”آو دیکھا نہ تاو“ اور فیسوں میں اضافہ کردیا اب گلی محلے میں بیٹھنے والے ایک عام سے جنرل فزیشن کی کم ازکم فیس 100روپے ‘ پوش ایریا کے ڈاکٹر کی فیس 300روپے ‘ ویلفیئر اسپتال کی پرچی فیس 500روپے اور اسپیشلسٹ کی فیس 2000سے 3000روپے ہوگئی ہے جس میں ڈاکٹر مریض سے صرف بیماری کا حال پوچھ کر ادویات خریدنے اور ٹیسٹ کرانے کا پرچہ اس کے ہاتھ میں تھمادیتا ہے ۔ دل کی دھڑکنیں یا بلڈ پریشر چیک کرنے ‘ گلا دیکھنے ‘ تھرمامیٹر لگاکر بخار چیک کرنے اور مریض کاپیٹ چیک کرکے اس کے معدے کی کیفیت بھانپنے کی روایت کو تو ڈاکٹر یکسر خیر باد کہہ چکے کیونکہ اس میں ان کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس ایک مریض کو دینے کیلئے پانچ سے دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں ہے کیونکہ انہوں نے بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مریض دیکھ کر ‘ ٹیسٹ لکھ کر اور مہنگی ترین دوائیں تجویز کرکے ان سے ملنے والے کمیشن سے اپنی آمدن بڑھانی ہے ۔
یہ صورتحال صرف نجی اسپتالوں یا کلینکس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری و نصف سرکاری (سیمی گورنمنٹ ) اسپتال بھی اس کی زد میں آچکے ہیں حتیٰ کہ وزیراعلیٰ سندھ کی نگرانی و سرپرستی میں چلنے والا ”ڈا¶ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال “ تک اسی روایت کا شکار ہوچکا ہے جہاں پرچی فیس 500روپے کردی گئی ہے جس کی ادائیگی غریب و امیر ہر ایک پر لازم ہے کسی کو بھی کسی قسم کی رعایت حاصل نہیں ہے جبکہ گھنٹوں لائن میں لگنے کے بعد 500روپے کی پرچی فیس ادا کرنے اورپھر ڈاکٹر سے چیک اپ کیلئے دوبارہ گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد جب آپ ڈاکٹر تک پہنچتے ہیں تو ڈاکٹر صرف آپ کی شکل دیکھ کر اور بیماری پوچھ کر بنا ءآپ کو ہاتھ لگائے اور بلڈ پریشر ‘ بخار یا دل کی دھڑکنیں چیک کئے بغیر ہی کمپیوٹر پر ٹائپ کرکے پرنٹر کی مدد سے ایک سلپ نکال کر آپ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس میں کم ازکم 6ٹیسٹ لکھے ہوتے ہیں جن کی مالیت دس ہزار سے زائد ہوتی ہے اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کرائیں اور رپورٹس لاکر چیک کرائیں جبکہ شرط و پابندی بھی عائد کردی جاتی ہے کہ ٹیسٹ صرف ڈا¶ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال کی لیباریٹری سے ہی کرائے جائیں کسی اور لیب کی رپورٹ قابل غور یا قابل قبول نہیں ہوگی ۔
بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ جو ادویات تجویز کی جاتی ہیں وہ بھی صرف مخصوص فارمیسی پر ہی دستیاب ہوتی ہیں اور کسی بھی عام میڈیکل اسٹور سے دستیاب نہیں ہوتیں جبکہ ڈا¶ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال کی ڈائیگنو سٹک لیب میں ٹیسٹ مارکیٹ کی اچھی سے اچھی لیب سے زیادہ مہنگے نرخوں پر کئے جارہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ اسپتال ‘ شفا خانے کی بجائے ذبح خانہ بن چکا ہے جہاں مریضوں کو مہنگائی کی کند چھری سے ذبح کیا جارہا ہے اور بلا وجہ و بلا ضرورت ٹیسٹوں کے نام پر ان کا خون نچوڑا جارہا ہے ۔
یہ بات راقم اسلئے کہہ رہا ہے کہ خود راقم اس تجربے سے گزر چکا ہے ۔
دو روز قبل پیٹ میں تکلیف اور پیٹ پھول جانے کی شکایت کے تحت راقم صبح 8بجے ڈا¶ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال موسمیات روڈ پہنچا اور Nilgid OPD میں مریضوں کی لائن طویل ہونے کے باعث10بجے کے بعد 500روپے کی ادائیگی کے ذریعے ڈاکٹر کیلاش کا چیک اپ ٹوکن حاصل کرپایا مگر افسوس کے ڈاکٹر کیلاش 11بجے کے بعد تشریف لائے جس کے وجہ سے راقم کی باری 12بجے کے قریب آئی اور راقم ڈاکٹر کیلاش کے پاس چیک اپ کی غرض سے پہنچا تو ٹیبل کے اس پار سے ڈاکٹر صاحب نے مرض پوچھا اور کمپیوٹر پر تیزی سے ٹائپ کرکے پرنٹر کی مدد سے ایک پرنٹ نکال کر ہاتھ میں تھمادیا کہ یہ ٹیسٹ کراکر ان کی رپورٹس لاکر دکھائیں ۔
CBC Cost Rs. 450
PT/INR Cost Rs. 440
LFT Cost Rs. 850
Albumin Cost Rs. 200
UCE Cost Rs. 1130
TSH Cost Rs. 550
HBsAg Cost Rs. 900
Anti HCA Cost Rs. 1150
Anti HB Cost Rs, 1150
Core (Total) Cost Rs. 1150
ESR Cost Rs.230
RBS Cost Rs. 140
Ultra Sound Whole Abdomen Cost Rs. 1800
پیٹ کی تکلیف کیلئے تقریباً13ہزار روپے سے زائد کے یہ ٹیسٹ لازمی اسپتال ہی کی لیباریٹری سے کرانے تھے حالانکہ دیگر اچھی لیباریٹریز میں ان ٹیسٹوں کے چارجز کہیں کم تھے مگر ڈاکٹر کی ہدایت تھی کہ یہیں سے کرائے جائیں بصورت دیگر ٹیسٹوں کی رپورٹ قابل قبول و قابل غور نہیں ہوگی !
سو راقم نے علاج پر لعنت بھیجی اور گھر آکر تین روز تک عرق بادیان ‘ عرق مکوہ اور شربت بزوری کا استعمال کیا بس میرے مالک نے کرم کیا اور صحت عطا فرمائی!
معمول سے 500فیصد زائد برساتوں اور حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کو بعض لوگ پاکستان کیخلاف امریکی سازش قرار دے رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکہ نے پاکستان کیخلاف اس سازش کو عملی جامع پہنایا ۔
ہارپ ٹیکنالوجی کا مطالعہ کر نے پر پتا چلا کہ امریکی ریاست الاسکا سے 200میل دور گاکونہ کے مقام پر 1993ءمیں High Frequency Auroral Research Program یعنی ”ہارپ“ کے نام سے یو ایس نیوی کی زمین پر 72فٹ اونچے180انٹیناز پر مشتمل ریڈیو براڈکاسٹنگ اسٹیشن قائم ہوا جو 36ملین ہائی فریکوئنسی ویوز کو خلا میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی اس اسٹیشن کی مدد سے امریکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں زمین کی تہوں میں حرارت پیدا کرکے آتش فشانوں کو گرم کرنے ‘ زلزلے لانے‘ گلیشئر پگھلا کر سیلاب کی صورتحال پیدا کرنے اور مصنوعی بارش برسانے کی صلاحیت کا حامل ہوچکا ہے۔
پاکستان میں آنے والا سیلاب اور معمول سے زائد برساتیں اگر قدرتی نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکی ٹیکنالوجی ہارپ کار فرما ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ گلیشئرز پگھلانے کیلئے امریکہ نے پاکستان کے شمال میں موجود برفانی پہاڑوں کے اندرونی تہوں کو ہائی فریکوئنسی ویز کے ذریعے گرم کیا ہوگا جس سے گلیشئر پگھلے اور دریا¶ں و ندی نالوں میں طغیانی نے سیلابی صورتحال پیدا کی جبکہ سیلاب کو قدرتی آفت ثابت کرنے کیلئے امریکہ نے مصنوعی بارشوں کا طریقہ اپنا یا جس کے بعد سیلاب نے شدت اختیار کی اور وہ تباہی مچائی جس نے پاکستان میں انسانی المئے کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ پاکستان کو مسائل و مصائب کے سمندر میں غرق کرکے اس کی معاشی کمر بھی توڑ دی ۔
اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو پھر بات یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ گلیشئر ز کو پگھلانے کیلئے پہاڑوں میں پیدا کی جانے والی مصنوعی حرارت زمین کی تہوں و پرتوں میں تبدیلی کا باعث بنے گی جس سے لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ ساتھ زلزلے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے ۔
دوسری جانب گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا جو دیکھنے میں آرہا ہے اور گرمی کی یہ شدت دیگر عام بیماریوں کیساتھ دل اور جگر کی بیماریاں پیدا کررہی ہے۔
ایک جانب جگر کے امراض کی وجہ سے ملک بھر میں لوگوں کی رنگت جھلس رہی ہے لوگ کالے ہوتے جارہے ہیں ‘ پیٹ موٹے ہورہے ہیں ‘سانس پھولنے لگی ہے ‘ کم عمر افراد بھی کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کررہے ہیں ‘ ہاضمہ تباہ ہورہا ہے ۔
دوسری جانب گردوں کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے لوگ پیشاب کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ پسینہ بہت آرہا ہے جبکہ منہ اور پسینے سے ناگوار بو اٹھ رہی ہے ۔
تیسری جانب ہائی بلڈ پریشر کا مرض بڑھتا جارہا ہے تحمل کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ رہا ہے لوگ مشتعل مزاج ہوتے جارہے ہیں جو انہیں تیزی سے امراض قلب کا شکار کررہا ہے ۔
اب اس سب کے پیچھے امریکی سازش یا ہارپ ٹیکنالوجی ہے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دل ‘ جگر ‘ پھیپڑوں اور گردوں کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔
اسلئے عوام الناس کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے !
عوام سے گزارش و اپیل ہے کہ
پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں !
ٹھنڈے پانی اور برف کے استعمال سے گریز کریں !
تلی ہوئی اشیاءمثلاً پکوڑے ‘ سموسے ‘ برگر ‘ بن کباب اور پراٹھوں سے اجتناب کریں !
چکنائی کا استعمال کم سے کم کریں !
گوشت ہفتے میں ایک بار سے زائد نہ کھائیں !
سبزیوںکو غذا میں شامل کریں !
انگور ‘ مالٹا ‘ کینو ‘ موسمی اور پانی والے پھلوں کا استعمال کریں !
ممکن ہو تو دن میں کئی بار گنا چوسیں یا گنڈیریاں چوس چوس کر کھائیں!
بلا ضرورت دھوپ میں نہ نکلیں!
باہر نکلنا ضروری ہو تو سر پر کیپ لگائیں اور ماسک سے چہرہ ڈھانپیں !
گلوکوز کا باقاعدہ استعمال کریں !
شوگر کے مریض گلوکوز کی بجائے بنا شکر لیموں کی شکنجی بناکر پئیں !
کمزوری محسوس ہونے ‘ حد سے زیادہ گرمی لگنے ‘ پسینہ ضرورت سے زائد آنے ‘ پیٹ پھولنے ‘ قبض کی شکایت ہونے ‘ اسہال کی کیفیت ہونے ‘ حد سے زیادہ غصہ آنے ‘ دل میں تکلیف ‘ سانس میں گھٹن اور پیٹ میں تکلیف ہونے کی صورت فوری طور پر کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں!
اللہ سے دعا ہے کہ سب می زندگی اور صحت کو سلامت رکھے اور جو افراد کسی بھی مرض یا تکلیف کا شکار ہیں انہیں شفا ‘ صحت ‘ قوت اور توانائی عطا فرمائے ....آمین
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147102 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More