مسلمانوں کی زعفرانی تریمورتی پڑھنے میں اگر عجیب لگتا
ہو تب بھی ایک حقیقت ہے۔ فی الحال اس تریمورتی یعنی ’نقوی ، شاہنواز اور
رضوی‘ کے ستارے گردش میں چل رہے ہیں ۔ سنگھ پریوار کی مسلمان تریمورتی کا
تیسرا شیر وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی ہے۔ اس بدبخت کو سپریم کورٹ
نے ہری دوار نفرت انگیز تقریر کیس میں 5؍ ستمبر سے پہلے خودسپردگی کا حکم
دے دیا۔ شیعہ وقف بورڈ کےاس سابق سربراہ کوطبی بنیادوں پر ضمانت دی گئی
تھی۔ وسیم رضوی پربدعنوانی کے کئی الزامات ہیں ۔ ان سے بچنے کی خاطر وسیم
رضوی نے ہندو مذہب اختیار کر کے اپنا نام جتیندر تیاگی رکھ لیا ۔ ہندو
انتہا پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس نے گزشتہ سال 17؍ دسمبر سے
19؍ دسمبر کے درمیان ہری دوار میں منعقد ہونے والی ’’دھرم سنسد‘‘ میں شرکت
کی ۔ اس بدنامِ زمانہ کا نفرنس کے بعد امسال جنوری میں تیاگی کو مسلمانوں
کی نسل کشی کرنے کے لیے ہندوؤں کو ہتھیار خریدنے کی ترغیب دینے پر گرفتار
کیا گیا ۔ وسیم رضوی تو انعام و اکزام کی امید کررہا تھا لیکن الٹا
ہوگیا۔اسے مرکز اور اتراکھنڈ کی بی جے پی سرکاروں سے یہ توقع ہر گز نہیں
رہی ہوگی کہ وہ اسے جیل جانے سے روکنے میں ناکام ہوجائے گی لیکن جب یتی
نرسنہا نند کو جیل جانا پڑگیا تو جیتندر تیاگی کس کھیت کی مولی ہے؟
جتیندر نارائن تیاگی نے اپنی گرفتاری کے خلاف نچلی عدالت میں گہار لگائی
مگر اس نے داد نہیں دی اور جیل میں سڑنے کے لیت بھیج دیا ۔ درخواستِ ضمانت
منسوخ ہونے کے بعد وہ ہائی کورٹ پہنچا ۔ وہاں جج آر سی کھلبے کی بنچ کو
بتایا گیا کہ ملزم کی مجرمانہ تاریخ ہے۔ اس کے خلاف 30 سے زیادہ معاملے درج
ہیں، ان میں سنگین جرائم بھی شامل ہیں۔ تیاگی کے وکیل نے یہ کہہ کردفاع کیا
کہ تمام معاملات اترپردیش میں درج ہیں اور وہ شیعہ وقف بورڈ کا چیرمین
رہاہے۔ اس کے مخالفین کی جانب سے درج کئے جانےوالے جھوٹے معاملات میں سے
کسی میں وہ قصوروار ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ ان سارے دلائل مسترد کر کے عدالت
نے ضمانت دینے سے انکار کردیا۔ دورانِ سماعت جب یہ کہا گیا کہ اسی معاملہ
میں شریک ملزم یتی نرسمہانند کو ہری دوار کی ذیلی عدالت سے ضمانت مل گئی ہے
تو عدالت نے حکومت کو شریک ملزم سے منسلک مجرمانہ معاملات کی معلومات عدالت
میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ اس طرح جیتندر تیاگی نے ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے مصداق اپنے گرو کو بھی پھنسا دیا حالانکہ یتی نرسنہا
نند اب بھی ضمانت پر زہر افشانی کرتا رہتا ہے اور وسیم رضوی کو جیل بھیجنے
کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔
ہائی کورٹ سے بے نیل و مرام لوٹنے کے بعد جیتندر تیاگی نے مئی میں سپریم
کورٹ کے اندر ضمانت کی درخواست داخل کی۔ تیاگی کے وکیل سدھارتھ لوتھرا نے
کہا کہ ملزم پہلے ہی تقریباً چار ماہ سے حراست میں ہے، اس کے طبی مسائل بھی
ہیں۔ اس پر عدالت نے حکومت سےپوچھا کہ ملزم پر جس جرم کا الزام لگایا گیا
ہے اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 3 سال ہے، وہ پہلے ہی 4 ماہ سے جیل میں ہے،
تفتیش مکمل ہوچکی ہے اور آپ کیا چاہتے ہیں؟ شکایت کنندہ ندیم علی کے وکیل
نے کہا کہ ملزمان کی قانون سے بے خوفی تشویشناک ہے اور وہ ایسا کرتے رہیں
گے۔ ملزم یکے بعد دیگرے کئی ویڈیو بنا چکا ہے۔اس پر جسٹس رویندر میتھانی کی
سنگل بنچ نے اسے یہ کہتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ
انتہائی تضحیک آمیز تبصرہ کرتا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ پیغمبر کے ساتھ
بدسلوکی کی گئی ہے، وہ ایک مخصوص مذہب(اسلام) کے لوگوں کے مذہبی جذبات کو
ٹھیس پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ خانہ جنگی کا ارادہ رکھتا ہےاور دشمنی
کو فروغ دیتا ہے۔جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں عوام، قوم اور اپنے شہریوں
کے تئیں حساس ہونے کی ضرورت ہے۔عدالت نے لوتھرا سے پوچھا تھا کہ یہ دھرم
سنسد کیا ہے؟ یہ لوگ ماحول کو خراب کر رہے ہیں، مل جل کر سکون سے رہیں اور
زندگی کا مزہ لیں۔
جتیندر تیاگی کے خلاف ان دلائل کے باوجود سپریم کورٹ نے اسے تین ماہ کی
مشروط عبوری طبی ضمانت دے دی ۔ اس سے کہا گیا کہ وہ نفرت انگیز تقریر نہیں
کرنے کا حلف نامہ دے نیز الیکٹرانک/ڈیجیٹل/سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہ
دے۔عدالت نے وکیل وکاس سنگھ سے کہا کہ وہ رضوی کو مشورہ دیں کہ معاشرے میں
ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیےوہ نفرت انگیز ی میں ملوث نہ ہو۔ سپریم کورٹ
نے اعتراف کیا کہ وہ سارا ماحول خراب کر رہاہے۔ عدالت کا یہ رخ دیکھ کر
تیاگی ڈر گیا ۔ اس نے استقبال کی خاطر جیل میں آنے والوں کا انتظار تک
نہیں کیا اور نرسنہا نند کے آنے سے قبل ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ خیر دیکھتے
دیکھتے تین ماہ کا عرصہ گزر گیا اور ضمانت کی مدت ختم ہوگئی اس لیے تیاگی
کے وکیل سدھارتھ لوتھرا نے سپریم کورٹ کے اندر ضمانت میں توسیع کی درخواست
کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مؤکل بوڑھا ہے۔اس دلیل کو جسٹس اجے رستوگی اور بی
وی ناگرتھنا کی بنچ نے ٹھکرا دیا اور اسے ۵؍ستمبر تک خود سپردگی کا حکم دے
دیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے جتیندر تیاگی کا دماغ درست کردیا اور اس کی عقل
ٹھکانے آ گئی ۔ اس نے ایک حالیہ ویڈیو میں کہا ہے کہ سناتن دھرم میں گھر
واپسی کے بعد اسے وہ محبت نہیں ملی جو پرانے رشتے دار کو اس کی گھر واپسی
پر ملنا چاہیے۔ تیاگی کا یہ حال ہے کہ اس کے قدیم اور اصلی اعزہ و اقارب نے
ارتداد کے سبب رشتہ توڑ لیا اور جدید رشتے داروں نے اس کی ناقدری کرکے
دھتکار دیا۔ یہ مشیت کی مار ہے اس لیے وہ کہتا ہے ’میں بہت ڈپریشن میں ہوں
اور زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے‘۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کے لیے کون
ذمہ دار ہے؟ تیاگی کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتا ہے ’دشمنوں سے مرنے
سے بہتر ہے کہ میں اپنے بارے میں خود فیصلہ کرلوں اور اپنی زندگی ختم
کرلوں‘۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں وہ خودکشی پر غور کررہا ہے کیونکہ اپنےہاتھوں
سے اس نے زندگی کو جہنم زار کررکھا ہے ۔ وسیم رضوی نے اپنی ناعاقبت اندیشی
کااعلان 12؍ مارچ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پی آئی ایل دائر کرکے
قرآن مجیدکی 26 آیتوں پر پابندی کا مطالبہ سےکیا ۔سستی شہرت کے لیے اس نے
دعویٰ کیا تھاکہ اگر وہ مقدمہ ہار گیا تو خودکشی کرلے گا۔ مقدمہ ہارنے کے
باوجود وہ خودکشی سے مُکر گیا۔ وہ اگر اسی وقت مرگیا ہوتا تو اب خودکشی کی
تیاری نہیں کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی ۔ جہاد کو انتہا پسندی کہنے والے
وسیم رضوی کے لیے شہرت حاصل کرنے کا یہ گھٹیا ہتھکنڈا گلے کا طوق بن چکا ہے
۔
اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پیدا ہونے والا وسیم رضوی بھارتیہ جنتا
پارٹی اور نریندر مودی کابہت بڑا مداح ہے۔ یہ کوئی نظریاتی تعلق نہیں ہے
کیونکہ اتر پردیش میں جب سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی تو وہ ملائم سنگھ
یادو پر فدا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1995 تا 2020 کے درمیان وہ یوپی میں شیعہ
وقف بورڈ کا چیئرمین بنا رہا ۔ 2012 میں جب وسیم رضوی کے خلاف بدعنوانی کے
الزامات لگے تو سماجوادی پارٹی نے اسے نکال باہر کیا۔ اس کے بعد وسیم رضوی
نے ہندوتوا کا دامن تھام لیا اور آگے چل کر بی جے پی کو خوش کرنے کی غرض
سے2019 میں’رام کی جنم بھومی‘ نامی فلم لکھی۔ اس کو بنانے کے لیے کوئی
فلمساز تیار نہیں ہوا تو خود پروڈیوس کیا لیکن اسے دیکھنے کی خاطر رام بھکت
بھی نہیں آئے اس طرح وہ سُپر فلاپ ہو گئی۔ سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کی
خاطر اس نے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اور وزیراعظم مودی کے نام ایک خط
لکھ کر دینی مدارس کو بند کرنے اور کئی مساجد کو مندرمیں تبدیل کرنے
کامطالبہ کردیا ۔یہ ساری دوڑ دھوپ اپنے آپ کو سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن
(سی بی آئی) کی تحقیقات سے بچانے کے لیے تھی ۔ وہ اس سے تو بچ گیا مگر اس
سے بڑی مصیبت میں پھنس گیا اور اب اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہا ہے۔
ملک کا ہندو سماج بھی اب یہ بات مان چکا ہے کہ وسیم رضوی عرف جتیندر تیاگی
کی اسلام اور مسلمانوں دشمنی صرف اورصرف اپنی بدعنوانی اور مجرمانہ
سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ جیل جانے کا خوف نے اُسے ذہنی دیوالیہ پن کا
شکار کردیا ہے۔ ایک طرف دنیاوی فائدے کے پیش نظرباطل اقتدار کی پناہ میں
جانے والے جتیندر تیاگی کی مایوسی کا یہ عالم کہ وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے
اور دوسری جانب فلاحِ آخرت کی خاطر اسلام کے آغوش رحمت میں آنے والے عمر
گوتم کا پختہ عزم و ارادہ کہ جسے قید و بند کی صعوبت بھی متزلزل نہیں کرسکی
اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔ عمرکے ساتھ پوری امت کا دل دھڑکتا ہے۔ انہیں
ایک معاملے میں ضمانت مل چکی ہے باقی مقدمات سے بھی عنقریب چھٹکارہ مل جائے
گا لیکن وہ جیتندر تیاگی کی مانند بالکل بھی دل شکستہ نہیں ہیں ۔ دین رحمت
میں آنے اور اس سے پھر جانے کا یہ فرق ہے؟وسیم رضوی کے علاوہ سنگھ کی مسلم
تریمورتی کے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی بھی حالت خراب ہے۔ ان کا
ذکر بد کل ہوگا ان شاء اللہ ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|