گاندھی جی کے تین بندر وں میں سے ایک دیکھ نہیں سکتا
دوسرا بولنے سے قاصر ہے اور تیسرا سننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ سنگھ کے
بندروں میں اضافی صفت یہ ہے کو وہ سب عقل و خرد سے بے نیاز ہیں ۔ سنگھ کی
مسلم تریمورتی ’نقوی ، شاہنواز اور رضوی ‘ بھی اس خوبی سے متصف ہے۔ ان میں
بی جے پی کے قدیم مسلم پوسٹر بوائے مختار عباس نقوی اٹل جی کے کابینی وزیر
تھے۔ مودی جی نے انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا اور ٹھیک
کیا۔ انہوں نے سوچا ہوگا جو اپنوں کا نہیں ہوا وہ غیروں کا کیا ہوگا؟
سنگھیوں کی صحبت کے سبب مسلمانوں نے مختار عباس نقوی کو راندۂ درگاہ کر
دیا تھا اس لیے ان کی انتخابی کامیابی ناممکن ہوگئی۔ مسلمان انہیں بھارتیہ
جنتا پارٹی سے تعلق کے سبب ووٹ نہیں دیتے تھے اور ہندو ان کو مسلمان ہونے
کی وجہ سے گھاس نہیں ڈالتے گویا علامہ اقبال کامصرع ’اور کافر یہ سمجھتا ہے
مسلمان ہوں میں ‘ ان پر صادق آتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو انہیں
ایوان بالہ میں منتخب کرکے وزیر بنانا پڑتا ۔ مودی جی نے سوچا بہت ہوچکی یہ
منافقت کیونکہ مسلمان تو کسی صورت ووٹ دینے سے رہے اس لیے نقوی کو ڈھونے کے
بجائے چھٹی کردی ۔ ان کی مدت کارجب ختم ہوئی تو دوبارہ منتخب کرنا ضروری
نہیں سمجھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی انا اپنے سے سینئر کو
کابینہ میں برداشت نہیں کرسکتی اور بدقسمتی سے نقوی اس زمرے میں آتے تھے ۔
اب صرف راجناتھ سنگھ اور نتن گڈکری بچ گئے ہیں ۔ راجناتھ کو جب وزارت داخلہ
سے باہر کا راستہ دکھا کر دفع کیا گیا یعنی وزیر دفاع بنایا گیا تو توقع
تھی کہ راجپوتانہ خون جوش مارے گا ۔ وہ اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے
باغیانہ تیور دکھائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راجناتھ سنگھ نے چپ چاپ اس
خواری کو برداشت کرلیا ۔ ان کااثر رسوخ ختم کرنے کی خاطر یوگی ادیتیہ ناتھ
کو فرش سے اٹھا کر عرش پرپہنچا دیا گیا تب بھی وہ کچھ نہیں بولے ورنہ ان کے
سیاسی زندگی کا ختتام کردیا جاتا مگر اس کا موقع بھی نہیں ملا ۔ دیکھنا یہ
ہے ان کے صبر کا باندھ کب ٹوٹتا ہے اور وہ تاک لگائےدشمن کو وارکرنےکا موقع
کیسےفراہم کرتے ہیں؟ نتن گڈکری بھی مودی سے سینئر ہیں اور انہیں اپنے
ناگپورکے سنگھی ہونے پر بڑا ناز تھا مگر مرکزی مجلس انتظامیہ سے نکال کر
مودی جی نے پہلا جھٹکا تو دے ہی دیا ۔ اس سے آر ایس ایس کے دم خم کا بھی
اندازہ لگا لیا گیا کیونکہ اس نے بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ دینے کے بجائے
الٹا گڈکری پر تنقید کرکے مودی کی تائید کردی ۔
موجودہ حکومت کے ساتھ بھی سنگھ نے اپنی انگریزوں کے ساتھ والی روایت کو
جاری رکھتے ہوئے مودی کے چمتکار کو نمسکار کردیا ۔ اسی لیے گڈکری کو کہنا
پڑا چڑھتے سورج کی پوجا نہ کرو۔ اس جملے مخاطب سوریہ نمسکار میں ویست
(مصروف عمل) سنگھ پریوار ہے۔ مسلمانوں کی تریمورتی کو سوچنا چاہیے تھا کہ
جو لوگ خاکی نیکر اور سفید دھوتی کی پروا نہیں کرتے وہ بھلا پاجامے اور
لنگی کا خیال کیوں کریں گے؟ مختار عباس نقوی کا ٹکٹ کٹا تو پہلے یہ قیاس
آرائی کی گئی کہ انہیں رامپور کے ضمنی انتخاب میں لڑا کر کامیاب کیا جائے
گا مگر بی جے پی نے رامپور سے گھنشیام سنگھ لودی کو میدان میں اتار کر اپنی
جیت درج کرائی۔ سچ تو یہ ہے بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے مختار عباس نقوی
کا عاصم راجہ کو ہرانا مشکل تھا ۔ زعفرانی نقوی کونہ تومسلمان ووٹ دیتے اور
نہ ہندو کیونکہ ان کی بی جے پی سے دوستی پر مسلم دشمنی غالب آجاتی ۔ مختار
عباس کے مقابلے ایس پی کا ہندو امیدوار بڑی آسانی سے جیت جاتا۔ مسلم رائے
دہندگان کے لیے مسلم اکثریتی حلقۂ انتخاب میں ہندو امیدوار کو ووٹ دینا
مشکل ہوجاتا۔ ایم آئی ایم کو اچھے خاصے ووٹ ضرور مل جاتے۔
رامپور میں نقوی کی دال نہیں گلی تو انہیں نائب صدر بنانے کا شوشہ چھوڑا
گیا اور عارف محمد خان سے ان کی مسابقت شروع ہوگئی۔ اس عہدےکے چکر میں عارف
محمد خان بھی بڑھ چڑھ کر مسلمان مخالف بیان بازی شروع کی تاکہ مودی کی نظر
عنایت نقوی کے بجائے ان پر پڑے لیکن وہ بھی ناکام رہے۔ اس سال راجستھان میں
صوبائی انتخاب ہونا ہے ۔ کسان تحریک کے باعث جاٹ سماج بی جے پی سے ناراض چل
رہا ہے اس لیے مودی جی نے نقوی اور خان کو کوڑے دان میں ڈال کر مغربی بنگال
کے گورنر جگدیپ دھنکر کو نائب صد ر بنوادیا تاکہ جاٹوں کی منہ بھرائی کی
جاسکے ۔ مختار عباس نقوی کی آخری امید مغربی بنگال میں گورنر کا عہدہ تھا
لیکن اس پر بھی تمل ناڈو سے سنگھ پرچارک لا گنیسن کو لاکر براجمان کردیا
گیا ۔ بی جے پی کاوہ فیصلہ بھی غلط نہیں تھا کیونکہ جس شخص نے اپنی عمر کا
بڑا حصہ سنگھ پرچارک کی حیثیت سے تمل ناڈو کی بنجر زمین میں پارٹی کی تخم
ریزی کی ہو اس کو بڑھاپے میں گورنر ہاوس کی عیش گاہ انعام میں ملنی ہی
چاہیے۔ مرکزی حکومت میں اقلیتی امور کے وزیر اور ایوانِ بالا میں بی جے پی
کے ڈپٹی لیڈر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ دیتے ہوئے بھی مختار عباس نقوی نے
حقِ نمک ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم کی تعریف و توصیف کی اورگمنامی کے اندھیرے
میں گم ہوگئے ۔
بی جے پی کی تریمورتی کا دوسرا شیر شاہنواز حسین ہیں ۔ وہ بھی اٹل سرکار
میں وزیر تھے اور قومی ترجما ن کی حیثیت سے خوب اچھل اچھل کر بی جے پی کے
ہر غلط کام کا جواز پیش کرتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی جب بھی کوئی
زیادتی کرتی تو اس کو جائز ٹھہرانے کی خاطر ٹیلی ویژن کے پردے پر نمودار
ہوجاتے تھے ۔ مودی جی نے انہیں مرکز سے ڈھکیل کر ریاستی وزیر بنادیا ۔ اپنی
عزت کا اگر انہیں خیال ہوتا تو وہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیتے لیکن
غیرتمند مسلمان کا بی جے پی میں کیا کام؟ انہوں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی
سمجھ کر جو ملا اسی کو سعادت سمجھ لیا۔ بہار میں بی جے پی اور نتیش کمار کے
کشیدہ تعلقات نے جب دم توڑا تو شاہنواز کی شہنائی بج گئی اور وہ منتری
سےسنتری بن گئے ۔خیر یہ افتاد تو بہار میں بی جے پی کے سارے وزراء پر پڑی
مگر شاہنواز حسین کے سرمنڈاتے ہی اولے پڑے یعنی وزارت کے جاتے ہی عصمت دری
کے معاملے میں پھنس گئے ۔
دہلی کی عدالت عالیہ نے آو دیکھا نہ تاو سیدھے سیدھے شاہنواز حسین کے خلاف
عصمت دری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دےدیا ۔ ہائی کورٹ کے تیور اس قدر سخت
تھے کہ اس نے دہلی پولیس سے کہا ہے کہ وہ 3 ماہ کے اندر ریپ کیس کی تحقیقات
مکمل کرکے عدالت میں رپورٹ داخل کرے۔ یہ در اصل چار سال پرانی بات ہے جب
وزیر اعظم نریندر مودی پورے ملک میں بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگا
رہے تھے ۔ اس وقت یعنی 2018 میں ایک خاتون نے شاہنواز حسین پر آبرو ریزی
کا الزام لگایا تھا ۔ اس مظلوم عورت نے پولیس سے شکایت کی لیکن شاہنواز نے
اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے ایف آئی آر تک درج ہونے نہیں دی۔ اس کے
بعد اس خاتون نے عدالت سے رجوع کیا۔ دہلی کی نچلی عدالت نے شاہنواز حسین پر
عصمت دری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا مگر اس کے خلاف شاہنواز حسین دہلی
ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
ہائی کورٹ کی جسٹس آشا مینن نے اس پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ ایسا لگتا ہے کہ پولیس شاہنواز حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے
ہچکچا رہی ہے۔ انہوں نے عصمت دری کا مقدمہ درج کرنے کے نچلی عدالت کے حکم
کو برقرار رکھا اوراس کے خلاف بی جے پی لیڈ کی اپیل کو بے بنیاد قرار دے کر
مسترد کر دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے 14 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ میٹروپولیٹن
مجسٹریٹ کی طرف سے دہلی پولیس کو شاہنواز حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے
کادیا جانے والا حکم درست ہے۔ہائی کورٹ کے مطابق حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دہلی پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے میں دلچسپی
نہیں ہےنیز پولیس کی جانب سے ذیلی عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ ایف
آئی آر نہیں تھی۔ دہلی پولیس نے نچلی عدالت میں کہا تھا کہ خاتون کی شکایت
پر قابل سماعت مقدمہ کا جرم عائد نہیں ہوتاجبکہ اس کا الزام ہے شاہنواز
حسین نے چھترپور کے فارم ہاؤس میں اس کی عصمت دری کرنے کے بعد اسے جان سے
مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اس طرح گویا جسٹس مینن نے بی جے پی رہنما کو راحت دینے سے انکار کرتے ہوئے
پولیس کو فوری طور پر عصمت دری کا مقدمہ درج کرکے تین ماہ کے اندر تحقیقات
مکمل کر نے اور فردِ جرم عائد کرنے کا فرمان بھی جاری کردیا۔ ہائی کورٹ کا
فیصلہ آنے کے بعد شاہنواز کی شاہی سواری عدالت عظمیٰ کی جانب دوڑ پڑی۔ ان
کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح ایف آئی آر درج ہونے نہ پائے۔ شاہنواز حسین نے
سپریم کورٹ میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرتے ہوئے جلد سماعت پر
اصرار کیا ۔ ان کے وکیل منیش پال نے چیف جسٹس این وی رمنا سے گزارش کی کہ
معاملہ کی جلد سماعت ناگزیر ہے کیونکہ اگر ایف آئی آرج ہو گئی تو یہ عرضی
غیر موثر ہو جائے گی۔ پال نے اپنے موکل کی 30 سالہ عوامی زندگی کا حوالہ
دیا تاہم سی جے آئی اس معاملہ کو ایک ہفتہ کےلیے ٹال کر سبکدوش ہوگئے ۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ بکرے کی اماں کب تک خیر مناتی ہے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ
اناو کےکلدیپ سنگھ سینگر کی مانند شاہنواز حسین کو بھی جیل کی ہوا کھانی ہی
پڑے گی اور آسا رام باپو کی صحبت میں جانا ہی ہوگا۔ سنگھ پریوار کی مسلمان
تریمورتی کا تیسرا شیر وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی کا عبرتناک انجام
کل بتا یا جاچکا ہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ دنیا میں ان کو ملنے والی سزائیں ان
کےجرائم کی سنگینی کے مطابق ہیں ۔ ان لوگوں کی حالت زار پر مرزا غالب(ترمیم
میں معذرت کے ساتھ) یہ شعر صادق آتا ہے؎
دیکھو انہیں جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
ان کی سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
|