کتاب:قائد اعظم:تقاریر و بیانات ۱۹۱۱تا۱۹۳۱(۱)

ریاض احمد چوھدری صاحب ڈاریکٹر؍سیکرٹری بزم اقبال لاہور کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تقایر اور بیانات کے متعلق کتاب تحفتاً ارسال کی ۔ یہ انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے ۔قائد اعظم کی انگریزی کتابselected speeches and statement of the qauid.i.azam mohammad ali jinnah)1911.34and1947.48) یہ کتاب بزم اقبال لاہور نے محسن ملت،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تقاریر و بیانات کا پہلا مجموعہ۱۷؍مارچ۱۹۱۱ء تا ۲۶نومبر ۱۹۳۱ء اُردو زبان میں شائع کر کے اُردو دانوں کی خدمت میں پیش کی ہے۔یہ اُردو ترجمہ جناب اقبال احمد صدیقی نے کیا۔قائد اعظم ؒ کی تقریباً ۹۹ تقاریر اور بیانات میں اس کتاب میں پچپن(۵۵) ہیں۔ ان میں نے ہم نے ان مضمون میں تقریبا آدھی کو لیا ہے۔ قائد اعظمؒ کی ساری تقاریر اور بیانات آزادی ہند، دو قومی نظریہ کی بنیاد پت تقسیم ہند اسلام کی سربلندی کے متعلق ہیں۔ ہندوستان میں جب تحریک پاکستان زروں پر تھی تو ہنددوں کے لیڈروں کے دو بیانات بہت اہم ترین ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب تو قائد اعظمؒ نے برعظیم کے مسلمانوں میں اسلامی جذبے کو اِتنا اُٰجاگر کر دیا ہے کہ پاکستان کلمہ لاالہ الا اﷲ کے نام پر اسلامی نظامِ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پاکستان بننے کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جب پاکستان بن جائے گا تو ہم پاکستان میں ایسے بندے تلاش کرلیں گے جو گانگریس کے بیانے قومیں اُوطان سے بنتی ہیں کو عام کرکے پاکستان کو سیکولر بنا لیں گے۔ یہی ہوا وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان شہید ملت کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس ماڈرن زمانے میں چودہ سو سالہ پرانا اسلامی نظام ِحکومت قائم نہیں ہو سکتا۔کون سے فرقے کا اسلامی نظام قائم کیا جائے؟۔ اس پر سید مودودیؒ اور دیگر علما نے سارے مکتبہ فکر کے علما کے ۳۲ ؍افراد کو جمع کر ۲۲ نقات پیش کر دیے کہ اس طرح اسلامی نظام حکومت اس دور میں بھی قائم ہو سکتا ہے۔

دوسری بات جو ہنددوں کے مہامتا گاندھی نے کہی تھی کہ پاکستان بننے سے مجھے کو ئی پریشانی نہیں۔مجھے فکر اس بات کی کھا رہی ہے کہ جب پاکستان بن کر افغانستان اور مسلم دنیا سے مل جائے گا ۔پھر ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔اس لیے بھارت نے سرحد کے قوم پرست عبد الغفار خان کو استعمال کیا اس سے وعدہ کہا کہ اسے پختونستان ایک علیحدہ ریاست بنانے میں مدد کریں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان ہمیشہ ایک قوم پرست حکومت رہی ہے۔اس نے پاکستان بننے پر تسلیم بھی نہیں کیا تھا۔ صرف افغان طالبان کی پہلی اور موجودہ اسلامی امارت اسلامی ایک اسلامی اور پاکستان دوست ریاست ہے۔ یہی مسلمانوں کاخواب ہے جس سے مہاتما گاندھی فکر مند تھا۔ ہم نے اپنی تازہ کتاب ’’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان‘‘ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کے ایک منحرف مرکزی لیڈر جمعہ خان صوفی جس نے ’’ فریب ناتمام‘‘ کتاب تصنیف کی ہے، میں لکھتے ہیں کہ بقول عبدالغفار خان، مہاتما گاندھی نے اِسے دھوکا دیا کہ ریفریڈم اس بات پر کرایا کہ سرحد کے عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا کہ بھارت میں۔پختونستان کا اس میں ذکر ہی نہیں تھا۔ سرحد کے ننانویں(۹۹) فی صدی عوام نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ دیا تھا۔

اس تمہید کے بعد اب بات کرتے ہیں کتاب’’قائد اعظم۔تقریرو بیانات‘‘پر۔۱۷؍ مارچ ۱۹۱۱ء میں امپریل لیجس لیٹوکونسل میں تقریر کرتے ہوئے مسلم رعایا کے حقوق کے بارے میں قائد اعظمؒ فرماتے ’’میں ملک معظم کی مسلم رعایا کے وقف کی شکل میں اپنے کنبوں اوروارثوں کے حق اپنی املاک کے تصفیہ کے ضمن میں حقوق کی وراثت کے لیے مسودہ قانون پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘ اس طرح قائد اعظم ؒ نے مسلمانوں کے حقوق کی بات کی۔اپریل ۱۹۱۳ء میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ میں نے مجلس منتخبہ کی رپورٹ پر غور کیا جائے۔جس کا مقصد مسلمانوں کی ان حقوق کا اعلان کرنا ہے‘‘ قائد اعظم ؒ نے اس کی تائید کی۔۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۱۶سولھویں بمبئی صوبائی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے’’ ہنددوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے لیے جدگانہ حق رائے دہی کا خیر مقدم کریں‘‘ یہ قائد اعظم کا ہمیشہ سے وژن تھا۔۳۰ دسمبر ۱۹۱۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی۔’’ ہندو مسلم تعلوقات ،تجاویز، سلطنت میں ہند کی پوزیشن اور مسئلہ خلافت پر روشنی ڈالی‘‘جہاں بھی مسلمانوں کے حق کی بات کی۔۳۰ جولائی ۱۹۱۷ء بمبئی پریڈنسی ایسوسی ایشن کے جلسہ کی صدارت میں فرمایا کہ’’ وقت ضائع کیے بغیر اپنی حکمت عملی کا اعلان کر دیں اور رائے عامہ کے احترام میں جو سارے ملک میں غیرمبہم اور شدید ہے حالیہ حکمت عمل کو تبدیل کرنے کا حکم جاری کریں۔ یہ اس بات پر کہا جاتا کہ ہمیں اپنے دلوں سے یہ خیال بل لکل نکال دینا چاہیے کہ ہند کو جلد حکومت خود اختیاری مل سکتی ہے‘‘اس جگہ بھی حکومت ہند سے آزادی کی بات کی۔۱۳؍ستمبر۹۱۷ ۱ء لیجس لیٹو کونسل میں پنجاب کے بارے سر میں محمد شفیع کی قرادار سے بڑھ کرقائد اعظم نے کہا ’’میرے خیال میں پنجاب میں گورنر بشمول کونسل ہونا چاہیے اور ایک ہائی کورٹ زیر نگرانی حکومت ہند‘‘اس جگہ پنجاب کے مسلمانوں کے حق میں بات کی۔۷؍ ستمبر ۱۹۱۸ء میں مسٹر سریندر ناتھ بینر جی ایک قراداد پیش کی۔جس میں بتدریج اصلاحات کا کہا گیا۔ قائد اعظم نے کہا کہ’’ مجوزہ اصلاحات حکومت خود اختیاری سے بتدریج حصول میں جانب اثباتی اقدام نہیں ہیں۔ بلکہ مطالبہ کیا کہ جیسی اصلاحات صوبوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ویسی ہی مرکز میں بھی رائج کی جائیں‘‘۔ قائد کے بہتر وژن کو پورے ہند میں تسلیم کیا گیا۔ ۲۳ستمبر ۱۹۱۸ء کورولیٹ کمیٹی کی رپورٹ کو ملتوی کرنے کی مسٹرجی ایس کھاپردے قراردادپر قائد نے فرمایا’’کہ لارڈسیڈی نہیم اور دیگر لوگ تجاویز اصلاحات کے خلاف اس رپورٹ کو ہوا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔جہاں بھی قائد اعظم نے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کو ناکام بنایا۔۶؍ فروری۱۹۱۹ء پہلی عالمگیر جنگ کے وقت جو قانون بنائے گئے تھے اس کو جنگ کے بعد ختم کرنے پر قائد اعظم نے کہا کہ ’’مجھے اب بھی امید ہے کہ وزیر ہند مسٹر مائیگو ملک معظم کو مشورہ دیں گے کہ وہ اس سیاہ قانون کی نامنظوری کا اعلان کریں‘‘ یہاں ہند میں سیاہ قانون ختم کرنے کی بات کی۔۸؍فروری ۱۹۲۴ء کہا گیا کہ ۱۹۱۹ء کے دستور پر نظر ثانی کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں تو قائد اعظم نے فرمایا’’ میں آنر ایبل ممبر داخلہ پر زور دوں گا اس اقدام کے آغاز کے لیے ہمارے طریقہ کار کو قبول فرمائیں۔اور کہا کہ سب سے پہلے حکومت ہند مکمل ذمہ دار حکومت قائم کرنے کے یے قانون حکومت ہند پر نظرثانی کرے‘‘یہاں اپنی جائز طریقہ کار کی حمایت کی۔۶؍ مارچ ۱۹۲۴ء کو قائد اعظم نے کہا کہ’’ فوجی مد کے تحت رقم تو بہت زیادہ خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن فوج کے افسروں کے زمرے میں ہندیوں کی نمائندگی بہت کم ہے‘‘ اس جگہ بھی ہند کا مقدمہ لڑا۔۱۱؍مارچ۱۹۲۴ء میں نیشلنٹ پارٹی کے مؤقف کی تائید کرتے ہو کہا کہ’’ کوئی غلط تاثر بیرون ملک قائم نہ کیا جائے ۔نیشنلسٹ پارٹی کا مؤقف تومیں نے بیان کر دی اور غلط فیمی کی کوئی گنجائز نہیں ہو سکتی‘‘ اس جگہ پنجاب کے مسلمانوں کی بات کی۔۲۴؍مئی ۱۹۲۴ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ہندو اور مسلمانو ں کے اختلافات ختم کرنے کی بات کی اور کہا کہ ’’ آئر لینڈ اور مصر کے معاملے پر غور کریں کہ انہوں نے کس طرح برطانوی پارلیمان اور برطانوی قوم کے ہاتھوں سے آزادی چھینی‘‘ جہاں بھی عوام کو آزادی کے لیے اُبھارا۔

قارئین جیسا کی پہلے بیان کیا ہے کہ قائد اعظمؒ کی پوری زندگی آزادی ہند، اسلام کی سربلندی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہند کی تقسیم کی جد و جہد سے عبارت ہے۔ یہی ان کی تقاریر اور بیانات میں نظر آتا ہے۔ اﷲ بانی پاکستان قاعد اعظم محمد علی جناحؒ کو کروٹ کروٹ سکھ نصیب کرے کہ ان کی کوششوں سے آج ہم آزاد ہیں۔ آمین

 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1093822 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More