ملک عزیز ہندوستان میں جس طرح کے حالات پیدا کیے جارہے
ہیں ،خاص طورپر شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش اور مدھیہ پردیش،شمال مشرق
میں آسام اور جنوب میں کرناٹک اور اب مہاراشٹر میں مذہب کے نام پرسیاسی
کھیل کھیلاجارہاہے ،مہاراشٹر میں گزشتہ ڈھائی سال میں دور دور تک فرقہ
وارانہ کشیدگی نظرنہیں آئی اور نہ "لو جہاد" کی چڑیاکہیں اڑرہی تھی،لیکن بی
جے پی اور باغی شیوسینکوں کی حکومت نے فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کے لیے
سازش رچناشروع کردیاہے، آزاد ایم پی اور ادھو ٹھاکرے کی کٹر مخالف نونیت
رانا اورمرکزی وزیر نارائن رانے کے فرزند نتیش رانے کو سپاری دے دی گئی ہے
ہاں اس سے قبل گنپتی کے تہوار کے ممبئی کی بیسٹ بسوں پر جو اشتہار نصب کیے
گئے کہ مہاراشٹر میں شندے اور فڈنویس حکومت نے' ہندو' کے تہوار پر تمام تر
رعایتیں دے دی ہیں۔حالانکہ۔یہ سلسلہ پہلے سے جاری ہے ۔
مہاراشٹر کے خطہ ودربھ میں امراوتی اور سری رام پور میں فرقہ وارانہ ماحول
بگاڑنے کے لیے بی جے پی اور ہمنوا تنظمیں کمر بستہ ہیں۔اس لیے احتیاط اور
احتیاطی تدابیر کی خاصی ضرورت ہے،البتہ اترپردیش ،کرناٹک اور آسام میں
سرکاری طورپر یہ سب اسپانسر کیا جارہا ہے،پہلے عام طورپر ریاست کا وزیر
اعلیٰ اور اعلی عہدیدار کسی بھی فرقے یا اُن کے ادارے اور تنظیموں کے بارے
میں منفی باتیں نہیں کرتے تھے،لیکن بی جے پی کے راج میں دنیاہی نرالی ہوگئی
ہے،مودی جی کے نعرے "سب کاساتھ،سب کاوکاس اور سب کاوشواس" جیسے نعروں کی
دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،کرناٹک اور آسام کے وزرائے اعلیٰ تو جنونی کیفیت
میں نظرآرہے اور حجاب،کے بعد مسجد،مدرسہ ،وقف اور عیدگاہ پر سیاسی کھیل
کھیلاجارہاہے ۔کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ بی جے پی کے سابق وزیراعلی یدورپا
انتہائی کٹر ہونے باوجود ہبلی کی عیدگاہ میں گنیش منڈپ کی منظوری نہیں دی
گئی،اب یہ سب کچھ ہورہاہے،اور ریاست کے وزیراعلی کی دیکھ ریکھ میں سب کچھ
انجام دیا جارہا ہے۔دنیاجان چکی ہے کہ اُن کا ایک سطری ایجنڈا
ہے،اقلیتوں،خصوصاً مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جائے،یہ سرگرمیاں اچانک نہیں جاری
ہوئی ہیں بلکہ ایک سوچی سمجھیں حکمت عملی کاحصہ ہے،ایسے ہی مسلم دشمنی پر
مبنی معاملات کو 2023 میں کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور
پھر 2024 کےلوک سبھا الیکشن تک وقتاً فوقتاً اچھالا جائے گا۔طلاق،کثرت
ازدواج،اذان،نماز،حجاب وغیرہ پر ہنگامہ آرائی کے بعد مدرسہ کو نشانہ بنایا
گیا ہے ،جوکہ روزاول سے فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہاہے۔کہیں بھیک
کی طرح سہولیات دی گئی ہیں ،لیکن یہ بھی دل پر پتھر پر رکھ کر دی گئیں ۔
مدرسہ سے جیسے آسام اور یوپی کے وزرائے اعلیٰ کو چڑ سی ہے ،اس کااندازہ اُن
دونوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے،دونوں ریاستوں میں جس انداز سے دینی
مدارس پر شکنجہ کسا جا رہا ہے اس سے فرقہ پرست قوتوں کی ذہنیت کا پتہ چلتا
ہے ۔ خدشہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف یوپی اور آسام تک محدود نہیں رہیگابلکہ پورے
ملک میں دینی مدارس کیخلاف ایک محاذ کھڑا کیا جائے گا کہ ہر عام شہری محسوس
کرنے لگے گا کہ مسلمانوں کے دینی مدارس ملک کے لیے خطرہ ہیں۔ فرقہ پرستوں
کے زہریلے پروپیگنڈہ تو ایک عرصے سے جاری رہا ہے ،البتہ اس میں تیزی نظر
آرہی ہے،اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اور ان کاشکار نہ بنتے ہوئے مذہبی ،
سیاسی اور معاشرتی سطح پر مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی ۔یہ صرف ایک
فرقے اور مسلک کا معاملہ نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانا
مقصد ہے۔ایسا وقت آگیا ہے کہ یہ کہنا کہ مدرسہ تو اُن کا ہے۔یہ خطرناک عمل
ہے جو بھاری پڑجائے گا،ہم اور وہ سے باہر نکلنا ہوگا۔
آسام کے وزیراعلی بڑے مغرور بھرے انداز میں مدرسوں پر مبینہ طور پر دہشت
گردی کا اڈہ قرار دے رہے ہیں، اب تک چار مدارس کو منہدم کیا جا چکا ہے
،حیرت انگیز طور پر تین مدارس تو مقامی انتظامیہ کے ذریعہ منہدم کیا گیا ،
اور چوتھا مدرسہ ، جو کہ گولپار ضلع کے دروگر الگا میں واقع تھا ، اس کو
چند مقامی لوگوں نے ہی گرادیا۔اب اس سلسلے میں ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے کہ
اس کارروائی میں اُن کی اپنی مرضی شامل نہیں تھی، بلکہ پولیس نے ایسا کرنے
کے لیے اکسایا تھا ۔ دیہی عوام نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں پولیس کے
ذریعہ ہدایت دی گئی تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ انہدامی کارروائی ہوئی ۔
حالانکہ پولیس نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ مقامی لوگوں نے دعوی
کیا کہ پولیس میں تعلق رکھنے والے ایک ساتھی کو پیغام بھیجا گیا تھا اور اس
نے ہی لوگوں کو مدرسہ توڑنے کے لیے اکسایا تھا ۔ اس معاملے میں پولیس کا
کہنا ہے کہ وہ صرف دولوگوں کے دہشت گردانہ تعلقات کے معاملے کی جانچ کر رہے
ہیں ۔ جواب فرار ہیں اور مدرسہ میں پڑھا رہے تھے ۔ پولیس کے مطابق دروگر
الگا مدرسہ کو دیہی عوام نے خود ہی منہدم کر دیا تھا ۔ کیونکہ اس کے دو
اساتذہ کے مشتبہ جہادی تعلقات سامنے آئے تھے ،فی الحال اس کی تحقیقات بھی
جاری ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شکرعلی نامی شخص انہدامی کارروائی میں ملوث ہے،خود
کو بی جے پی کا کارکن بتا تا ہے ۔اس کے موٹر سائیکل پرکمل کا اسٹیکر بھی
لگا ہے ۔ ایسے کئی اسٹیکر اس کی رہائش کی دیواروں پر بھی دکھائی دے رہے ہیں
۔مقامی ایس پی اور ڈی ایس پی نے انہیں ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔
جیسا سے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگاکہ ملک
میں اس وقت جن طاقتوں کے قبضہ میں اقتدار کی کنجیاں ہیں وہ اس ملک کے عوام
اور خاص طور پر مسلمانوں کے مذہبی ، سیاسی اور دستوری حقوق کو سلب کر لینا
اپنا فطری حق ماننے لگی ہیں ۔اس لیے چند دنوں بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ
کر مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے ۔ کبھی مسجدوں میں دی جانے والی اذان
پر پابندی کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اورپھرمسلمانوں کی عید گاہوں میں
گنیش کی مورتی نصب کرنے کی مہم ،مسلم طالبات کا حجاب میں تعلیم حاصل کرنا
ان کو کھٹکنے لگتا ہے اور بھی دوسو سال سے اس ملک کی تہذیب و تمدن کو سنوار
نے والے دینی مدارس ان کو دہشت گردی کے اڈے نظر آنے لگتے ہیں ۔ غرض یہ کہ
کسی نہ کسی طرح ملک میں مذہبی منافرت کے جنون کو بڑھانے اور اکثریت کے ذہن
کو مسلمانوں کیخلاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔
خبر ہے کہ یوپی میں یوگی حکومت نے ریاست کے تمام ضلع مجسٹریٹس کو یہ حکم
نامہ جاری کر دیا کہ وہ 15،اکتوبر تک تمام غیر سرکاری مدارس کا سروے کر کے
اسکی رپورٹ حکومت کو پیش کر یں ۔ دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ اس سروے کا
مقصدان مدارس میں دستیاب سہولتوں کا جائزہ لینا ہے اور درکار سہولتوں کو
فراہم کرتا ہے ۔ بظاہر بات تو اچھی لگتی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرکاری
اسکولس میں حکومت کتنی سہولتیں فراہم کرتی ہے ۔ کیا سرکاری اسکولوں میں
پڑھنے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر بھی حکومت نے توجہ دی۔ان واقعات کے
درمیان ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے اور مدرسوں کے طلبا ء نے نیٹ کے
امتحانات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،ان فرقہ پرستوں کے منہ
پر طمانچہ رسید کر دیا ہے،اس موقع پر بیدرکرناٹک میں واقع جنوبی ہندوستان
کے معروف تعلیمی ادارہ شاہین انسٹی ٹیویشن کے قرآن حافظ طلباء نے نیٹ میں
شاندار کامیابی حاصل کی ہے،واضح رہے ادارہ نے عصری تعلیم سے نابلد حفاظ
کیلئے ملک گیر پیمانے پرشروع کئے گئے ”حفظ القُرآن پلس کورس“ اور تعلیم
منقطع کرنے والے طلباء کیلئے شروع کئے گئے خصوصی پروگرام اکیڈمک انٹینسیو
کیئر یونٹ( اے آئی سی یو)کے ذریعے تعلیمی میدان میں ایک انقلاب برپا کردیا
ہے۔ اس کے تحت حافظ محمد علی اقبال نے نیٹ میں 680 اسکور کئے،یہ بھی اہم
خبر ہے کہ شاہین پی یو کالج بیدر کے 450 طلباء کو سرکاری کوٹہ کے تحت
میڈیکل کی نشستیں ملنے کی امید ہے۔دراصل دونوں ریاستوں میں جوکچھ ہورہاہے
،وہ خطرناک پہل ہے اور مرکز کے اشارے پر ہورہا ہے،اس ضمن میں سنجیدگی اور
اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ورنہ ہم اس سازش کا شکار بن
جائیں گے۔
|