کراچی میں قتل وغارت ۔۔۔حقیقت عیاں

کراچی میں باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا گیاہے وہ آج تک تسلسل کے ساتھ رواں دواں ہے ، موجودہ دور حکومت میں ان حالات کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی یہ غور طلب بات ہے۔ روز کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی جگہ اغوا، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ کا عمل اس طرح عمل پزیر ہے جیسے سر زمین پاکستان میں نہ لاءآڈر ہے اور نہ آئین۔۔۔۔ دہشت گرد سر عام آزادی کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ، گزشتہ روز میرے دوستوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے جو حکومت کے دعوﺅں کی قلعی کھول دیتا ہے اور ان واقعات سے حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ کراچی میں اس بربریت کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔۔۔۔ میرے کچھ دوست نجی چینل کی ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد لسبیلہ چوک کراچی جہاں پشاوری جوتوں کی دکانیں بھر مار ہیں وہاں گزشتہ شب خریداری کرنے گئے، ابھی یہ دکان میں خریداری کر رہے ہی تھی کہ اچانک سات سے آٹھ کی تعداد میں کچھ جوان لڑکوں نے ان کے کمر اور گردن پر اسلحہ تان لیا اور ساتھ والی پتلی گلی میں لے گئے کافی اندر لے جانے کے بعد ایک مکان میں الٹا لٹکا دیا ، اسلحہ اس قدر تھا کہ حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں ، پہلا سوال یہ تھا کہ تم اردو بولنے والے ہواور کس تنظیم اور یونٹ سے تعلق رکھتے ہو ۔۔۔ دوستوں نے کہا کہ ہم میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اس پر انھوں نے شناخت طلب کی تو میرے دوستوں نے اپنے ٹی وی چینل کے سروس کارڈ دکھائے اور جب انھیں مکمل یقین ہوگیا کہ ان کا سیاسی جماعت سے دور دور تک تعلق نہیں تو انھوں نے میرے دوستوں کو رہا کردیا۔۔۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ ایک روز پہلے پیش آیا میرے کولیگ دوست ٹی وی چینل کی ایک شوٹ پر شیرشاہ سے کچھ پہلے وقت ظہر پر گئے تو افطار سے کچھ لمحے پہلے واپسی پر ایک سیاہ رنگ کی لینڈ کروزر جس کے شیشے بھی سیاہ تھے قریب آکر رکی اور کولیگ ساتھیوں کو گاڑی میں ڈال دیا صرف اگلی سیٹ تھیں پچھلی سیٹیں نکلی ہوئی تھیں ، گاڑی کے فرش پر خون بھرا پڑا جہاں چاقو، چھریاں، بغدے بھی تھے اور قریب پہلے سے اغوا کیئے ہوئے دو نوجوان جو چہرے سے اردو بولنے والے لگ رہے تھے انتہائی خوف کے عالم میں بیٹھے تھے۔ انہیں بھی ان کے ساتھ بیٹھا دیا گیا ، قریب کلاشنکوف اور نجانے کون کون سے جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ ان کولیگ کے ساتھ ہمارا پٹھان ڈرائیور بھی موجود تھا جو پشتو میں کہہ رہا تھا کہ یہ میڈیا کے لوگ ہیں ان کا کسی سے لینا دینا نہیں یہ تو ڈیوٹی پر شوٹنگ کرنے آئے ہیں لیکن اغواکنندگان باز نہیں آرہے تھے، جب لینڈ کروزر سی مینز چورنگی کے قریب ہی پہنچی تھی تو ڈرائیور نے چلانا شروع کردیا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا اسی اثناءمیں نجی چینل کے ساتھیوں نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی اور لینڈ کروزر والوں نے پہلے سے موجود لڑکوں کو کراچی سے باہر جانے والے راستے پر گاڑی دوڑا دی یاد رہے اغواکنندگان کے چہرے پشتو اور بلوچیوں سے مل رہے تھے یہ دو واقعات میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ پیش آئے ہیں نجانے عام سادھے نوجوان کتنے بے قصور موت کی گھاٹ اتارے جاچکے ہیں ، درحقیقت یہ جنگ مال و دولت اور طاقت کی چل پڑی ہے ، یہ مکمل سیاسی مافیہ ہے جو لاشوں پرسیاست کا یقین رکھتی ہیں، پاکستان اور بیرون ممالک پاکستانی سیاسی تنظیموں کو اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں کہ وہ جماعتیں کون کون سی ہیں ۔۔۔۔۔ وفاقی وزیر رحمان ملک، صوبائی وزیر منظور وسان اور گورنر سندھ عشرت العباد یہ تینوں ان حالات پر شتر مرغ کی طرح اپنی گردنیں کیوں ریت میں چھپائے بیٹھے ہیں اور پولیس ، رینجرز کو مکمل اختیارات کیوں نہیں دیتے !! آخر کیا قباحت ہیں؟؟ شائد ان لیڈران کی نیتوں میں کوئی فتور ہے اور ان کے عزائم کچھ اور ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کراچی کے بگڑتے حالات میں متحدہ مومی موومنٹ کا عملی مظاہرہ پیش نہ کرنا اور صرف اور صرف فطرہ، زکواة، خیرات اور صدقات کو جمع کرنا ، مکاتب فکروں کیلئے لمحہ فکریہ بن گیا ہے اور کراچی کے اردو بولنے والے ذی شعور ، ادیب، شاعر، فلسفی، صحافی، کالم کار، اینکرز، ایڈیٹرزاور دیگر پڑھے لکھے حضرات ان حالات کی ذمہ داریوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھی حکومت وقت کے ساتھ شامل کرتے ہیں کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کوکوئی فکر نہیں کہ روز اموات ہو رہی ہیں پھر بھی اس کاکوئی سدباب کرنے سے کترارہے ہیں ۔۔۔۔

جنرل پرویز کیانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر حکومت اجازت دے تو وہ کراچی کے حالات کو کنٹرول کردیں گے لیکن جنرل پرویز کیانی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت ہر گز نہیں چاہے گی کہ حالات بہتر ہوں کیونکہ وہ دیگر ایسی جماعتوں کے اشتراک سے لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے عوام کو خوف میں مبتلا کرکے انھیں کمزور کردینا چاہتے ہیں ، عوام اپنے لیڈران کے پاس جاکر ان حالات پر احتجاج بھی کریں گے تو لاحاصل نتیجہ ہوگا کیونکہ ان کے لیڈران صرف انہیں دلاسوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتے وہ پابند ہیں حکومت وقت کے ، کیونکہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری میں ان کا بھی حصہ شامل ہے اسی لیئے حکومت وقت کے سامنے کوئی بھی آواز حق بلند نہیں کرسکتا اور اگر سیاسی انداز میں بلند کر بھی دیا تو اسے عملی جامع ہرگز نہیں پہناسکتے کیونکہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے ذاتی مفادات حکومت وقت دے رہی ہے اسی لیئے یہ سب کے سب تاجر حضرات کو مکمل کنگال کردینا چاہتے ہیں ایک ذرائع کے مطابق صنعتکاروں، تاجروں کو بھتہ نہ دینے پر لاشوں کے انبار لگا دینے کا پلان بھی تیار کرلیا گیا ہے عوام اور تاجروں کو صرف دلاسوں کے سہارے چھوڑا جارہا ہے۔حیرت و تعجب کا عکس تو یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہاں کراچی جل رہا ہے اور اسلام آباد میں چیف جسٹس آرام فرما رہے ہیں شائد انہیں روزہ لگ گیا ہوگا۔۔۔۔از خود نوٹس کا عمل تھک گیا ہوگا۔۔۔ شائد عدلیہ عظمیٰ بھی پاکستان ریلوے کی طرح بحران کا شکار ہوگئی ہو۔۔۔ رہی بات پاکستان افواج کی تو یہ اب صرف چوکیدار کا کردار ادا کرنے پر معمور کردیئے گئے ہیں اپنے آقا امریکہ کی افواج پر ۔۔۔ پاکستانی قوم پاکستانی افواج کو غیور سجھتی ہے کیا ان کی سمجھ سچی ہے اگر ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی؟؟ قانون کو اسلام اور معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل ہے ، کیا یہ حقیقت ہے تو یہاں کیوں نہی نظر آتا؟؟ ایوان کو مقدس اور رہبر سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں تو بے حس و بے جانوں، خواب میں رہنے والوں ، نیندوں میں دھت کی مجلس ہوتی ہے۔ ہم کہاں جارہے ہیں ؟؟؟ کب ہمیں ہوش آئے گا؟؟؟ کہیں دیر نہ ہوجائے؟؟؟؟ نا تلافی نقصان سے دوچار نہ ہوجائیں؟؟؟اللہ ہم سب کی حفاظت غیب سے کرے اور پاکستان کو غلط ہاتھوں سے بچائے آمین !!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 246063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.