پاکستان ڈیری فارمنگ کے لحاظ سے دنیا میں
ایک اہم مقام رکھتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں ڈیری فارمنگ میں سرمایہ کاری
کے وسیع مواقع موجود ہیں۔۔دودھ کی بہترین پیداوار دینے والے ممالک میں
ہندوستان، چین اور امریکہ کے بعد چوتھےنمبر پر پاکستان کا نام شمار کیا
جاتا ہے۔پاکستان میں جن جانوروں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے ان میں، بھینسیں،
بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ شامل ہیں۔ قدرت نے ہمارے ملک کو اعلیٰ نسل کی
بھینسوں اور گائیوں کی دولت سے نوازا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سبز
انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے
جن سے سالانہ دودھ کی پیداوار 45 بلین لیٹر لی جاتی ہے۔ حکومتی اعداد و
شمار کے مطابق ملک میں بھینسوں کی تعداد دو کروڑ تریسٹھ لاکھ سے بڑھ کر دو
کروڑ چوراسی لاکھ ہوگئی ہے اور بکریوں کی تعداد پانچ کروڑ چھپن لاکھ سے بڑھ
کر چھ کروڑ انیس لاکھ جبکہ بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ انچاس لاکھ کے مقابلے
میں دو کروڑ پچپن لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ
11 فیصد ہے۔ عام مشاہدات کے مطابق ہمارے دودھیلے جانوروں (گائے، بھینس) کی
اکثریت اوسطاً 5 سے 6 لیٹر دودھ یومیہ فی جانور پیدا کرتی ہے، جو کہ
انتہائی کم اور غیر نفع بخش ہے۔
موجودہ صورتحال کے مطابق ہمارے مویشی پال زمیندار وسائل کی کمی اور افزائش
حیوانات کے جدید علوم سے بے خبری کے باعث اپنے جانوروں سے ان کی صلاحیت کے
مطابق فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دودھ کے استعمال میں
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ڈیری صنعت کے لئے موجودہ انتظامات اور وسائل
نا کافی ہیں۔ د ودھ کو زیادہ دیر تک قابل استعمال رکھنے کیلئے سہولتوں کا
فقدان ہے۔ دیہات سے شہروں تک دودھ کی ترسیل اور خریدوفروخت مناسب سہولتوں
کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت پیچیدہ ہے۔
زمیندار کو حاصل ہونیوالی دودھ کی قیمت پر شہر میں فروخت ہونیوالے دودھ سے
آدھی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ دودھیال جانور پالنے والوں کے پاس چھ سے کم
جانور ہیں۔ موجوودہ دور میں دودھ دینے والے جانور پالنے والے کسانوں کو
جدید ڈیری فارمنگ کے طریقوں سے ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حیوانات کی بیماریوں کے انسداد کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے
کہ بعض متعدی امراض کا شکار ہو کر وہ کثیر تعداد میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں حیواناتی شفاخانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لہٰذا جانوروں کی
بیماریوں کے انسداد کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی۔ عام طور پر حیوانات کو
مناسب خوراک بھی نہیں دی جاتی۔ مویشی پال حضرات غریب ہیں اور ان کی کوشش
ہوتی ہے کہ کم خرچ کر کے جانوروں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیں۔ کم
خوراک اور نامناسب دیکھ بھال سے جانور کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کی
استعداد کار پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ پورا دودھ نہیں دیتے۔ مغربی
ممالک کے مقابلہ میں ہمارے ہاں دودھ دینے والے جانوروں کی دودھ دینے کی
اوسط کافی کم ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ جانوروں کی نسل کی افزائش کی طرف بھی
پوری طرح توجہ نہیں دی گئی۔ مغربی ممالک میں اعلیٰ نسل کے جانوروں کی نسل
بڑھانے کے لیے کیٹل بریڈنگ فارمز کا بہترین نظام قائم ہے۔ جبکہ ہمارے ملک
میں اس طرح کے اقدامات کرنے پر عام طور حکومت توجہ ہی نہیں دیتی۔
ڈیری فارمنگ میں سرمایہ کاری کے ذریعے سالانہ 25 فیصد آمدنی کمائی جاسکتی
ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر مویشی پالنے والے حضرات ان پڑھ ہیں جو کہ ادویات
کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ یہ لوگ پرانے اور فرسودہ طریقہ کار پر ڈیری
فارمنگ کر کے دودھ کی پیداوار کم حاصل کر رہے ہیں جبکہ دودھ کی بہتر
پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ مویشیوں کو انجیکشنز لگا کر دودھ کی زیادہ
پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مویشی کے لئے نقصان دہ ہے اور
اس طرح دودھ کی غذائیت میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گاﺅںمیں اکثریت نے
مویشی پالے ہوئے ہیں، اگر ہم ان مویشیوں کا صحیح طور پر استعمال کریں تو ہم
تو ہم دودھ اور حلال گوشت کو برآمد کر کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور ہالینڈ
کوشکست دے سکتے ہیں۔ اگر ڈیری فارمرز دودھ دینے والے جانوروں کوبھوسے کی
جگہ سبز چارہ، ونڈہ اور وافر مقدار میں پانی فراہم کریں تو دودھ کی پیداوار
میں دس سے بیس گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں فی مویشی دودھ کی
یومیہ اوسط پیداوارپانچ سے چھ لیٹر ہے جبکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور امریکہ
میں یومیہ اوسط پیداوار20 سے 25 لیٹر ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ پرورش حیوانات کے ماہرین نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے ڈیری
کے اعلیٰ پیداواری صلاحیت رکھنے والے جانوروں کی انتظام و انصرام کو جدید
خطوط پر چلانے کا سلسلہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہا۔ ماہرین کی
رہنائی میں دودھ کی پیداوار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کی معروف
ساہیوال گائے اپنی نسلی خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں خصوصی اہمیت کی
حامل ہے۔ پیداواری لحاظ سے گرم ممالک میں پائی جانے والی گائے کی نسلوں میں
یہ اعلیٰ ترین ہے۔ موسمی سختیاں برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میں
چیچڑیوں اور دوسری بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہے۔ ان خصوصیات کی
بنا پر بیرونی دنیا میں یہ اہم مقام رکھتی ہے۔
پچھلی دو دہائیوں سے ساہیوال گائے کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔عالمی
ادارہ خوراک و زراعت کے ایک سروے کے مطابق اصلی ساہیوال نسل کی گائیوں کی
تعداد 1987ء میں صرف دس ہزار رہ گئی تھی۔ اس کمی کی بڑی وجہ بریڈنگ تھی۔
حکومت پنجاب کے سرکاری فارموں پر موجود دوہزار ساہیوال گائیں کسی بھی نسلی
بہتری کے جائزہ کے لیے بہت کم ہیں۔ حکومت کے پاس چونکہ فنڈز کی کمی کے باعث
گورنمنٹ سیکٹر میں مزید فارم بنانا ممکن نہیں تھالہٰذا محکمہ لائیو سٹاک
اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا کہ پرائیویٹ سیکٹر کوساتھ
ملایا جائے۔ 1999ء میں محکمہ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ نے مال شماری
کرائی جس کی بنا پر ساہیوال گائے کی تعداد جھنگ، فیصل آباد، مظفر گڑھ،
ساہیوال، اوکاڑہ ، خانیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع میں بالترتیت زیادہ
پائی گئی۔ ان اضلاع میں گائیوں کی تعداد کے پیش نظر محکمہ لائیو سٹاک و
ڈیری ڈویلپمنٹ حکومت پنجاب نے ساہیوال نسل کی گائے کے تحفظ کے لیے پانچ
سالہ ترقیاتی منصوبہ شروع کیا، جس کا آغاز مالی سال 04-2003ء میں ہوا۔ جبکہ
09-2008ء میں 15 اضلاع چنیوٹ، بہاولنگر، قصور، لیہ، بہاولپور، رحیم یار خان،
سرگودھا، بھکر، ملتان، پاکپتن، شیخوپورہ، وہاڑی، لودھراں، ننکانہ صاحب اور
حافظ آباد شامل کیے گئے اور اب مزید علاقوں میں فارمز بنائے جا رہے ہیں
جہاں اس نسل کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان مویشیوں کی
قیمتوں کو قابو کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے مویشی پال حضرات غریب ہیں اور
زیادہ مہنگے جانور نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اعلٰی نسل کے جانور، جانوروں کی بہتر
پیداوار کے لئے ضروری ہیں۔ زرعی بنک مویشی پال حضرات کی پریشانیوں کو دور
کرنے کے لئے قرضے جاری کر رہے ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر جانور اور
جدید پیداواری ٹیکنولوجی کا استعمال کرتے ہوئے دودھ کی پیداوار میں اضافہ
کیا جا سکتا ہے۔ |