جنیاتی علوم اور انسانی زندگی

خدا نے ہر چیز کا ایک نظام بنایا ہے، سب چیزیں اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ کئی سالوں سے اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان آخر کیسے وجود میں آیا اور یہ کیسے جی رہا ہے؟ ڈی این اے کی دریافت اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین، ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور دیگر سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر ابھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کوجان کر انسان کو اندازہ ہوا کہ ہر انسان کی الگ معلومات ہیں اور وہ جنوم میں ان کوڈ ہوتی ہیں جس کو جان کر ہرانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جنومز کے ذریعے ہر انسان کی الگ معلومات جیسے آباو اجداد کہاں سے آئے، اس کی اپنی شخصیت کیسی ہے، اس کے طبعی خدوخال، اس کی رنگت، اس کی موروثیت، نسل اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ کیا بیماریاں ہیں یا کون سی بیماریاں ہونے کا امکان ہے۔

جنوم کی مکمل تحلیل سن 2000ءمیں کر لی گئی تھی جِس کے نتیجے میں اِنسانی جینیات پر تحقیق، طِب اور علم الادویہ میں نِت نئی دریافتوں کے دروازے کھل گئے۔ جینز میں انسان کی مکمل معلومات محفوظ ہوتی ہیں اور اگر اس میں تبدیلی رونما ہو تو جاندار کی خاصیتیں بدل جاتی ہیں۔ ایک انسانی خلیے میں تین سو ارب جنوم ہوتے ہیں۔ تمام انسانوں کا بنیادی جنوم ایک ہی جیسا ہوتاہے مگر اس میں کچھ فرق ہوتاہے اور یہی فرق ہے جس سے انسان کی نسل اور قوم کی شناخت ہوتی ہے۔جنوم کی یہ تفصیلات بہت اہم ہیں اور کی مدد سے انسانی زندگی اور صحت کے مسائل کوحل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

وطن عزیز پاکستان کے سائنسدانوں نے بھی چینی ماہرین کی مدد سے انسانی جنیات پر تحقیق کی ہے اور پاکستانی شہری کا مکمل جنیاتی خاکہ تیار کر لیا ہے۔ یہ مکمل خاکہ جامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ اور چین کے بیجنگ جنومکس انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے چھ ماہ کے اندر تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے جہاں کسی انسان کا جنیاتی خاکہ تیار کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے امریکہ، یورپ، افریقہ ، بھارت اور یہودی شہریوں کے جنیاتی خاکے تیار کیے جا چکے ہیں۔ ان جنیاتی خاکوں کی مدد سے بے شمار بیماریوں کا علاج اور ان کے ہونے کی وجہ تلاش کرنے کے علاوہ انسانی زندگی سے متعلق دیگر مسائل پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ ان جنیات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوم کون سی اقوام کے ملنے سے بنی ہے ۔انسانی جنوم سے متعلق پاکستانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں کسی آثارِ قدیمہ کی جگہ سے کوئی ڈی این اے مل جائے تو ہم یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ آج کا انسان پانچ ہزار سال پہلے کے انسان سے کس حد تک مختلف ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دو مماثل جڑواں بچے، جو بہ اعتبارِ جینوم مکمل طور پر یکساں ہیں، انکی طبائع، عادات واطوار، بولنے اور چلنے پھرنے کے اندازایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پرجڑواں بھائیوں کو مختلف مرض کیوں لاحق ہوتے ہیں؟ حالتِ طیش میں اِن بھائیوں کا رویہ ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوتا ہے؟ ممکن ہے ایک بھائی صحت مند اور دوسرا کمزور ہو۔ جینیاتی یکسانیت کے باوجود آخریہ تفاوت کیوں؟ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جینیات اِنسان کی ظاہری حالت متعین کرنے میں مختارِکل نہیں، بلکہ بالائی جینوم کا ایک متوازی نظام بھی موجود ہے جو انسان کی ظاہری حالت متعین کرنے میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈی این اے نہایت طویل سالمہ ہوتا ہے مگر مرکزے میں یہ ڈور کے پِنے کی طرح گتھم گتھا ہوتا ہے جِس کی وجہ سے اس کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ ڈی این اے خاص قسم کی لحمیات پر پھرکی کے اوپر دھاگے کی طرح لِپٹاہوتا ہے۔ یہ لحمیات ہسٹون کہلاتی ہیں۔ اب یہ ہسٹون ہی ہیں جو جینز کے اظہار یا عدم اظہار کا موجب بنتی ہیں۔ ہسٹون میں کیمیائی تغیرات رونما ہوں توجینز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آنکھ اور دِل ہی کو لے لیں۔ آنکھ کے پردہِ روشن کے خلاور دِل کے پٹھوں کے خلیے جینیاتی اعتبار سے بعینہ مماثل ہیں۔ اِن میں ذرہ بھر فرق نہیں۔ مگر آخر کیا وجہ ہے کہ پردہِ روشن کے خلیے نوراور رنگ کے نتیجے میں برانگیختہ ہوتے ہیں اور دِل کے خلیوں کامقدر یہ ٹھہر چکاہے کہ، جب تک سانس میں سانس ہے، وہ دھڑکتے ہی رہیں گے۔ اِس فرق کا تعین ہسٹون کے وہ کیمیائی مرکبات کرتے ہیں جن کے مجموعے اور ترتیب کو بالائی جینیات کانظام کہا جاتا ہے۔ ہر خلیہ اپنا اپنا کام کرتا ہیں اور اگر یہ خلیے اپنا حافظہ کھو بیٹھیں اور اپنا مخصوص کردار جو بالائی جینیاتی نظام نے وضع کر رکھاہے، فراموش کردیں تو کینسر جیسے سنگین نتائج روپذیر ہو سکتے ہیں۔

جینوم کی بدولت بیماریوں سے متعلق معلومات کے بارے میں بات کی جائے تو امریکہ میں ہر پانچویں سفید فام شخص میں ایسا جینیاتی نقص ہوتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں میں (ایسٹی کے 39) جین ہوتی ہے ان کا بلڈپریشر دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں امریکہ اور یورپ کے سینکڑوں سفید فام لوگوں کے جینیاتی خاکوں کا مطالعہ کیا گیا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے 25 فیصد لوگ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی گئی ہے۔ میری لینڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن شولڈینر نے اس تحقیق کے بارے میں کہا ہے کہ اس دریافت سے ہمیں یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کن لوگوں کو بلڈ پریشر کا زیادہ خطرہ لاحق ہے اور پھر بیماری کے علاج میں بھی مدد ملے گی۔ اسی طرح جینز کا انسان کی طبیعت میں خرابی اور خوشگواری میں بھی بڑا تعلق ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ایسے کئی لوگ ہیں جو اپنے بچپن کی کچھ یادوں کے باعث خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہ سب کچھ بھی جینز میں تبدیلی کے باعث ہی ہوتا ہے اور ایسے بیمار انسان کا علاج بھی انہی جینوم کی بدولت کیا جا سکتا ہے۔

https://smabid.technologytimes.pk/?p=535

https://www.technologytimes.pk/2011/08/27/%D8%AC%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%B9%D9%84%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C/
Syed Muhammad Abid
About the Author: Syed Muhammad Abid Read More Articles by Syed Muhammad Abid: 52 Articles with 71848 views I m From Weekly Technologytimes News Paper.. View More