صحافت جبر کے سائے تلے

متحدہ ہندوستان میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً نادیدہ قوتوں کی طرف سے صحافت کا کیسے کیسے گلا گھونٹا گیا ؟

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا ،یا ہاتھ قلم رکھنا

حق و باطل کی آویزش روز از ل سے جاری ہے اور تابہ ابد جاری رہے گی ،حق کہنے والوں نے مادی برتری سے بالاتر ہوکر ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حق گوئی کی اور اس کی پاداش میں مادیت کے خوگروں نے عارضی مفادات کی خاطر دائمی سچ کاگلا گھونٹنے کے لیے اپنے عارضی اسباب کے بل بوتے پر فراعنہ مصر کی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے ہر جائزو ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کیا اور بسا اوقات انہیں عارضی کامیابی مل بھی گئی لیکن تاریخ نے ہمیشہ ان کا نام اپنے دامن پر سیاہ حروف سے ہی لکھا کیونکہ تاریخ کا بھی صحافت سے گہرا رشتہ ہے اور وہ کیسے صحافت پر گزرنے والے سیاہ دور کو سنہری حروف سے لکھ سکتی تھی ۔

صحافت موجودہ دور کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے اور اس کی افادیت و اہمیت سے انکار کرنا کسی بھی ذی شعور شخص کے لیے ممکن نہیں لیکن پاکستان میں صحافت کرنا خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ یہاں صحافیوں کو قبضہ مافیا،صوبائیت ،لسانیت ،علاقائی پریشر گروپوں ،متحارب مذہبی قوتوں کے علاوہ ہر آنے والی حکومت اور ریاستی اداروں کے جبر کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات ہیں ،یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ صحافت میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے اور اس کے بعض عناصر ـــ’’حدود‘‘سے تجاوز بھی کرجاتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کے ساتھ ماورائے قانون اور ماورائے عدالت اقدامات کیے جائیں ۔

صحافیوں کے ساتھ جبر و تشدد اور انہیں تھرڈ کرنا یہاں تک انہیں قتل کردینا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ متحدہ ہندوستان سے شروع ہوا جہاں انگریز سامراج نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا نظریہ ضرورت کے تحت قانون سازی کی اور بعد والوں نے بجائے تنقید کے جواب میں اپنے دامن کو درست کرنے کے نشاندہی کرنے والوں کے ساتھ انگریزوں والا ہی سلوک کیا۔

۱۸۳۷ میں ’’دہلی اخبار‘‘کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا جسے جبر کی وجہ سے کئی نام تبدیل کرنا پڑے اور اس کا آخری نام ’’اخبار الظفر‘‘تھا اس کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو بادشاہ کا حامی ہونے پر انگریز سرکار نے سزائے موت دیدی یہ مولانا حسین آزاد کے والد تھے اور انہیں اردو صحافت کا پہلا شہید کہا جاتا ہے ،انہوں نے جو جبر کے سائے تلے لکھا اور عوام تک پہنچایا وہ بعد کے مورخین کے بہت کا م آیا،’’اردو معلی‘‘ کومولانا حسرت موہانی ؒ ۱۹۰۳ ء میں شائع کیا ،سیاسی مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ۱۹۰۸ء میں دوسال قید پانچ سو روپے جرمانہ ہوا اور بالآخر ۱۹۱۳ء میں جبر کے سائے تلے اردو معلی کو بند کردیا گیا ۔

۱۹۰۷ء میں ہفت وار ’’سوارجیہ‘‘الہ آباد سے جاری ہوا ،اس کے پہلے ایڈیٹر شانتی نرائن پہلے سال ہی میں سخت مضمون لکھنے کی پاداش میں دو سال قید پانچ سو روپے جرمانہ ہوا ،اس کے بعد کے ایڈیٹر نندگوپال اسی جرم میں پانچ سال قید کاٹ چکے تھے انہیں سوارجیہ کی روایات آگے بڑھانے پر دس سال مزید سزا ہوئی ،ان سے اگلے ایڈیٹر ارھا رام کو بھی دس سال کالے پانی کی سزا ہوئی اور بالآخر جبر کے سائے تلے ۱۹۱۰ء کو یہ پیپر بھی بند کردیا گیا ۔جنوری ۱۹۱۴ء میں روزنامہ ’’زمیدار‘‘ کی دس ہزار کی ضمانت اور پریس ضبط کرلیا گیااور اس کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان کو نظر بند کردیا گیا اس کے بعد اگست ۱۹۱۴ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد پریس ایکٹ کے تحت اخباروں میں سیاسی خبروں کی اشاعت پر پابندی لگا دی اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ’’الہلال‘‘ کو بند کردیا گیا ،مولانا محمد علی جوہر کے دونوں پرچوں ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘کی ضمانت ضبط کرلی اور مئی ۱۹۱۵ء میں جبر کے سائے تلے انہیں نظر بند کردیا گیا ، مارچ ۱۹۱۶ء میں مولانا آزاد کے ’’البلاغ‘‘کو بھی بند کردیا گیا ۔یہ چند واقعات تو متحدہ ہندوستان کے تھے

آزادی کے جدو جہد میں قلیدی قردار ادا کرنے والا شعبہ صحافت آزادی کے بعد بھی بدقسمتی سے آزاد نہ ہوسکا اور اب بھی پاکستان میں صحافت جبر کے سائے تلے سسکتی ،لہو لہان ہوتی ،تشدد برداشت کرتی اپنے فرائض انجام دینے میں مصروف ہے ،پاکستان کی موجودہ صورتحال سامنے رکھیں تو گلوبل وائس کے مطابق پاکستان ورلڈ پریس فریڈیم انڈیکس ۲۰۲۲ء میں ۱۸۰ میں سے ۱۵۷ نمبر پر آچکا ہے اور ان میں ۱۲ پوائنٹ کی کمی پچھلی چند ماہ کے دوران ہوئی ہے اور سب سے زیادہ صحافیوں پر حملے پاکستان کے کیپٹل اسلام آباد میں ریکارڈ کیے گئے اور دوسرے نمبر پر سندھ میں حملے ہوئے ہیں ،رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی صحافی اب اپنے گھروں میں بھی محفو ظ نہیں اور زیادہ تر صحافی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہوئے ،کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) سمیت دیگر ملکی و غیر ملکی صحافتی اداروں نے ملک عزیز پاکستان میں صحافت کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور جبر کے سائے تلے سانس لیتی صحافت سے اظہار یکجہتی کیا ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو ۲۰۰۲ ء سے لیکر اب تک ۸۰ سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور بدقسمتی دیکھئے کہ ان شہداء صحافت کے کیسز زیر التواء ہیں ویسے بھی ہمارے ہاں صحافیوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور ان کو قتل کرنا شاید سب سے زیادہ آسان ہے اور ستم بالائے ستم ان کے قاتلوں کو سزا دینے کا ریشو نا ہونے کے برابر ہے ،سلیم شہزاد کی تشدد زدہ لاش،قبائلی صحافی حیات اﷲ کی مجروح لاش،ولی خان بابر،ارشاد مستوئی ،ھاشمزادہ کا قتل کس کے قاتل پکڑے گئے ؟حامد میر ،ایاز میر سمیت سینکڑوں سینئر صحافی تشدد کا نشانہ بنے،صحافی عمران خان ،جمیل فاروقی سمیت کئی صحافی ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ارشد شریف وغیرہ کو آف ائیر کردیا گیا اور انہیں جان بچانے کے لیے ملک سے فرار ہونا پڑا ۔

تمام سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو سمجھنا چاہئے کہ صحت مند اور توانا جمہوریت ایک آزاد صحافت کے بغیر ممکن نہیں سو اس شعبے کو مجروح کرنا چھوڑدیں اور اسے مضبوط ہونے دیں ،ہمارے ہاں جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس وقت وہ صحافتی حقوق کی آواز بلند کرتی ہے اور انہیں صحافیوں کی پریشانیوں کا کافی ادراک ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتی ہیں تو پھر وہ ہی روایتی انداز میں صحافت کو جبر کے سائے تلے لینے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز میں سرفہرست قتل ،اغواء،بدسلوکی ،ڈرانہ دھمکانہ،معاشی استحصال،جبری گمشدگی،تشدد،سنسر شپ (ہر حکومت کی مرضی کے مطابق)،میڈیا ہاؤسز کی بندش،اخبارات کی بندش، یوٹیوب ،فیس بک چینلز کی بندش ،پیمرا کی غیرسنجیدگی ،میڈیا پرسنز کو نامعلوم افراد کی طرف سے نامعلوم مقام سے کی گئی فون کالز،ریاستی جبر سمیت اپنے علاقے کے وڈیروں ،جاگیرداروں،قبضہ مافیا،کالعدم تنظیموں ،صوبائیت ،لسانیت کا سامنا ہے (اس سب کا اندازہ اس سے بھی لگا لیں کہ میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں جو کہ مناسب الفاظ میں لکھا گیا ہے تو خود بھی دو تین دفعہ پریشان ہوا کہ اس کالم کے رد عمل میں مجھے یا میری فیملی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے)۔

ملک عزیز پاکستان میں ان سب چیزوں سے نکلنے اور صحافت کو ایک بااختیار اور پر اعتماد فضا ء مہیا کرنے کے لیے جہاں عالمی حقوق کی تنظیموں اور حکومت وقت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہاں ہی میڈیا ہاؤسز اور میڈیا پرسنز کو بھی چاہئے کہ خود کو ٹکڑیوں میں تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہوکر تمام چیزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں اور بغیر کسی رنگ و نسل اور چینل کے فرق کے صحافیوں کے حقوق کی جدو جہد کریں ،اتحاد وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے ہمارا متحد نہ ہونا ہی ہماری کمزوری بھی ہے اور ہمیں کمزور کرنے والوں کی طاقت بھی سو اپنے حقوق کے لیے ایک صف میں کھڑا ہونا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے وگرنہ ایک ایک کرکے صحافی قتل بھی ہوتے رہیں گے ،ظلم ، جبر اور تشدد کا نشانہ بھی بنتے رہیں گے اور کوئی پرسان حال نہ ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sufian Ali Farooqi
About the Author: Sufian Ali Farooqi Read More Articles by Sufian Ali Farooqi: 28 Articles with 26959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.