سیلاب زدگان کو بھیک نہیں حقوق دو

 پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عوام کو آئے روز کسی نہ کسی اندوہناک واقعے کا سامنا رہتا ہے۔ کبھی عوام الناس اور مقتدر حلقوں کے پیدا کردہ مسائل کی صورت تو کبھی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کی شکل میں۔

انفرادی سطح پر معصوم بچوں کے ساتھ زنا سے لے کر قتل، قبروں کی آبرو ریزی، ان کے مکینوں کے ساتھ بد فعلی کا جرم، ان کے بال چرانا، لڑکپن کی عمر تک کے بچوں کو قتل کرکے ان کے اعضاء نکال کر انہیں تیزاب میں جلانا، استعارہ ملت مینار پاکستان پر ٹک ٹاکر کے ساتھ جنونی بھیڑیوں کی طرح شرم ناک حرکتیں کرنا، ملک میں سینکڑوں لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس کر بلیک میلنگ کی شکل میں ان کی عزتوں کے سودے کرنا اور بیرون ملک سے آئی لڑکی کی عصمت دری کرکے ملک کی عزت کا جنازہ نکالنا ان گھناؤنے جرائم میں شامل ہیں۔

جہاں تک دیگر مسائل کا تعلق ہے تو وہ عموماً مقتدر حلقوں اور دیگر سیاستدانوں کے پیدا کردہ ہیں۔ جن میں سیاسی سطح پر نا انصافی، بد عنوانی، قومی دولت پر عیاشیاں کرنا، عوام کے حقوق غصب کرنا، اسلام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا سرفہرست ہیں۔ یہ تمام مسئلے اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک فرد واحد سے لے قومی سطح پر ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی رہیں گے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ انہی عوامل کے زیر اثر قدرتی آفات زلزلے، سیلاب، وبا اور طوفان بھی جان و مال کی تباہی کا سامان بنتے رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مقتدر حلقے ان عوامل کو بھی اپنے فائدوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ایسے آفات ان کے بینک بیلنس کو بڑھانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جب کہ عوام کے نام پر جمع کیے چندے کا پانچ فیصد حصہ بھی مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتا۔ انہی منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں سڑک، پل اور ڈیم جیسے اہم منصوبے صرف کاغذوں میں بنتے ہیں یا پھر بہت ہی ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے جلد ہی بارشوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بارشوں سے فائدے کے بجائے نقصانات کا احتمال زیادہ ہو جاتا ہے اور ملکی خزانے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

اس سے پہلے بھی قدرتی آفات، زلزلوں، سیلاب، لینڈ سلائڈنگ اور طوفانوں سے ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور بے تحاشہ مالی نقصان بھی ہوا مگر حالیہ بارشوں نے جہاں ایک طرف ساٹھ سالہ تاریخی ریکارڈ توڑا تو دوسری جانب ایک مخصوص علاقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پاکستان کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب آیا۔ جس کے نتیجے میں کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ 10 لاکھ تک گھر تباہ ہوئے اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔ سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ۔ مویشی ہلاک ہو گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں۔ کئی لوگوں کی اب تک لاشیں بھی نہیں ملیں۔ اس کے علاؤہ ملیریا، ڈینگی، جلدی امراض اور گیسٹرو کی بیماریوں نے بھی وبائی شکل اختیار کرلی۔

عالمی سطح پر کئی ممالک سیلاب سے متاثر ہوئے مگر وہاں مالی اور جانی نقصان نسبتاً کم ہوا جب کہ پاکستان میں ان سیلابی ریلوں نے ایک طرف فضائی اور زمینی آلودگی کم کی وہیں دوسری جانب حکومتی اقدامات کی قلعی بھی کھول دی ۔

اس دوران ملک کے مختلف علاقوں سے سیلابی ریلوں کی تباہی سے ایسے اندوہناک واقعات نظر سے گزرے کہ روح تک کانپ اٹھی۔ مٹی سے آٹے کئی بچوں کی لائن سے رکھی لاشیں، غریب اور لاچار خاندانوں کا غربت کی گھٹریاں اپنی زندگی کی جمع پونچی کی شکل میں سر پر اٹھائے پیدل نقل مکانی کرنا، اپنے بچے کو سیلابی ریلے میں بہتا دیکھ کر باپ کا دیوانہ وار پانی میں چھلانگ لگانا، بیٹی کا جہیز بہہ جانے کی وجہ سے ماں باپ کا بے بسی سے رونا، سیلاب کے بیچوں بیچ ایک چھت پر پناہ لینے والے خاندان کی تصویر، خاران میں پوری رات کیسنگ پر پناہ لینے والے زمیندار کی دلخراش تصویر، ہرنائی میں اٹھارہ گھنٹے ٹیلے پر بے یارو مددگار لڑکے کی تصویر جسے بذریعہ ڈرون کھانا بھیجا جاتا رہا مگر اسے بچایا نہیں جا سکا۔ بجلی کے کھمبوں پر چڑھے افراد کی تصاویر، ٹیلے پر مدد کے انتظار میں موت کے منہ میں جانے والے پانچ لڑکوں کی تصویر، بھوک سے مجبور لوگوں کا امدادی راشن والے ٹرک پر حملہ کرنا، مجبور اور غریب ضعیف العمر شخص پر بھوک سے مجبور ہوکر راشن چرانے کا سنگین جرم اور اسے ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں بند کرنے کا عظیم الشان انصاف بھی شامل ہے۔

جہاں جہاں دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوئیں اس سے انتظامیہ تھوڑی بہت حرکت میں آئی ہے۔ اگرچہ کہ متعلقہ ایجنسیوں کو اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے از خود الرٹ رہنا چاہیے مگر اب کے بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ہیلی کاپٹر جو ہر یوم پاکستان اور یوم فضائیہ پر مختلف رنگوں کے فضائی کرتب دکھاتے اور داد سمیٹتے نظر آتے ہیں، ایسے موقعوں پر بہت کم نظر آئے۔ وہ بھی صرف اعلی حکام کے فضائی دوروں کی حد تک۔ بلکہ اس بار تو بجائے پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کرنے کے یہ ان کی عیاشیوں اور جلسوں میں استعمال ہوئے۔ البتہ ایک دو جگہ ہیلی سے امداد کی وڈیوز بھی نظر سے گزریں جہاں انہوں نے چند تھیلے راشن کے بہت اونچائی سے پھینک کر فائدے کے بجائے متعلقہ علاقوں کی فصلوں کو مزید نقصان پہنچایا اور راشن کی تھیلیاں مستحقین تک پہنچنے سے پہلے ہی بکھر گئیں۔
کچھ غیر سرکاری تنظیموں اور سیاسی لیڈروں نے تو مدد کے نام پر عوام کی تحقیر کی اور سفید پوشوں اور مجبور افراد کی بے بسی کو تصاویر کی شکل میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا اور داد سمیٹی۔ ایک شخص نے تو باقائدہ ان تمام اشیا کی وڈیو شئیر کی جو اسے مدد کے نام پر ملی تھیں۔ اس پیکیٹ سے جو کچھ نکلا وہ ان کی غربت کا مذاق اڑانے کے لئے کافی تھا۔ لوگوں نے گھر میں ناقابل استعمال اور پونچھا بنانے والے کپڑے پیک کرکے بھیجے اور وقت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کی انا کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان سب کے علاؤہ مثبت اور عمومی رویہ بھی دیکھنے کو ملا اور یہ ان لوگوں کی جانب سے تھا جو اس سیلاب سے بفضل خدا بالکل محفوظ رہے انہوں نے کھل کر مالی مدد کی مگر زیادہ تر مقامی لوگ خود ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے۔ علاقائی مکینوں کے اس اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو میں عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ باوجود اس کے مندرجہ بالا افراد سوالی ہیں حکمرانوں کے سامنے اور اس بار کوئی بھی سیاست دان دوسرے پر الزام عائد کرکے بری الذمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ موجودہ قومی اور صوبائی حکومتوں میں سب ہی جماعتیں کہیں نہ کہیں حکومتی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ مگر اس تمام عرصے میں سیاست تب بھی عروج پر رہی اگرچہ کہ متعلقہ حکومتوں نے کچھ حد تک مدد کی مگر یہ مدد خوددار لوگوں کی تکالیف کا ازالہ بالکل نہیں کرسکتی۔ چار افراد کو بٹھا کر بریانی کی ایک پلیٹ کھلانے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ مدد کے نام پر فوٹو سیشن کرکے تذلیل کرنا۔ سیلابی سین بنا کر وہاں سے چلنے کی شوٹنگ کرنا اور اتنے بدترین حالات میں بھی اپنے جلسے جاری رکھنا، اینجلینا جولی کی نقالی کرنا۔ یہ سب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ایک طرف اگر غریب لوگ اس سیلاب میں ڈوب گئے تو دوسری جانب مفاد پرست لیڈروں کے ضمیر بھی ان سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔ان کا سیاہ رنگ کا لباس ہی نہیں من بھی اندر سے اتنا ہی کالا ہوچکا ہے۔

جہاں سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا وہیں غیر متاثرہ علاقوں کے کچھ افراد نے اس سیلاب کو عذاب خداوندی سے جوڑ دیا یہ سوچے بغیر کہ یہ سیلاب صرف غریبوں کے لیے ہی نہیں بلکہ امیروں کے لیے بھی آزمائش ہے۔ اگر عذاب ہوتا تو گناہوں کے گڑھ محفوظ نہ رہتے۔ یہاں صرف اور صرف غریب طبقہ ہی متاثر ہوا۔

ہم کب تک ان حالات کا شکار رہیں گے کبھی کشمیر اور آواران کے زلزلے کی صورت اور کبھی سیلابی ریلوں اور بارشوں کی صورت۔ چند پھٹے پرانے کپڑے ایک وقت کا کھانا، ایک خیمہ اور چند دن کا راشن دے کر سب بھول جائیں گے۔ کیا یہی ہے پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کا حق ۔ کیا متاثرہ عوام یہ پاکر دوبارہ اپنی مجبوریوں پر سفید چادر اوڑھ کر خاموش ہوجائیں گے یا پھر اپنے ضمیر کا سودا مجبوریوں سے کرکے فقیروں اور ملک دشمن عناصر کی لسٹ میں شامل ہوجائیں۔

سیاستدان خدارا اس الزام تراشیوں کی سیاسی سے نکلیں ذاتی مفادات کو دفن کرکے قومی اور عوامی مفادات کو ترجیحی بنیاد پر حل کریں۔ منفی اور نفرت کی سیاست کرکے لوگوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے بجائے تعمیری سرگرمیوں پر توجہ دیں۔ سیلاب زدگان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے خدارا عوام کو بھیک نہیں ان کے جائز حقوق دیں۔ صرف فضائی جائزے کرکے، کاغذوں پر مضبوط اور پائیدار ڈیم، پل اور سڑکیں تعمیر کرنے کے بجائے زمین پر اتریں اور حقائق کا سامنا کریں اور یہاں تعمیرات کرکے زمینی تعلقات کو مضبوط کریں۔ کیونکہ سب نے ہی بلا تفریق اسی زمین میں ہی دفن ہونا ہے اور زمین سب سے ان تمام عوامل کا حساب مانگے گی جو اس نے ہواؤں میں اڑتے ہوئے انجام دیے۔ زمین کا قرض اتارو گے تو زمین تمہیں معاف کرے گی ورنہ اسے انصاف کرنے کے لیے کسی بھی بکے ہوئے ترازو اور قلم کی ضرورت نہیں۔


 

Dr Rahat Jabeen
About the Author: Dr Rahat Jabeen Read More Articles by Dr Rahat Jabeen: 22 Articles with 15068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.