بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ عالمی
اداروں کی سر پرستی میں سرانجام پایا تھا جس کا مقصد پانی کی تقسیم کو
منصفانہ بنانا تھا ۔اس وقت پاک بھارت تعلقات انتہائی کشیدہ تھے لہذا عالمی
گارنٹیاں اس منصوبہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ضروری تھیں لہذا ان کا
مکمل اہتمام کیا گیا۔بھارت نے اس معاہدہ کے بعدبہت سے ڈیم بنالئے جبکہ
پاکستان حسبِ معمول بیوو کریسی کی چال بازیوں سے اپنے حصہ کا کا م سر انجام
نہ دے سکا۔سیاسی عدمِ استحکام اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے اب حالت یہ
ہے ک ہمارے دو دریاستلج اور بیاس عملی طور پر ختم ہو چکے ہیں کیونکہ ہمارے
سیاستدان باہمی مناقشوں میں الجھنے کے باعث اپنے حصہ کا کام کر ہی نہیں
پائے ۔جب نعم البدل معدوم ہو جائیں تو نقصانات ہی مقدر بنتے ہیں ۔اکثر
مقامات پر عوامی تجاوزات کی وجہ سے ان دریاؤں کا نام و نشان بھی نہیں
ملتا۔راوی کی تندی بھی معدوم ہو چکی ہے۔وہ راوی جس کے بارے میں اقبال نے
کہا تھا (رہے گاراوی و نیل و فرات میں کب تک۔،۔تیرا سفینہ کہ ہے بحرِ بے
کراں کے لئے )۔یعنی کہ راوی کی اہمیت کا مقام یہ تھا کہ علامہ اقبال نے اسے
نیل و فرات کے ساتھ نتھی کیا ہوا تھا۔اب جب بھی مجھے راوی پل سے گزرنے کا
اتفاق ہو تا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ راوی بالکل خشک اور ویران ہو
چکا ہے ۔پنجاب کا دل لاہور اور لاہور کا دل راوی کے اندر دھڑکتا ہے لیکن اب
وہ دل بالکل خاموش ہو چکا ہے۔ زراعت کو اس سے جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ الگ
کہانی ہے لیکن اس سے لاہور کی خوبصورتی اور دلکشی پرجو حر ف آ رہا ہے وہ
بالکل علیحدہ داستان ہے ۔ایک نیا شہر جس کی راوی کنارے منصوبہ بندی کی جا
رہی ہے وہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔غالب کا دلکش انداز دیکھئے ۔ (رازِ
نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا۔،۔ جس دل پہ نازتھا مجھے وہ دل نہیں رہا)۔
باہمی عدمِ اعتماد کی کیفیت یہ ہے کہ ہمارے قائدین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے
کیلئے تیار نہیں ہے۔ جب قومی ایشوز پر بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہو گا تو پھر
ملکی نقصان سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ہر منتخب بندے کو چور،خائن اور ڈاکو کا
لقب عطا کر کے بازارِ سیاست کی آفادیت قائم نہیں رکھی جا سکتی۔پارلیمنٹ میں
تمام منتخب افراد ہی آئین و قانون بنانے کے مجاز ہوتے ہیں لہذا کوئی ا نھیں
نظرانداز نہیں کر سکتاکیونکہ عوام نے انھیں اپنے مینڈیٹ سے نوازا ہو تا
ہے۔اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ وہ کس جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے ۔کرپشن
کے خلاف جنگ ضروری ہے لہذا کرپٹ افراد کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا نتارا
کرنے کیلئے عدالتیں موجود ہیں جو ایسے افراد کا محاسبہ کرنے کا فریضہ سر
انجام دیتی رہتی ہیں۔کسی کی ذاتی آرزو پر کوئی بھی ڈاکو اور کرپٹ نہیں بن
سکتا۔الزاماتی سیاست نے ہی پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رکھا ہے جس کی
مزید آبیاری میڈیا کے کچھ غیر سنجیدہ صحافیوں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔سوشل
میڈیا پر جھوٹی خبروں کی اشاعت ،سنسنی خیزی اور ڈرامہ بازی کی بھر مار نے
قومی سیاست کو مزید پراگندہ کر دیا ہے ۔،۔
بھارت نے اپنے قومی مفاد میں سندھ طاس معاہدہ کے بعد ہمارے دریاؤں پر کئی
مقامات پر ڈیم بنا کر ہمارے پانی پر تسلط قائم کر لیا ہے جو کہ سندھ طاس
معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت کے خلاف عالمی سطح پر پاکستان کے
احتجاجوں کاسلسلہ پچھلے کئی سالوں سے جاری و ساری ہے لیکن بھارت کو کون روک
سکتا ہے؟ جھنیں روکنا ہے وہ تو اس کی دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ امریکہ اور
روس بھارت کے حاشیہ بردار ہیں لہذا اس کا ہاتھ کون مروڑے گا؟چین سے پاکستان
کو بڑی توقعات وابستہ ہیں لیکن ہماری توقعات چین کی عالمی حیثیت کے مطابق
ہونی چائیں۔چین خود بھی بھارت کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتا۔اس کے کئی سرحدی
مسائل بھارت کے ساتھ الجھے ہو ئے ہیں ۔پچھلے سال لداخ میں دونوں مما لک کی
فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں اور دنیا پر تیسری عالمی جنگ کے بادل
منڈلا رہے تھے۔عا لمی سفارتکاری اور امریکی اثرو رسوخ سے یہ معاملہ کسی حد
تک برف خانہ میں چلا گیا ہے لیکن خاک میں اب بھی شرارے موجود ہیں۔چین کو
علم ہے کہ امریکہ اس کے خلاف بھارت ،اسٹریلیا،جاپان،کوریا،ویت نام، اور
تائیوان کا جو حصار قائم کر رہا ہے وہ اسے معاشی طور پر نقصان پہنچا سکتا
ہے لہذا اس نے وقتی طور پر خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔اس وقت ہماری
دلجوئی کیلئے چین کا بھارت کے خلاف کھل کر سامنے آنا اتنا آسان نہیں ہے۔روس
کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس نے ماضی میں
ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہوا تھا اسے کوئی محبِ وطن پاکستانی فراموش
نہیں کرسکتا۔مشر قی پاکستان کی علیحدگی،کشمیر پر اس کے بے شمارویٹو اور
۱۹۷۹ میں افغانستان کے راستے پاکستان پر یلغار کے بعد کیا روس سے دوستی کا
ڈول ڈالا جا سکتا ہے ؟ روس دنیا کا ایک اہم ملک ہے لیکن اس کی ساری ہمدریاں
بھارت کے ساتھ ہیں۔وہ اسے کسی بھی حال میں ناراض نہیں کر سکتا۔انگلستان
،جرمنی اور فرانس نیٹو کا ممبر ہو نے کی وجہ سے امریکہ کی ناک کا بال ہیں
جبکہ امریکہ بھارت کے ساتھ ہے لہذا ہم کس سے منصفی چائیں۔؟
یوکرائن پر روس کی حالیہ چڑھائی کے بعد پورا یورپ امریکہ کی جانب دیکھ رہا
ہے ۔کیونکہ یورپ پ کی اپنی سلامتی خطرے سے دوچار ہے۔ امریکہ بہادر نیٹو کے
پلیٹ فارم سے یورپ کی سلامتی اور بقا کاضا من بنا ہو اہے۔یوکرائن پر روسی
یلغار نے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔دوستی کا وہ قدم جو
پاکستانی ریاست روس کی جانب بڑھانے کا ارادہ رکھتی تھی یوکرائن کی جنگ نے
بے اثر کر کے رکھ دیا ہے ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان یورپ اور
امریکہ کو ناراض کر کے روس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ کیوں بڑھائے جبکہ روس کا
ماضی پاکستان کے جسم پر بے شمار زخموں کی صورت میں بڑا عیاں ہے۔روس کی جانب
دوستی کا ہاتھ بڑھانا پاکستان کی نظریاتی اساس کو کمزور کرنے کے مترادف ہے
۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ کشمیر (پاکستان کی شہ رگ ہے
)لیکن باعثِ حیرت ہے کہ روس نے کشمیر پر ہمیشہ ویٹو کا بے دریغ استعمال کر
کے ہماری شہ رگ کو بھارت کے سفاک ہاتھوں میں تھمایا ہوا ہے ۔روس کسی بھی
حالت میں بھارتی حمائت سے دست بردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔کشمیر ہماری
شہ رگ ہے اور ہمیں اپنی سلامتی اور بقا کی خاطر کشمیر درکار ہے لیکن روس
کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور جب ہم سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ
پیش کرتے ہیں تو وہ بڑی ڈھٹائی سے ویٹو کر دیتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ کیا
ایسے حالات میں روس سے دوستی ممکن ہے؟ کوئی صاحب عقل و دانش روس ے دوستی کا
قصد کیسے کر سکتا ہے؟تاریخ کی ننگی سچائی کے باوجود اگر کوئی قائد روس کو
اپنی آنکھ کا تارا بنانا چاہتا ہے تو اس سے اظہارِ ہمدردی ہی کیا جا سکتا
ہے۔جس ملک نے کشمیر کے مسئلے کو حل نہ ہونے دیا وہ روس ہے ۔روسی ہٹ دھرمی
کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ آج تک الجھا ہوا ہے ۔ کشمیری جانیں لٹاتے
رہے،شہید ہو تے رہے،زنجیروں کے ہار بناتے رہے ، بھارت سفاکیت کے سامنے سیسہ
پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوتے رہے لیکن بھارت اور روس کی باہمی رفاقت
ان کے لہو پراستعماریت کے محل تعمیر کرتی رہی۔کشمیریوں کے لہو کی پکار
آزادی ہے اور پاکستان کشمیر کی آزادی کی خاطر بھارت اور روس کی باہمی سازش
کا شکار ہے۔ کتنے نوجوان بھارتی ظلم و ستم کا نشانہ بنے ،کتنی ماؤں کے سہاگ
اجڑے،کتنے گھر جلے کتنی عصمتیں لٹیں لیکن آزادی کی صبح پھر بھی کشمیریوں کا
مقدر نہ بن سکی کیونکہ روس اور بھارت کا گٹھ جوڑھ ان کی راہ کی دیوار بنا
ہوا ہے ۔(جاری ہے )۔،۔
|