دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نظام میں تبدیلی کی ضرورت

برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر کیا تھا۔ نئی مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ کہا گیا۔ گزشتہ 65سال میں ہم تو اس خواب کو عملی شکل نہ دے سکے البتہ جس طرح یہاں دہشت گردی اور آگ و خون کا بھیانک رقص جاری ہے اور نت نئے طریقوں سے معصوم افراد کی جان لی جارہی ہے دہشت گردوں نے اس ملک کو اپنی تجربہ گاہ ضرور بناڈالا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خود کش بمبار، جدید اسلحہ و گولہ بارود کے استعمال کے مختلف اورانوکھے طریقے بھرپور انداز میں اپنائے جارہے ہیں۔ ان دہشت گردوں نے ہماری مملکت کا چپہ چپہ چھلنی کرکے رکھ دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انسان نما ان بھیڑیوں نے اپنے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے نہ رنگے ہوں۔ یہ دہشت گرد اتنے چیرہ دست واقع ہوئے ہیں کہ ریاست ِ پاکستان ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈال بھی دے تو تحقیقات سے لے کر عدالتوں کے چکر تک اور پھر فیصلے سے لے کر سزا پر عملدرآمد تک کسی نہ کسی مرحلے میں وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نامناسب تحقیقاتی نظام اور روایتی عدالتی کاروائیوں میں سقم انہیں پھر سے آزاد فضاﺅں میں لے آتے ہیں جہاں وہ کچھ عرصہ بعد دہشت گردی کی نئی واردات کے لئے اڑان بھرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے اخبارات کی زینت بننے والی ایک خبر ملاحظہ کیجئے۔ جس کے مطابق 2011ء کے پہلے سات ماہ کے دوران راولپنڈی کی انسداددہشت گردی کی تین عدالتوں نے 96کیسوں کا فیصلہ سناتے ہوئے ان میں ملوث 56مشتبہ افراد کو بری کردیا ۔

اس خبر کے تناظر میں ان لوگوں کی رائے میں سچائی نظر آتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے دہشت گردی کے عفریت کو اس وقت تک جڑ سے نہیں ختم کیا جاسکتا جب تک دہشت گرد مناسب قانونی کاروائی، عدالتی نظام میں سقم اور گواہوں کی عدم دستیابی یا مکرنے کے باعث رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ر ہیں گے۔ یہ اعدادو شمار تو صرف راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ہیں۔ پاکستان بھرکی دیگر عدالتوں میں صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ایک جائزے کے مطابق گزشتہ دس سال میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں پکڑے گئے دہشت گردوں کی اکثریت رہائی پا چکی ہے۔2009میں پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں 629مقدمات تھے جبکہ471ملزمان کو عدالت نے بری قراردیا۔ گزشتہ دنوں وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ گزشتہ تین سال کے دوران ملک بھر سے تین ہزار 143 دہشت گرد پکڑے گئے جن سے 4 ہزار 240 ہتھیار اور پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم برآمد ہوئی جبکہ ان سے مجموعی طور پر 56 راکٹ لانچر، 300 سے زائد کلاشنکوفیں، 3 ہزار سے زائد رائفلیں اور دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔ درجنوں خود کش جیکٹیں، ایک ہزار سے زائد ہینڈ گرنیڈز، ہزاروں کلو گرام دھماکہ خیز مواد اور خود کش حملے میں استعمال ہونے والا دیگر سازو سامان برآمد کیا گیا۔

جب تک دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد ملزمان اور مشتبہ افراد کی مناسب تحقیقات، عدالتوں کے ذریعے ان کو سزائیں اور ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔اس خواب کو عملی شکل دینے کے لئے ایک ایسے مضبوط قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں وکلائ، پولیس، جج اور تحقیقات کرنے والے افراد آزادی ، بلاخوف و خطر اور دباﺅ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں تاکہ ان دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے۔ نامناسب اور کمزور تحقیقات اور ثبوت کی عدم دستیابی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں یہ مشتبہ افراد رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک دوسری وجہ جو انتہائی تشویش ناک ہے وہ دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی تیاری کے دوران واستغاثہ اور متعلقہ افرار پر دباﺅ بھی ہے۔ ان ذمہ داریوں پر مامور افراد کو غیرمناسب انتظامی اور سیکورٹی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگی کو درپیش ان خطرات کے پیش نظر ان سے فرائض کی انجام دہی کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔یہ دہشت گرد سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ اتنے بااثر اور باخبر ہیں کہ ان مقدمات کی کارروائی پر مامور ان افسروں کے خاندانوں تک کا معلوم ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں سندھ پولیس کے سابق سربراہ افضل شگری کا بیان قابل توجہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے افراد کی متعلقہ عدالتوں سے رہائی میں صرف پولیس کی جانب سے ثبوت فراہم نہ کرنا بڑی وجہ نہیں ہے بلکہ ایسے مقدمات میں گواہوں کے بیانات بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ا ±نہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں لوگ گواہیاں نہیں دیتے کیونکہ ان شدت پسندوں تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر ایسا کیا تو ان کے اور ان کے اہلخانہ کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ معاملہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے عدالتیں بھی ایسے افراد کو اس وقت تک سزائیں نہیں سناتیں جب تک ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد عدالت میں پیش نہیں کیے جاتے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں جس میں شدت پسندی کے واقعات کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ایسے مقدمات کی تحقیقات کرنے والے اداروں میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ شدت پسندی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے افراد کی رہائی سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سابق وزیر قانون اور آئینی ماہر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات کی تحقیقات کرنے والے اداروں میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ شدت پسندی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے افراد کی رہائی سے ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران جج اور ملزمان کے درمیان ایک پردہ لگا دیا جاتا ہے اور ملزمان سماعت کرنے والے جج کو نہیں دیکھ سکتے اس طرح ان مقدمات کے گواہوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات پر مامور تفتیش کاروں ، پراسیکیوٹرز اور ججوں کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔دہشت گردوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے والے ان ریاستی کارکنوں کو خفیہ اور ان کی زندگیوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ مقدمے کے چشم دید گواہوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مقدمے کے گواہوں کو تفتیش کاروں ، ججوں اور وکلاءکی طرح کے ہی خطرات کا سامنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گواہی دیتے ہوئے انتہائی خوفزدہ ہوتے ہیں یا پھر مکرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ اس تناظر میں ریاست کو چاہئے کہ وہ گواہوں کے تحفظ کے لئے خصوصی اقدامات کرے تاکہ وہ بلا خوف و خطر عدالت میں گواہی دے سکیں۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کا استعمال بھی سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ یعنی دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی کارروائی وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63145 views Columnist/Journalist.. View More