از مفتی محمداکرام صافی
اسلام آباد
نواسۂ رسولﷺحضرت حسینؓ
مقام ومرتبہ
تاریخ ولادت : شعبان 4 ہجری
نام وعقیقہ : رسول اللہﷺ نے نام حسین رکھااور شہد چٹایا۔
ان کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کر کے لعاب مبارک عطا فرمایا اور ان کا
عقیقہ کرنے اور حضرت فاطمہؓ کو ان کےبالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا
حکم دیا ۔
(مؤطاامام مالك )
والد کانام :دامادرسول، خلیفۂ چہارم حضرت علی المرتضیٰ بن ابی طالب
والدہ کانام:جگر گوشہ نبی ،خاتون جنت
فاطمہؓ بنت محمد(ﷺ)
دوسرے بہن بھائی: حسنؓ ،محسنؓ ،زینب ،ام کلثوم
رضی اللہ عنھم۔
1-حضورﷺ کے ساتھ مشابہت اور قلبی تعلق:
اپنے بڑے بھائی حضرت حسنؓ کی طرح حضرت حسینؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے مشابہ تھے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ سے
غیر معمولی محبت اور تعلق تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےوقت آپ کی عمرصرف چھ یا سات سال
تھی لیکن یہ چھ سات سال آپ کی صحبت اور شفقت و محبت میں گذرے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ نے
خاص لطف و کرم اور محبت کا برتاؤ کیا۔
2-خدمات دورفاروقی:
حضرت عمرؓ کے آخری زمانہ خلافت میں آپ نے جہاد میں شرکت شروع کی ہے،اور پھر
بہت سے معرکوں میں بنفس نفیس شریک رہے ۔
3-دورعثمانی:
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو
حضرت علیؓ نے اپنے دونوں بیٹوں حسنؓ اور حسینؓ کو ان کے گھر کی حفاظت کے
لئے مقرر کر دیا تھا ۔
4-واقعہ کربلا:
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ نے جب حضرت معاویہؓ سے مصالحت کر کے
خلافت سے دستبرداری کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت حسینؓ نے بھائی کی رائے
سے اختلاف کیا لیکن بڑے بھائی کے احترام میں ان کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا ۔
البتہ جب حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ نے یزید کی خلافت کی بیعت
لی تو حضرت حسینؓ اس کو کسی طرح برداشت نہ کر سکے اور یزید کے خلیفہ بن
جانے کے بعد اپنے بہت سے مخلصین کی رائے و مشورہ کو نظر انداز کر کے جہاد
کے ارادہ سے مدینہ طیبہ سے کوفہ کے لئے تشریف لے چلے ابھی مقام کربلا ہی تک
پہنچے تھے کہ واقعہ کربلا کا پیش آیا اور آپ وہاں شہید کر دئیے گئے ۔
رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔
تاریخ شھادت :
10 محرم الحرام 60ھجری ہے۔
اس وقت عمر شریف تقریباً 55سال تھی ۔
5-مناقب وفضائل حضرات حسنین:
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل بڑی حدی تک
مشترک ہیں اس لئے محدثین میں امام بخاری ، امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ
وغیرہم نے بھی دونوں بھائیوں کے فضائل و مناقب ایک ساتھ ہی ذکر کئے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپ کے صحابی ہونے کا شرف کیا کم
ہے؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے بہت محبت بھی
تھی ۔
شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بھائی بچپن میں حالت نماز میں آپ
کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے کبھی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں سے گزرتے رہتے اور
آپ نماز میں بھی ان کا خیال کرتے ۔
جب تک وہ کمر پر چڑھے رہتے آپ سجدہ سے سر نہ اٹھاتے ۔
(سيراعلام النبلاء )
آپ اکثر انہیں گود میں لیتے ، کبھی کندھے پر سوار کرتے ان کا بوسہ لیتے
انہیں سونگتے
اور فرماتے :انكم لمن ريحان الله
تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو ۔
(ترمذی باب ماجاء فی رحمة الوالد)
ایسے ہی ایک موقعہ پر حضرت اقرع ابن حابس رضی اللہ عنہ نے عرض کر دیا اے
اللہ کے رسول !
(صلی اللہ علیہ وسلم) میرے تو دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک کسی کا بوسہ
نہیں لیا ۔
آپ نے فرمایا:
انه من لا يرحم لا يرحم ۔
جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی من جانب اللہ رحم نہیں کیا جاتا ۔
(ترمذی باب ماجاء فی رحمة الوالد)
آیت تطہیر کے نزول کے بعد آپ نے حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ
کو اپنی ردائے مبارک میں داخل فرما کر اللہ سے عرض کیا :
اللهم هؤلاء اهل بيتى فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا ۔
ترجمہ:اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے گندگی کو دور فرما دیجئے اور پاک
و صاف کر دیجئے ۔
(ترمذی باب مناقب اہل بیت)
صحیح بخاری میں حضرت عدی بن ثابتؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم حضرت حسنؓ کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے تھے اور یوں دعا کر رہے تھے
اللهم ابنى احبه فاحبه ،
اے اللہ یہ مجھے محبوب ہے آپ بھی اسے اپنا محبوب بنا لیجئے ۔
(بخاری مناقب الحسن والحسین)
امام بخاری نے ہی حضرات حسنینؓ کے مناقب میں حضرت ابن عمرؓ کا قول نقل کیا
ہے کہ ان سے کسی عراقی نے مسئلہ دریافت کیا کہ محرم اگر مکھی مار دے تو کیا
کفارہ ہے ؟۔
حضرت ابن عمرؓ نے بڑی ناگواری سے جواب دیا کہ اہل عراق مکھی کے قتل کا
مسئلہ پوچھنے آتے ہیں اور نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حضرت حسینؓ)
کو قتل کر دیا حالانکہ آپ نے اپنے دونوں نواسوں کے بارے میں فرمایا تھا ھما
ریحانتای من الدنیا ۔
یہ دونوں میرے لئے دنیا کی خوشبو ہیں ۔
(بخاری مناقب الحسن والحسین)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ سیدہ فاطمہؓ کوسيدة نساء اهل
الجنة اور دونوں بھائیوں کوسيداشباب اهل الجنة فرمایا ہے ۔
(ترمذی باب مناقب اہل بیت)
صحابہؓ خصوصاً حضرات شیخین کاطرزعمل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام خصوصاً حضرات
شیخین کا معاملہ بھی ان دونوں حضرات کے ساتھ بہت ہی لطف و عنایت کا سلوک
رہا ،
حضرت ابو بکرؓ نے ایک مرتبہ ان کو گود میں اٹھا لیا تھا بلکہ بعض روایات
میں توکندھے پر بٹھانے کا بھی ذکر ہے ۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنےدور خلافت میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا وظیفہ
بدری صحابہ کے حصہ کے برابر پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیا اور اس کی وجہ
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت بیان کی ۔
حالانکہ یہ دونوں حضرات ان کے دور خلافت کے آخر میں بھی بالکل نوجوان ہی
تھے۔
حضرت عمرؓ کی خلافت کا ایک واقعہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم میں
منبر رسولﷺپر کھڑے خطبہ دے رہے تھے حضرت حسینؓ آئے اور حضرت عمرؓ کو مخاطب
کر کے کہا ، میرے باپ (نانا جان) کے منبر سے اترو اور اپنے والد کے منبر پر
جا کر خطبہ دو ، حضرت عمرؓ نے کہا میرے باپ کا تو کوئی بھی منبر نہیں ہے یہ
کہا اور ان کو اپنے پاس منبر پر بٹھا لیا اور بہت اکرام اور لطف و محبت کا
معاملہ کیا ۔
انہیں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں یمن سے کچھ حلے (چادروں کے جوڑے)آئے ،
آپ نے وہ صحابہ کرامؓ کے لڑکوں میں تقسیم کر دئیے اور حضرات حسینؓ کے لئے
ان سے بہتر حُلے منگوائے اور ان دونوں بھائیوں کو دئیے اور فرمایا اب میرا
دل خوش ہے ۔
یہ دونوں بھائی اگرچہ کثیر الروایت نہیں لیکن پھر بھی براہ راست رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والدین سے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نقل کرتے ہیں ۔
حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں بھائی بہت ہی عبادت گزار تھے ، دونوں نے
بار بار مدینہ سے مکہ تک پیدل سفر کر کے حج کئے ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء)
اللہ کے راستہ میں کثرت سے مال خرچ کرتے تھے ۔
جود و سخاوت ، ماں باپ اور نانا جان سے وراثت میں ملی تھی ۔
رضی اللہ عنہما وارضاہما ۔
6-مناقب سیدناامام حسینؓ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کے بارے میں فرمایا:
حسين منى وانا من حسين
ترجمہ :حسین میرے ہیں اور میں حسین کا ۔
اور فرمایا:احب الله من احب حسينا
ترجمہ :جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے ۔
فرمایا:حسين سبط من الاسباط۔
ترجمہ : حسین میرے ایک نواسے ہیں ۔
(ترمذی باب مناقب اہل بیت)
حسين منى وانا من حسين کے کلمات انتہائی محبت ، اپنائیت اور قلبی تعلق کے
اظہار کے لئے ہیں ۔
رضی اللہ عنہ وارضاہ
مفتی محمداکرام صافی
|