آپریشن کمل : ناکامیوں کی ہیٹ ٹرک

ہیمنت سورین کو سیاست اور بدنامی دونوں وراثت میں ملی ۔ان کے والد شیبو وزیر اعلیٰ تھے اوران پر بھی بدعنوانی کے الزام لگا تھا ۔ شیبو کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی ہیمنت کا کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا ۔ سورین کے علاوہ ریاست اڑیسہ کی رہنے والی سابق استانی 64 سالہ دروپدی مرمو کو بی جے پی کے ساتھ کئی دہائیوں کے تعلق نے صدر مملکت بنادیا۔ دروپدی مورمو اڑیسہ کے میوربھنج ضلع میں ایک غریب قبائلی خاندان کے اندر پیدا ہوئی تھیں۔ گریجویشن کرنے کے بعد درس و تدریس کے بعد اڑیسہ کے سکریٹریٹ میں ملازمت کی ۔ 1997 میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر میونسپل کونسلر منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور تین سال بعد وہیں سے بی جے پی کی رکن اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ 2000 میں اڑیسہ کے اندر کانگریس کو بیجو جنتا دل نے شکست سے دوچار کردیا اور بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔ اس وقت مرکز میں اٹل بہارہ واجپائی وزیر اعظم تھے اورمرمو کو اڑیسہ میں ریاستی وزیر بنایا گیا تھا ۔ اپنی کارکردگی کی بناء پرا نہیں 2007 میں اڑیسہ کے بہترین رکن اسمبلی کے ا عزاز سے نوازہ گیا۔

مودی جی نے انہیں 2015 میں جھارکھنڈ کا گورنر نامزد کردیا ۔ اس وقت جھارکھنڈ میں بی جے پی کی سرکار تھی ۔ مرمو کے عروج کا سفر بی جے پی ریاستی شکست کے باوجود جاری رہا اور صدارت تک پہنچا ۔ دروپدی مرمو نے اپنی نامزدگی کے بارے کہا تھا کہ ایک قبائلی عورت کی حیثیت سے،انہوں نے کبھی اتنے اعلیٰ عہدے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے سارے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں تو ایک قبائلی سیاستداں جو گورنر تک کے عہدے پر فائز رہی ہوں صدر بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟ اس ایک جملے میں ملک اندر قبائلی طبقات کے ساتھ کیے جانے والے نارواسلوک کی داستان پوشیدہ ہے۔ مرمو کا یہ بیان نا قابل یقین تھا کہ انھیں ٹیلی ویژن سے اپنی نامزدگی کے بارے میں معلوم ہوا اور اس خبر نے انھیں ’حیران‘ اور ’خوش‘ کردیا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ بغیر مشورے اور توثیق کے کردیا جائے لیکن بی جے پی کے ذریعہ ایسی نوٹنکی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

دروپدی مرمو کے نام کا جس وقت اعلان ہوا تو ساتھ میں ایک ویڈیو بھی جاری ہوئی جس کے اندروہ اپنے محل نما کوٹھی میں جھاڑو لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اندھے بھکتوں کے علاوہ کوئی احمق ترین انسان بھی یقین نہیں کرسکتا کہ ایک سابق گورنر اپنے گھر میں جھاڑو لگائے گی اور ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے یہ کام جاری ر گی تاکہ دنیا بھر میں اسے پھیلا کر وزیر اعظم کے احسانمندی کی تعریف و توصیف کی جائے۔ اس کے ساتھ مودی جی کا یہ اعلان بھی نشر ہوگیا ’ وہ ’پراعتماد‘ ہیں کہ دروپدی مرمو ایک ’عظیم صدر‘ بنیں گی یعنی بہترین ربر اسٹامپ جو ان کی مرضی کےمطابق اپنے پیش رو رام ناتھ کووند کی مانندہمیشہ سر تسلیمِ خم رکھے۔ صدارتی الیکٹوریل کالج کے اندر آج بھی بی جے پی بلکہ این ڈی اے بھی اقلیت میں ہے۔ ایوان بالا میں اس کے جملہ 91؍ ارکان ہیں کیونکہ کئی صوبائی حکومتوں کی باگ ڈور شاہ جی کی ساری خریدو فروخت کے باوجود حزب اختلاف کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے بی جے پی کو ایک ایسا امیدوار درکار تھا جس کے نام پر کچھ اضافی ووٹ بہ آسانی مل جائیں اور وہی ہوا ۔ اس منصوبے میں دروپدی مرموکو آلۂ کار بنایا گیا ۔

اڑیسہ میں ان کو ’مٹی کی بیٹی‘ قرار دیا گیا تو تمام سیاسی جماعتوں کوان کا خیر مقدم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کے لیے بھی دھرم سنکٹ آگیا ۔ ممتا بنرجی کا پائے استقلال بھی لڑکھڑانے لگا حالانکہ حزب مخالف کے امیدوار یشونت سنہا کا تعلق ٹی ایم سی سے تھا ۔ خیر اس سازش اور لالچ کے نتیجے میں دروپدی مرمو کے 1,086,431 ووٹوں میں سے 5,77,777 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئیں جبکہ اپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا کو 2,61,062 پر اکتفاء کرنا پڑا۔عزت مآب دروپدی مرمو کو صدر بناکر بی جے پی عنقریب گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں قبائلی رائے دہندگان کو رجھانا چاہتی ہے۔ ان چار ریاستوں میں 128 اسمبلی نشستیں درج فہرست ذاتوں یا قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں یعنی وہاں سے اسی طبقہ کا امیدوار لڑے گا اور کامیاب ہوگا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی وہاں صدر مملکت کو انتخابی مہم میں بھیج نہیں سکتی۔

گزشتہ انتخابات کے نتائج گواہ ہیں کہ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں پر مشتمل بی جے پی کی حالت ان حلقہ ہائے انتخاب میں خراب ہے۔ اس کو صرف 27فیصد یعنی 35 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ ویسے اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے97؍ اسمبلی حلقوں میں بھی قبائلی آبادی کا غلبہ ہے ۔ اس لیے بی جے پی کینچوے کی مانند صدارتی عہدے کا استعمال کرکے قبائلی رائے دہندگان کو اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہے۔ اسے توقع ہے کہ دروپدی مرمو کے صدر بننے سے قبائلیوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔ موجودہ نظام میں صدر مملکت کا عہدہ ووٹ بٹورنے کا وسیلہ نہیں ہے۔ صدر کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اگر حکومت آئین اور جمہوریت کے خلاف کوئی کام کرے تو وہ اس کو نہ صرف متنبہ کرے بلکہ ضروری قدم بھی اٹھائے لیکن دروپدی مرمو سے ایسی توقع کرنا دن میں تارے دیکھنے جیسا ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سال میں تو ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا اور آئندہ بھی امید نہیں ہے۔

بی جے پی والے ایک طرف تو دورپدی مرمو کی مدد سے قبائلی عوام کو رجھانے کی کوشش کررہے ہیں مگر دوسری جانب جے ایم ایم کی زیرقیادت جھارکھنڈ حکومت کو گرانے میں مصروف ہیں ۔ دہلی میں آپریشن کمل کی ناکامی کے بعد جھارکھنڈ میں یہ کھیل جاری ہے۔ الیکشن کمیشن (ای سی)نے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 9 اے کے تحت بطور ایم ایل اے نااہل قرار دینے کی سفارش کردی ہے۔ یہ قانون حکومت کے ساتھ "مفادات کے ٹکراؤ” یا "عہدے کا غلط استعمال”کے لیے منتخب نمائندوں کو کسی بھی معاہدے میں شامل ہونے سے منع کرتا ہے لیکن مودی راج میں اس کا اطلاق صرف اور صرف حزب اختلاف کے رہنماوں پر ہوتا ہے کیونکہ بی جے پی والے سارے سیاستداں دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔ سورین پرالزام ہے کہ انہوں نےاپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے خود کو پتھر کی کان کولیزپر الاٹ کردیا۔ وزیر اعلیٰ ریاست کے کان کنی کے محکمے کے بھی سربراہ ہیں۔ ہیمنت سورین کو نا اہل قرار دئیے جانے کی اطلاعات کے سبب جھارکھنڈ میں سیاسی بحران کی صورتحال پیدا ہوگئی ۔
بی جے پی کی اس سازش کے جواب میں ہیمنت سورین نے اپنی پارٹی جے ایم ایم اور یوپی اےکے دیگر اتحادیوں کی میٹنگ طلب کی ہے۔ اس نشست میں کانگریس نے ہر حال میں ہیمنت سورین کا ساتھ دینے کا یقین دلایا اور یہ اعلان بھی کیا کہ 2024ء تک ان کا اقتدار برقرار رہے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ توقع کررہے تھے کہ جھارکھنڈ میں بھی مہاراشٹر کی کہانی دوہرائی جائے گی ، جے ایم ایم کے ترجمان سپریو بھٹاچاریہ نے یہ کہہ کر سنسنی پیدا کر دی کہ بی جے پی کے 16؍ ارکان اسمبلی ان کی پارٹی کے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے اس کی وجہ اپنی قیادت سے سخت ناراضی بتائی۔ اسی کے ساتھ ہیمنت سورین نے بی جے پی مرکزی حکومت اور ایجنسیوں کے ذریعہ مسلسل ہراسانی کا الزام لگادیا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی ایجنسی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے کیوں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔ سورین نے نا اہلی کی صورت میں جھارکھنڈ میں سرکار کے متبادل انتظام کی تیاری کے یقین کا بھی اظہار کیا ۔جے ایم ایم نے عدالت سے رجوع کرنےکی تیاری سے بھی مطلع کیا ۔بی جے پی کی سازش کے جواب میں اپنی مدافعت کے بجائے جے ایم ایم نےگورنر پر زور دیا کہ وہ قیاس آرائیوں کو ختم کریں اور اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی رپورٹ ہے تو اسے پبلک کرکے اپنے فیصلے کا اعلان کریں کیونکہ عدم استحکام کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں پڑ یں گی۔

بی جے پی والے عدم استحکام کا ماحول پیدا کرکے کمزور لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہے لیکن سورین کی قیادت والی جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو اعتماد کے ووٹ میں81؍ کے اندرسے 48؍ ووٹ حاصل کرلیے۔ ایسے میں بلند بانگ دعویٰ کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کو 26؍ ایم ایل اے کے ساتھ واک آؤٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس طرح وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے بی جے پی کے دباو کو ختم کرنے کے لیے اسمبلی کے اندر اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے اپنا سیاسی قد بڑھالیا۔اس کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سورین نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر جمہوریت کو تباہ کرنے اور ’’قانون سازوں کی ہارس ٹریڈنگ‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا ’’ ہم نے سنا تھا کہ لوگ راشن، کپڑے اور سبزیاں خریدتے ہیں۔ لیکن بی جے پی والے ایم ایل اے خریدتے‘‘۔ مہاراشٹر میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدآپریشن کمل بہار، جھارکھنڈ اور دہلی میں اپنی ناکامی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرچکا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ کیا ملک کے قبائلی عوام دروپدی کے سبب بی جے پی کو ووٹ دیں گے یا سورین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے ناراض ہوکر اس کو سبق سکھائیں گے ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449114 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.