شکار اور شاہکار

ریاست ہویاریاستی ادارے ہوں ،جس وقت تک مثبت تبدیلی کاآغازان کے اندر سے نہیں کیاجائے گااُس وقت تک نظام کابدلنا خارج ازامکان ہے۔یادرکھیں کسی کھیت کے اندر دندناتے" سور" سے زیادہ معاشروں اور انسانوں کے اندربنے" ناسور" خطرناک ہوتے ہیں۔ریاست سمیت ریاستی اداروں اورسیاست کوہر قسم کے اندرونی ناسوروں سے پاک کرنا ہوگا ۔جس طرح ہمارے اہل سیاست ہماری ریاست میں رائج فرسودہ نظام کی تبدیلی کے حق میں نہیں اس طرح پچاسی فیصد پی ایس پی ،پی اے ایس، پی ایم ایس اورپی سی ایس بھی اپنے اپنے" شعبہ "میں "شعبدہ بازی" کے سوا کچھ نہیں کررہے،وہ آئی جی پی فیصل شاہکار کی طرح اپنے ناقص تجربات کی آڑ میں محکموں کاحلیہ مزید بگاڑ دیتے ہیں ۔میں پندرہ فیصد کے سواباقی" پی ایس پی" حضرات کو"پیراشوٹر پولیس" کہتا ہوں کیونکہ یہ محکمہ پولیس کے وردی پوش جانبازو ں کواپنے مذموم مفادات کیلئے "استعمال" اوران کا"استحصال" کرتے ہیں۔یہ طبقہ پولیس کلچر کی تبدیلی کوا پنی اجارہ داری کیلئے ضربِ کاری سمجھتا ہے۔پنجاب پولیس کا "بڑا " اپنے اختیارات کے بل پربڑی جبکہ "چھوٹا" تھانیدارچھوٹی کرپشن کرتا ہے لیکن ایس ڈی پی او سے اوپرکسی کوسزانہیں ملتی ،شاید"پی ایس پی" کو مقدس گائے اورانہیں احتساب سے مستثنیٰ ڈکلیئر کردیا گیا ہے ۔پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں نیک نیت،نیک نام اورپروفیشنل پی ایس پی آفیسرز بھی ہیں تاہم ان قابل رشک آفیسرز کاوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ایس پی،پی اے ایس، پی ایم ایس اورپی سی ایس سے وابستہ زیادہ ترآفیسرز اختیارات اور مراعات کیلئے سکیورٹی فورسز یاسول سروسزکا رخ کرتے ہیں۔یہ طبقہ" کام کاج" نہیں بلکہ "راج" کرنے کیلئے ان محکموں کاانتخاب کرتا ہے۔یادرکھیں جہاں پیسہ پیشہ بن جائے وہاں زندہ انسانوں کے ضمیر مردہ ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ "کماؤ" عہدوں پر" تقرریوں" کے بعد اپنی" تقریروں" میں جوکچھ فرماتے ہیں وہ لفاظی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دوران ملازمت انہیں ملامت، ندامت یاہزیمت سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ معاشی طور پران کی حالت بدل جاتی ہے جبکہ ان کے انڈر کمانڈ محکمے بدسے بدتر ہو تے چلے جا تے ہیں۔

مٹھی بھر کرداروں کے سوا ایساکوئی نہیں جس کی ایمانداری اورفرض شناسی کاریفرنس دیاجاسکتا ہو ۔جوآفیسربی اے ناصر،فیاض احمددیو،شہزاداکبر ،اشفاق احمدخان،شہزادہ سلطان،کامران عادل،رائے بابر سعید،ساجدکیانی ،منتظر مہدی ،محمدنوید اوردوست محمدکی طرح منصف اور اعلیٰ درجے کے" منتظم "ہوتے ہیں، ان کی قابلیت،قیادت اورعزت نفس" منتقم "مزاج حکمرانوں کیـ "انا" کے ہاتھوں" فنا" ہوجاتی ہے۔ کامران عادل کو ٹرانسفر ہوئے کئی روز بیت گئے ہیں لیکن راقم کے نزدیک لاہور میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کا آفس ابھی تک" خالی" ہے۔کامران عادل کے چلے جانے سے لاہورپولیس کا انوسٹی گیشن ونگ بدانتظامی اوربدنظمی سے دوچار ہے ۔بی اے ناصر،فیاض احمددیو،غلام محمودڈوگر،اشفاق احمدخان،کامران عادل،افضال احمدکوثر،شہزاداکبر،رائے بابرسعید ،شہزادہ سلطان،خرم علی شاہ،رفعت مختارراجا،طیب حفیظ چیمہ،طارق عباس قریشی،کیپٹن (ر)لیاقت علی ملک،محمدنوید،فیصل شہزاد،صہیب اشرف،منتظر مہدی اوردوست محمد سے سنجیدہ ،فہمیدہ اور پروفیشنل آفیسرز محکمہ پولیس کے ماتھے کاجھومر ہیں،ان کاکوئی متبادل نہیں۔انہیں جہاں بھی تعینات کیا گیا انہوں نے وہاں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔کامران عادل کوسی پی اومیں محدود کر کے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کوزنگ آلود نہ کیاجائے ۔ کامران عادل دوبار لاہورمیں دومختلف عہدوں پر تعینات ہوئے اور دونوں بارانہوں نے بیانات کی بجائے اقدامات پرفوکس کیا۔کامران عادل کے نزدیک اخبارات میں زندہ رہنا اہم نہیں بلکہ وہ دوررس اصلاحات کے بل پر شہریوں اوراہلکاروں کیلئے آسانیاں پیداکر نے کے حامی ہیں ۔دوبار بحیثیت ڈی آئی جی آپریشنز لاہورڈیلیورکرنیوالے باصلاحیت،عزت دار اورباوقار اشفاق احمدخان بھی مردمیدان ہیں ان سے فیلڈ میں کام لیاجائے۔ اپنے ماتحت آفیسرز کوعزت دینے اوران میں خوداعتماد ی پیداکر نے میں اشفاق احمدخان کاکوئی ثانی نہیں ۔ لاہور کے سی سی پی اوغلام محمودڈوگراورڈی آئی جی آپریشنز افضال احمدکوثردونوں دن رات آپریشن ونگ کومنظم اورمتحرک کرنے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ انوسٹی گیشن ونگ عدل وانصاف کیلئے کسی" کامران عادل" ثانی کامنتظر ہے ۔لاہور کی سطح پر مقدمات بروقت درج ہورہے ہیں،اس کاکریڈٹ غلام محمودڈوگر اورافضال احمدکوثر کوجاتا ہے۔فرنٹ ڈیسک پربیٹھے مستعد اہلکاروں کو شہریوں کی خدمت کرتے ہوا دیکھتا ہوں تولاہور میں کیپٹن (ر)محمدامین وینس کے یادگار دورکی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔لاہور کے سابقہ سی سی پی او اورایڈیشنل آئی جی کیپٹن (ر)محمدامین وینس اب محکمے میں نہیں رہے لیکن آج بھی ان کاکام بولتا ہے ۔افضال احمدکوثر کی پیشہ ورانہ مہارت، ذہانت اور مداخلت کے نتیجہ میں اب ایس ایچ اوزاپنے ٹیم ممبرزکے ساتھ شاہراہوں پر ملزمان کاتعاقب اور فرض کی بجاآوری کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لاہور کے سی سی پی اواورڈی آئی جی آپریشنزنے تھانوں میں شہریوں کے ساتھ اہلکاروں کے منفی رویوں میں خاطرخواہ تبدیلی کواپنی ترجیحات کامحورومرکز بنا لیا ہے۔درویش اورباریش رفیع اﷲ خان اور ظہیرالدین بابر سے آفیسر لاہور پولیس کیلئے سرمایہ افتخار ہیں۔

فلم کی طرح سیاست میں بھی کچھ عناصر "مہمان اداکار" ہوتے ہیں، ان کاکردار بہت مختصر ہوتا ہے۔چند ماہ کی مہمان حمزہ حکومت نے پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی کوسیاسی طورپرکچلنا تھا لہٰذاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر سی پی او سے سی سی پی او آفس تک اپنے وفادار اورفرمانبردارآفیسرز کوتعینات کیا گیا ۔حمزہ حکومت کی رخصتی کے نتیجہ میں سی سی پی اولاہور ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اورآر پی اوگجرانوالہ کے دفاتر میں براجمان آدم بیزار آفیسرز سے نجات ملنا خوش آئند ہے تاہم آئی جی فیصل" شاہکار" ابھی تک اپنے کسی نہ کسی متنازعہ اقدام سے پنجاب پولیس کے وقارکاـ"شکار "کررہے ہیں ، انہیں پنجاب پولیس کی بجائے کوئی دوسرا محکمہ تختہ مشق بنانے کیلئے دے دیاجائے۔ پولیس کی ایک پریس ریلیز میں "آئی جی پی فیصل شاہکارکے ویژن"کی روشنی میں خواتین کولاہور کے تھانوں میں ایس ایچ او اور انچارج انوسٹی گیشن مقرر کرنے کا مژداسنایا گیا،یقینا یہ عاقبت نااندیشانہ اقدام لاہورپولیس کو"پژمردہ" بنادے گا،میں سمجھتاہوں جو شخص" وزن" میں بہت ہلکاہو اس کا" ویژن" سے کیا واسطہ ہوسکتا ہے ۔ عرض ہے جس معاشرے میں ایک خاتو ن دوسری خاتون کی سپرمیسی تسلیم نہیں کرتی وہاں مردپولیس اہلکار ایک خاتون کے ماتحت کس طرح اچھی کارکردگی کامظاہرہ کرسکتے ہیں، اس طرح تھانوں میں گھٹن اورکرپشن بڑھ جائے گی ۔جوخاتون چندخواتین پرکمانڈ نہیں کرسکتی اسے مرداہلکاروں کاکمانڈر مقررکرنا احمقانہ خیال ہے،اس فتنہ انگیزی اورشعبدہ بازی سے گریزکیاجائے۔جہاں پنڈی ڈویژن میں پانچ عددپی ایس پی اپنے آرپی او اخترعمر حیات لالیکا کوسلیوٹ کرنااپنی ہتک محسوس کرتے رہے ہوں وہاں مرد اہلکاروں کیلئے خاتون ایس ایچ اویاانچارج انوسٹی گیشن کوسلیوٹ کرناآسان نہیں ہوگا۔وہ معاشرہ جہاں "رن مرید "کاطعنہ عام ہووہاں ایساکوئی تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ عورتوں کوانصاف کی فراہمی کیلئے خواتین کے مخصوص تھانوں کاقیام بہتر رہے گا،جہاں صرف خواتین اہلکار تعینات ہوں اوروہاں آنیوالی ہر سائل خاتون ہرطرح کے موضوعات پربات کرتے ہوئے آسانی محسوس کرے ۔ باہمت خواتین کی تھانوں میں بیٹ آفیسر یاتفتیشی کی حیثیت سے تقرری زیاد ہ مناسب ہوگی لیکن کوئی خاتون کسی سطح پرمرداہلکاروں کو کمانڈ نہیں کر سکتی،اگر خواتین کمانڈ کرسکتی ہیں تو پھرفیصل شاہکار کی بجائے کسی خاتون آفیسرکوآئی جی پی کیوں نہیں لگادیاجاتا۔ہماری خواتین بہت باصلاحیت اورباہمت ہیں لیکن اسلامی معاشرے میں سکیورٹی فورسز کی کمانڈ ان کے بس کی بات نہیں ۔فیصل" شاہکار" پنجاب پولیس کے جوانوں کی محرومیاں دورنہیں کرسکتے توان کا"شکار" بھی نہ کریں کیونکہ وردی پوش اہلکار کفن پوش بنتے جارہے ہیں،پنجاب میں سات روز کے اندرتین پولیس اہلکاروں کا مالی اورمحکمانہ مسائل کے نتیجہ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنا اندوہناک اورتشویشناک ہے۔اگرفیصل شاہکار مزید دوچار ماہ سی پی اومیں براجمان رہے توخدانخواستہ مزید جوانوں کے جنازے اٹھ سکتے ہیں۔اچھی قسمت انسان کوبلڈوز ر کے پہیوں سے توبچاسکتی ہے لیکن بددماغ ،بدمزاج اوربدزبان آفیسرز کے آمرانہ رویوں سے بچنا محال ہے۔ شرپسندعناصر کی" گولیاں "اوربارودی سرنگیں کسی باوردی اہلکار کوفرض کی بجاآوری سے نہیں روک سکتیں لیکن اپنے آفیسرز کی "گالیاں" انہیں چھلنی کردیتی ہیں۔پنجاب پولیس کوایک تازہ دم کمانڈر کی ضرورت ہے جواپنے فرض شناس جوانوں کا نبض شناس ، ہمراز اورکسی ہم دم کی طرح ہرامتحان اوربحران میں ان کابھرپورساتھ اورانہیں حوصلہ دے ۔

 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 147 Articles with 106479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.