کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کہ
وزیر اعظم کی آمد پر ایک جعلی اسکول خصو صی طور پر تیا ر کیا گیا ہو اور
وزیر اعظم صا حب کی آنکھوں میں دھول جھو نکا گیا ہو حقیقت یہ ہے کہ اس
اسکول میں نہ کو ئی طا لب علم ہے نہ کو ئی استا د ۔ جی ہاں! یہ دعو یٰ ایک
نجی ٹی وی سے اس وقت کیا گیا ہے جب ضلع بدین میں بڑے پیما نے پر سیلا ب کی
تبا ہ کا ریا ں پھیلی ہو ئی ہیں سینکڑوں لوگ بے گھر ہو ئے ہیں اور اسی
سلسلے میں وزیر اعظم صا حب نے بدین میں قائم ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا تو
انتظا میہ نے وزیر اعظم صا حب کو ایک اسکول کا دورہ بھی کر ایاجہا ں متا
ثرین سیلا ب کے لیے ر ہا ئش اور ان کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کی سہو لت دی
گئی ہے یہ اور با ت ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کے دودن بعد اس اسکول میں جا
نورں کو رہا ئش گا ہ بنا دیا گیا شا ئد ایسا ہو سکتا ہے کیو نکہ پچھلے سال
پورے ملک میں آئے ہو ئے بد ترین سیلا ب کے دوران گیلا نی صاحب کو جعلی
کیمپوں کی سیر کر ائی گی تھی اور میا نوالی میں جعلی ہسپتا ل کا دورہ بھی
کر ایا گیا تھااس طر ح کے نجا نے کتنے واقعات ہوں گے جو عام لو گوں کی
نظروں سے او جھل ہو ں گے لیکن حیرانی کی با ت ہے کہ واقعی گیلا نی صا حب اس
سارے واقعے سے لا علم ہیں یا ان کے سرکا ری افسران انھیں دھو کہ دینے کی
ہمت و جرات رکھتے ہیں اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ہما ری بیو رو کر
یسی کتنی بہا در اور نڈر ہے بیوروکر یسی کی ان شا طرانہ چا لوں کے بارے میں
ایک سیلا ب کی آفت میں پھنساسیدھا سادا کسان کیا جان سکتا ہے کہ ان محکموں
میں کیسے کیسے گو ہر نا یا ب اذہا ن بھرے پڑے ہیں جو بندے کو بیچ دیں تو
بھی اسے پتہ نہ چلے ۔اسی با رے میں ہما رے ایک قلم کا ر نے لطیفہ تحریر کیا
تھا کہ ایک خان نے کھیتوں میں کام کر تے ہو ئے کسان کو بتا یا کہ کیا تمھیں
معلو م ہے پا کستان بن گیا ہے اور ہم آزاد ہو گئے ہیں کسان نے سر اٹھا کے
خان کو دیکھا اور پو چھا کہ کیا انگر یز چلے گئے ہیں خا ن نے کہا بلکل اب
کو ئی انگر یز حکمراں نہیں ہے اس پر کسان نے بہت خوش ہو کر پو چھا کہ کیا
انگریز پٹواری کو بھی ساتھ لے گئے خان نے کہا کہ نہیں پٹورای تو اپنے پٹوار
خانے میں مو جو د ہے اس پر کسان ما یو سی سے بو لا تو پھر خان یہ آزادی کہا
ں ہے ۔قیام پا کستان کے وقت صرف پٹواری حاکما نہ وجود کے ساتھ ان کسانوں کے
سر پر مو جو د رہتا تھا لیکن پا کستا ن بنے ان چو نسٹھ سالوں میں آج حالت
یہ ہے مز ید کئی محکمے پٹواری کی مدد کو موجود ہیں جو اپنا حصہ با قا عدگی
سے وصول کر تے ہیں ہر سال آنے والا سیلا ب جہا ں ان کا شتکا روں کی مشکلو ں
میں ا ضافہ کر تا ٰ ہے وہا ں محکمہ آبپا شی اور سیڈا کے ذمہ دار حکام اور
اہلکا روں کی چا ندی ہو جا تی ہے سیلا ب کے دوران با اثر افراد کی جانب سے
اپنی املا ک کو بچا نے کے لیے دوسرے علا قوں کو پا نی کی نذر کرنے سے لے کے
امدادی سامان لو ٹنے تک سب کام بخیرو بخوبی انجام پا تے ہیں ۔
دوسری جانب حال یہ کہ بھوک سے بے حال پھٹے ہوئے چھیتڑے نماکپڑے پہنے ، سر
پر کو ئی سا ئبا ن نہیں یہ ان لو گوں کا نو حہ ہے جو حالیہ با رشوں سے در
بدر ہو ئے ہیں کئی دنوں سے بھوک پیاس کے ستا ئے لو گو ں کی اذیت کا احسا س
بھرے پیٹ لو گ کیا جا نیں وزیر اعظم کے دورے کے بعد جو منا ظرٹی وی پر
دیکھنے کو ملے اس اندازہ ہو تا ہے کہ لو گ لا ئن لگا کر امداد لینے کا تکلف
کیسے کر سکتے ہیں انھیںتو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک
کی اشد ضرورت تھی خوراک کی کمی کے با عث لوگ سوکھی رو ٹی اور پا نی پی کر
روزہ رکھنے پر مجبور ہیں شیر خواربچوں کے لیے دودھ کی فر اہمی الگ مسئلہ ہے
علا ج کی سہولتیں نا پید ہیں عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ
سیلا ب زدہ علا قوں میں نا قص شیلٹراور پینے کے صاف پا نی کی عدم دستیا بی
کے با عث وبا ئی امرا ض پھیلنے کا خطرہ ہے حالیہ سیلا ب سے پر یشان با ئیس
لا کھ متا ثرین کی جانب سے حکو مت اور انتظامیہ کے خلا ف جگہ جگہ احتجا ج
بھی ہو رہے ہیں ۔
اس با ر سیلاب کی تبا ہ کا ریوں سے اندورن سندھ کے کئی علا قے شدید متا ثر
ہو ئے ہیں خا ص کر ضلع بدین شدید متا ثر ہو اہے بدین کے عوام کا کہنا ہے کہ
سڑک کے دونوں اطراف آبا دی پا نی میں گھری ہو ئی ہے جب بھی با رش ہو تی ہے
یہ علا قہ زیر آب آجا تا ہے یہاں کے لو گ با ر با ر حکومت وقت سے درخواست
کر چکے ہیں کہ ہم امداد نہیں مانگتے خدارا اس عذاب سے ہما ری جا ن چھڑا ئی
جا ئے اور اسکا کو ئی مستقل حل تلا ش کیا جا ئے یہ با ت سمجھ سے با لا تر
ہے کہ جب سالا نہ تر قیا تی فنڈ کے پروگرام سے ایک سوا کسٹھ ارب رو پے با
رش متا ثر ین کے لیے رکھے گئے ہیں تو آخر اس رقم سے کتنے امدادی کا م کیے
گئے ہیں کب تک ہر سال اس طرح در بدر کی ٹھوکر ان عوام کا نصیب بنی رہے گی
پچھلے سال سیلاب متا ثرین کے علا قوں میں بحالی کے کا م کی خاطر جو بیرون
ملک سے امداد ملی تھی اس سے کیا فلا حی کام ہو ئے اس کا نتیجہ ہم سب کے
سامنے ہے حکومت وہ بند بھی نہ بنوا سکی جو پچھلے سال سیلا ب میں ٹو ٹے تھے
نئے بند ڈیمز بنواناتو بہت دور کی با ت ہے سندھ کے صوبا ئی وزیر صادق علی
میمن نے ٹھٹھہ کے گھنگھرو علا قے میں بھیم نا لے پر پھیلی ہو ئی تبا ہی کو
دیکھتے ہو ئے کہا ہے کہ اس ڈرینج کے نظام کی مر مت ، صفا ئی اور دیکھ بھا ل
میں بڑے پیما نے پرما لی بے قاعدگی ہو ئی ہے ہر سال کر وڑوں رو پئے کے فنڈز
ملنے کے با وجود یہ نظام ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا ر ہے متا ثرہ علا قو ں میں ڈا
کٹر فہمیدہ مرزا اور ذولفقار مر زا کا علا قہ بھی شامل ہے وہا ں کے متا
ثرین ذولفقار مر زا کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کی بد دعائیں نہ
لیں ذوالفقار مرزا نے خود وہا ں پہنچ کر متا ثرین کو تسلیاں اور یقین دھا
نیاں کرا ئیں اور احتجا ج کو ختم کر ایا وہ لو گ اس لحاظ سے خو ش قسمت ہیں
جو پچھلے سال سیلا ب کی تبا ہ کا ریوں کے بعد بحالی کاکا م نہ ہو نے کی با
عث اپنے گھروں کو نہ پہنچ سکے اور ایک سال سے خیموں وکیمپوں میں زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں اور اسے اپنا نصیب سمجھ کر اس کے عادی ہو چکے ہیں ۔
وہا ں کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ قیام پا کستان کے بعد اب تک
ان کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ا ٓئی نہ کسی گوررنمنٹ نے اس کی
ضرورت محسوس کی حکومتی سیا ست داں ، بیورو کر یسی و دیگر ذمہ داروں کے لیے
یہ کما نے کا سیزن ہے وہ اس سے منحرف کیسے ہو سکتے ہیں ہمارے ارباب اختیار
اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان سب سانحوں کے با وجود اپنے گھروں میں
چین و سکون کی نیند سوتے رہیں گے کہ ہما رے گھر کو ن سا کچے کے علا قے میں
ہیں جو ان پر سیلا ب کا اثر ہو گا کو ئی مرے یا جئے ان کو کیا فرق پڑتاہے
فرق جب پڑتا ہے جب کیمرہ کوریج دے رہا ہو آخر ووٹ بنک بھی تو مضبو ط کرناہے
کہ سینکڑوں لو گ ہما رے جذبہ خیر سگالی اور دریا دلی کی داد دے رہے ہیں یہ
ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ ہمیں جو حکمران نصیب ہو ئے اس نے ذاتی مفا دات
اور خواہشا ت کے ساتھ اپنے عہدے کا حلف اٹھا یا اے کا ش! کہ وطن عزیز میں
ہر سال سیلا ب جو تبا ہ کا ریاں لا رہا ہے اسکو روکا جا سکتا ہمارا کو ئی
درد مند لیڈر قوم کے ساتھ مخلص ہو تاجو ہر مخالفت پس پشت ڈال کر نئے ڈیمز
بنا نے کا ارادہ کرلےیا وہ سارے منصوبے جو فا ئلوں میں پڑے ہیں کا ش کہ وہ
حقیقت بن جا ئیں تو پا کستا ن کی قسمت سنور جا ئے خواب دیکھنے میں کو ئی پا
بندی نہیں لیکن !کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟۔ |