امریکا افغانستان میں جنگ ہار
رہا ہے،وہ جنگ بلاواسطہ طور پر تو نہیں پر بالواسطہ طورپر(ان
ڈائریکٹلی)اپنی گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے ہار رہا ہے ۔کیونکہ ایک اندازے
کے مطابق افغان جنگ پر امریکا کاایک ہفتہ میں جو خرچ آرہا ہے وہ پاکستان کو
دی گئی اب تک کی امریکی امداد کے برابر ہے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک
خبر کے مطابق کھربوں ڈالر ریاستی قرضے تلے دبے امریکہ کی عالمی سطح پر قرض
لوٹانے کی صلاحیت یا درجہ بندی تاریخ میں پہلی بار AAAسے کم ہوکر AAپلس کر
دی گئی ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نامی ریٹنگ ایجنسی نے امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ
میں کمی کی ہے فوری طور پر اس کے اثرات یہ ہونگے کہ امریکی حکومت، کمپنیاں
اور عام صارفین کو پہلے کے مقابلے میں قدرے بلند شرح سود پر قرضے ملیں گے
چین کا اس موقع پر کہنا ہے کہ اب قرض لینے کیلیے امریکا کے اچھے دن گئے
یعنی کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڈایا کرتے تھے۔امرکا کے پاس ایک
اوپشن ایٹم بم کا بھی ہے یعنی کہ ایٹم بم افغانستان پر مار کر اس کا
ستیاناس کردے اور اپنی جان چھڑا لے مگر لیکن اس سے اس کا بھرم ختم ہوجائے
گا ،دنیاکیاکہے گی کہ طالبان جیسے مٹھی بھر لوگوں، جن کے پاس ہوائی قوت بھی
نہیں ہے ان پر ایٹم بم استعمال کیا ہے ۔ اور وہ بھرم ہی تو جسے وہ امیج کے
نام سے پکارتے ہیںجس کے زریعے امیریکا ساری دنیاپررعب جمائے بھیٹھا ہے جسے
بچانے کے لیے امریکا دوسرے سیاسی اور نفسیاتی حربے استعمال کر رہا ہے ۔
دوسری طرف اسرائیل ایک طفیلیہ جاندار کی ماند ہے یعنی ایسا جاندار جو دوسرے
جاندار پر انحصار کرتا ہے اور اسی کی بنائی ہوئی خوراک یا اس کا خون چوس کر
گزارہ کرتا ہے اور پھر جب وہ مرنے لگے تو کسی دوسرے کا رخ کرتا ہے حال ہی
میں ایک خبر آئی ہے کہ چینی فوج کے سربراہ نے پہلا تاریخی دوراہِ اسرئیل
کیا ویسے تو اس کے محرکات عرب انقلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا
بتایا جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ طفیلیہ اپنا انحصار مرتے امریکا پر سے
کم کرکے چین کی طرف بڑھا رہا ہے کیونکہ چین وہ ملک ہے جو 2016میں دنیا کی
سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گااطلاعات کے مطابق کئی یہودی ملٹی نیشنل
کمپنیاں چین میں منتقل ہوچکی ہیں خود امریکا کے کئی لاکھ لوگ چائنیز زبان
سیکھ رہے ہیں تاکہ مستقبل میں کام آسکے۔
یہ ساری باتیں تو ہوئیں یہودیوں اور عیسائیوں کی ہم مسلمان اور خاص کر
پاکستانی کیا کر رہے ہیں ہم آج بھی چین اور ایشین ٹائگرز(سنگاپوراورملائشیا
وغیرہ) جو کہ ابھرتی ہوئی مستقبل کی سپر پاورزہیں،ان کا رخ کرنے یا ان سے
تجاری و سفارتی تعلقات بنانے کے بجائے امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے
ہیں۔حالانکہ اگر ہم مسلمان اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں تو یہ بھی
کوئی ذیادہ مشکل کام نہیں کیونکہ ہم مسلمانوں میں ہر طرح کی صلاحیت موجود
ہے حال ہی میں ایک خبر کے مطابق ایک مصری مسلمان سائنسدان نے جاپان کو
تابکاری علیحدہ اور ختم کرنے کی ٹیکنالوجی ایجاد کر کے دی ہے اگر ایک
مسلمان دوسروں کے لیے اتنا بڑا کام کرسکتا ہے تو اس سے کہیں کم بس اتفاق
اور خلوص سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور پھر ترقی ہمارے قدم چومے گی ضرورت ہے
تو بس اک خواہش کی،خواہش اپنی قوم کیلئے کچھ کرنے کی۔ |