طالبان نے ایک امریکی انجینئر کی رہائی عمل میں لائی۔ جسے
انہوں نے 2020 سے یرغمال بنائے رکھا تھا جبکہ اس رہائی کے بدلے میں امریکہ
نے سنہ 2005 سے اپنی حراست میں رکھے گئے ایک افغان قبائلی رہنما یا مجرم کو
رہا کیا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی بحریہ کے سابق افسر مارک فریرچ کو
19؍ ستمبرپیر کے روز کابل ہوائی اڈے پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔بدلے میں
طالبان کے اتحادی بشیر نورزئی کو طالبان کے حوالے کیا گیا ۔ بتایا جاتا
ہیکہ بشیر نورزئی منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے
تھے۔امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انجینئر کی رہائی کے بدلے
میں ’مشکل فیصلے کرنے‘ پڑے ہیں۔60 سالہ فریرچ کو طالبان نے افغانستان پر
اگست 2021 میں دوبارہ قبضے سے ایک سال قبل یعنی 2020 میں اغوا کیا تھا۔مارک
فریرچ گذشتہ دس سال سے سول انجینئر کے طور پر کابل میں رہ رہے تھے اور وہیں
کام کرتے تھے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی انجینئر کے بدلے رہائی پانے والے
بشیر نورزئی جب رہائی کے بعد افغان دارالحکومت واپس پہنچے تو ان کا ہیرو کی
طرح استقبال کیا گیا، اور طالبان جنگجوؤں نے انکی کثرت سے گلپوشی کی۔بشیر
نورزئی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’ایک امریکی کے بدلے میری رہائی سے
دونوں ممالک کے درمیان امن قائم ہو جائے گا۔‘بتایا جاتا ہے کہ نورزئی
طالبان کے بانی ملامحمد عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990
کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی۔طالبان کے ترجمان
ذبیح اﷲ مجاہد نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ وہ کوئی سرکاری عہدہ
نہیں رکھتے تھے لیکن ’اسلحے سمیت مالی مدد فراہم کرتے تھے۔‘واضح رہے کہ
بشیر نورزئی ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام میں 17 سال تک امریکی حراست میں رہ
چکے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کے جنوب میں طالبان کے
روایتی گڑھ صوبہ قندھار میں افیون کی کاشت کا ایک وسیع آپریشن چلایا۔سنہ
2005 میں ان کی گرفتاری کے وقت انھیں دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں میں
سے ایک سمجھا جاتا تھا، جو افغانستان کی نصف سے زیادہ منشیات کی برآمدات کو
کنٹرول کرتے تھے۔سنہ 2008 میں انھیں نیویارک کی ایک عدالت نے 50 ملین ڈالر
سے زیادہ کی ہیروئن امریکہ سمگل کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر
قید کی سزا سنائی گئی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سنہ 2009 میں ایف بی آئی کی جانب سے ایک پریس ریلیز
میں بتایا گیا تھا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کیے گئے شواہد کے مطابق،
افغانستان کے سب سے بڑے اور بااثر قبائل میں سے ایک قبیلے کے رہنما بشیر
نورزئی، افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں افیون کے کھیتوں کے مالک تھے،
اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لیبارٹریوں میں افیون تیار کرتے تھے۔ان
لیبارٹریوں سے ہیروئن کو بعد میں سوٹ کیسوں اور بحری جہازوں میں چھپا کر
امریکہ میں درآمد کیا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1990 کے اوائل میں بشیر
نورزئی کے پاس نیویارک شہر میں منشیات فروخت کرنے والوں کا ایک پورا نیٹ
ورک تھا۔افغانستان پر روسی قبضے کے دوران بشیر نورزئی نے مجاہدین اور
جنگجوؤں کی اپنی فوج تیار کی، اور منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اسے
مسلح کیا۔ روسی فوج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد نورزئی نے مغربی
قندھار پر حکومت کی اور اس دوران اپنی پولیس، سرحدی محافظ اور عدالتوں کا
نظام قائم کیا جسے وہ خود کنٹرول کرتے تھے۔1980 کی دہائی میں نورزئی کی
افغان طالبان رہنما ملامحمد عمر سے ملاقات ہوئی تھی، اس وقت دونوں ایک ہی
مجاہدین کے دھڑے میں لڑ رہے تھے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ 1990 کی
دہائی کے وسط میں جب طالبان افغانستان میں اقتدار پر قابض ہوئے تب بشیر
نورزئی نے قندھار میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے طالبان کے
سربراہ قائد کا عہدہ حاصل کرنے میں ملا عمر کی مدد کی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
اس کے بعدبشیر نورزئی نے طالبان کو اسلحہ فراہم کیا، جس میں اے کے۔47
رائفلیں، راکٹ سے چلنے والے گرینیڈ لانچرز، اور ٹینک شکن ہتھیاروں کے ساتھ
ساتھ گاڑیاں اور منشیات کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا
ایک حصہ بھی شامل تھا۔ 2001 میں، جب امریکہ نے افغانستان میں فوجی آپریشن
شروع کیا تو ملا عمر کی درخواست پر نورزئی نے طالبان کو مزار شریف میں
افغانستان کے شمالی اتحاد کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے اپنے 400 جنگجو فراہم
کیے۔ایف بی آئی کے مطابق بشیرنورزئی کی جانب سے مالی اور دیگر مدد کے بدلے،
طالبان نے انھیں اپنی منشیات کی اسمگلنگ والی سرگرمیوں کو بلا روک ٹوک جاری
رکھنے کی اجازت دی۔ایف بی آئی کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ نورزئی
اور اْن کے ساتھیوں نے طالبان کی جانب سے سنہ2000 میں افیون پر پابندی کے
بارے میں پیشگی معلومات سے فائدہ اٹھایا، وہ اس معلومات کو استعمال کرتے
ہوئے افیون کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کر چکے تھے اور پابندی کے بعد جب افیون
کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو انھوں نے بعد میں زبردست منافع پر افیون فروخت
کی۔دورانِ سماعت نورزئی کو اْن کے خلاف دونوں الزامات (ہیروئن اسمگل کرنے
اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ امریکہ میں درآمد کی جائے گی ہیروئن کو تقسیم کرنے
کی سازش) کا قصوروار ٹھہرایا گیا۔اس وقت قائم مقام امریکی اٹارنی لیو ایل
ڈیسن کا کہنا تھا کہ بشیر نورزئی کے دنیا بھر میں منشیات کے نیٹ ورک نے
طالبان کی حکومت کی حمایت کی جس نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کی
پناہ گاہ بنا دیا، یہ ایک ایسا ورثہ ہے جو خطے کو عدم استحکام کا شکار کر
رہا ہے۔ اور انھیں دی جانے والی سزا نورزئی کے طویل مجرمانہ کیریئر کو
یقینی طور پر ختم کر دے گی۔‘
ادھر امریکی شہری انجینئر مارک فریرچ کی رہائی سے متعلق ان کی بہن شارلین
کاکورا کا کہنا ہے کہ انکا خاندان مارک فریرچ کی واپسی کی امید نہیں چھوڑی
تھی ۔شارلین نے اپنے ایک بیان میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت
خوش ہوں کہ میرا بھائی محفوظ ہے اور وہ ہمارے پاس گھر واپس آرہا ہے۔انکا
کہنا تھاکہ ہمارے خاندان نے ان کی واپسی کیلئے 31ماہ سے بھی زائد عرصہ سے
ہر دن دعا کی ہے۔انکا کہنا تھاکہ ’بعض لوگ اس معاہدے کے خلاف بحث کر رہے
تھے، لیکن صدرجو بائیڈن نے وہی کیا جو درست تھا۔ انھوں نے ایک بے گناہ
امریکی کی جان بچائی ہے۔‘فریرچ کے والد آرٹ فریرچ نے بھی خوشی کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم یقینی طور پر بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ بہت وقت گزر
گیا ہے۔‘واضح رہے کہ بحریہ کے اس سابق افسر کا طالبان کے ہاتھوں اغوا
امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا
رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ طالبان حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی
بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔صدرجو بائیڈن نے جنوری میں کہا تھا: ’اگر
طالبان چاہتے ہیں کہ اْن کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جائے تو انھیں
مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو
گی۔‘طالبان کے ہاتھوں بنائے گئے امریکی شہری کی رہائی کے بعد افغانستان میں
موجود مزید امریکی شہریوں کو جو گرفتار کئے گئے یا یرغمال بنائے گئے انکی
رہائی کے آثار بھی کھلتے دکھائی دے رہے ہیں اس سلسلہ میں قومی سلامتی کے
ایک سابق اہلکار ایرک لیبسن، جنھوں نے فریرچ کے خاندان کی مدد کے لیے
رضاکار کے طور پر کام کیا،ان کا کہنا ہے کہ صدرجو بائیڈن نے فریرچ کی رہائی
کیلئے جو کچھ کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ یرغمال بنائے گئے یا
گرفتار کیے گئے دیگر امریکیوں کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات
کرینگے۔‘لیبسن نے کہا کہ ’ان افراد کو امریکی ہونے کی بنا پر گرفتار کیا جا
رہا ہے اور انھیں گھر واپس آنے کیلئے امریکی حکومت کی مدد کی ضرورت
ہے۔‘امریکہ کے پاس اپنے ایک شہری کی اتنی اہمیت ہے تو اس کا مزید فائدہ
اٹھانے کی افغان حکمراں طالبان کوشش کرینگے کیونکہ افغان عوام جن دنوں جن
حالات سے دوچار ہے اسے دنیا جانتی ہے ۔ معاشی بدحالی نے مستقبل قریب میں
لاکھوں افغان شہریو ں کو ہلاکت کے دوہرائے پر لاکھڑا کردے گا جس کا اندازہ
عالمی سطح پر سب کوہے اسی لئے اقوام متحدہ کئی بار امریکہ اور دیگر ممالک
کو افغانستان کے مسئلہ پر توجہ دلائی ہے اورخطرہ کی گھنٹی کی طرف اشارہ کیا
ہے اب دیکھنا ہیکہ مستقبل قریب میں ایسے اور کوئی گرفتار یا یرغمال بنائے
شخصیتوں کے عوض مزید کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بشیر
نورزئی کی رہائی کے بدلے جس طرح امریکہ انجینئر کی رہائی عمل میں آئی ہے اس
کے بعد امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری پیدا ہوگی یا پھر
مزید اس میں بگاڑ پیدا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ امریکہ
نے ایک ایسے شخص کی رہائی عمل میں لائی ہے جسے امریکی عدلیہ نے اسے مجرم
قرار دیا تھا اور وہ جرم کی پاداش میں گذشتہ 17سال سے قید تھا ویسے بھیبشیر
نورزئی کی حراست کے بعد جو مقدمہ دائر کیا گیا ہے اسمیں کتنی سچائی ہے اور
حقیقت کیا ہے یہ طالبان اور امریکی محکمہ سراغساں ہی بہتر جاتے ہیں ۰۰۰
شاہد یہی وجہ ہیکہ دونوں جانب سے ایک اہم معاہدہ کی شکل میں دو زندگیوں کی
الگ الگ رہائی انکے افراد خاندان اورچاہنے والوں کیلئے خوشی و طمانیت ہی
نہیں بلکہ دیگر یرغمال و گرفتار مجرموں یا ملزموں کیلئے حوصلے پیدا کردیئے
ہیں کہ مستقبل قریب میں انکی حکومتیں ایسے افراد کی رہائی کیلئے عملی
اقدامات کرسکتی ہے ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ اگر کوئی واقعی خطرناک مجرم
ہے اور جس کی وجہ سے عام معصوم و قصور شہریوں کو کسی بھی قسم کا نقصان ہوا
ہے یا ہوتا ہے، اورایسے مجرموں کی رہائی ادل بدل معاہدوں کے تحت کی جاتی ہے
تو اسکا اثر دنیا کے سامنے کس طرح پڑے گا۰۰۰
درست حجاب نہ پہننے پر خاتون کی گرفتاری اور حراست میں موت۰۰ ایرانی صدر کے
خلاف امریکہ میں مقدمہ درج کرانے کا اعلان
ایران کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں دکھائی دیتا ہے ۔ گذشتہ ہفتے
شمال مشرقی صوبے کردستان سے تعلق رکھنے والی 22سالہ مہساامینی اپنے افراد
خاندان کے ساتھ تہران آئی تھی جہاں انہیں ایرانی پولیس نے درست طور پر حجاب
نہ اوڑھنے پر گرفتار کیا تھا۔گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں احتجاج بھی
ہوئے اور گذشتہ ہفتے کے دوران منظرعام پر آنے والی ویڈیوز پتہ چلتا ہیکہ
سینکڑوں کی تعداد میں لوگ تہران یونیورسٹی کے باہر جمع ہیں اور خواتین کی
زندگی اور آزادی کے حوالے سے نعرے لگا رہے ہیں۔مہسا امینی حراست کے دوران
کومہ میں چلی گئی تھیں اور پھر انکے انتقال کی خبر نے ایران میں غم و غصے
کی لہر پیدا کردی۔ مہساامینی کی موت کے بعد ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی آڑ
میں خواتین کے خلاف کاروائیوں کو روکنے کے مطالبات ایک بار پھر منظرعام پر
آنے لگے ہیں۔امینی کی موت کے بعد گریٹر تہران پولیس کے کمانڈر حسین امینی
کا کہنا ہیکہ ایرانی پولیس کے خلاف بزدلانہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ ہم یوم
حساب تک اس پر انتظار کرینگے ،لیکن ہم سیکیورٹی کے معاملات کی انجام دہی
نہیں روک سکتے۔بتایاجاتا ہیکہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران میں
مظاہرے جاری ہیں اور فارسی زبان کے ٹوئٹر پر مہسا امینی ٹاپ ٹرینڈ
رہا۔کردستان میں امینی کے جنازے اور تدفین کو ایران کے تقریباً تمام ہی
اخبارات نے پہلے صفحات پر جگہ دی ہے۔ایران سے تعلق رکھنے والے اشاعتی ادارے
اعتماد کا کہنا ہے کہ ایران کے لوگ صدمے میں ہیں اور اس بات پر سخت غصے میں
ہیں کہ مہسا امینی کے ساتھ آخر کیا ہوا ہے؟بعض مقامات پر لوگوں نے احتجاج
کرتے ہوئے حکومتی دفاتر پر پتھراؤ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔صحافتی
برادری پولیس کے خلاف اور امینی کی موت پر مختلف سرخیاں لگائی ہیں جن میں
سے ایشیا نامی اخبار نے لکھا ’ڈیئر مہسا، آپ کا نام ایک علامت کے طور پر
ابھر کر سامنے آئے گا۔اسی طرح ایک اور اخبار نے پہلے صفحے پر لکھا کہ ’قوم
مہسا کی موت پر دکھ کا اظہار کر رہی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ ایرانی حکومت ان
پولیس اہلکاروں کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتی ہے جس کے وہ ذمہ دار ہیں ۔
امریکہ میں انسانی حقوق کے کارکن شاہین میلانی نے ایرانی صدر ابراہیم ریئسی
کے خلاف مقدمہ دائر کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ جبکہ ایرانی صدر ابراہیم ریئسی
ان دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے امریکہ میں موجود
ہیں۔
|