تحریر۔ عابدہ نذر
ایاز میر معروف صحافی کے بیٹے شاہنواز نے اپنی بیوی کو قتل کر دیاانکی شادی
تین ماہ پہلے ہوئی اور مقتولہ زیادہ تر دبئی رہتی تھی کل ہی اسکی واپسی
ہوئی اور اس نے آج ایک گاڑی خریدی چک شہزاد والے فارم ھاؤس میں شاہنواز اور
اسکی والدہ جن کو ایاز میر طلاق دے چکے ہیں رہتے ہیں۔مقتولہ اس گھر میں آئی
شاہنواز سے تلخ کلامی ہوئی تو موصوف نے ورزش کرنے والا ڈپل مقتولہ کے سر پر
دے مارا اور پھر لاش کو اٹھا کر ٹب میں ڈال کر پانی کھول کر چلا گیا انکی
والدہ جو عنیی شاھد تھی اس نے پولیس کو اطلاع دی پولیس جب گھر میں آئی تو
موصوف گھر میں نہیں تھا۔کچھ دیر بعد گھر آیا تاکے کوئی ڈرامہ کرے یا پلاننگ
کے طور پر واپس آیا تو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
کہانی میں ٹوئسٹ ڈالنے کے لیے گھر کے مالی کو بھگا دیا ممکن آخر سارا مدعہ
مالی کے سر پر ڈال دیا جائے۔شاہنواز کی والدہ وہی خاتون ہے جس کے گھر میں
کام کرنے والی نوکرانی جس کی عمر چودہ سال تھی ریپ کیا ایاز میر نے جسکی
وجہ سے شاہنواز کی والدہ نے طلاق لے تھی۔ یہ کہانی ریپ والی اس دور کی ہے
جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ایاز میر ایم این اے تھے مگر ان دنوں نواز
شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ تھے اور ان پر اخلاقیات کا بھوت سوار تھا
ایاز میر سے فور استعفیٰ لیا گیا اور کہا انکوائری بھگتو اس وقت کھوسہ کے
بیٹے نے اداکارہ سپنا کا قتل کیا تو اس سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا جسکی وجہ
سے دونوں خاندان نوازشریف کے مخالف ہو گئے اور آجکل پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
پہلے کمی کمین، چھوٹے گھروں کی عورتیں قتل ہوتی تھیں کبھی غیرت کے نام پہ
تو کبھی جائیداد بچانے کی خاطر عورت کو راستے سے ہٹا دیا جاتا تھا،مگر اب
موت کی دیوی اپر کلاس پہ سائے پھیلائے بیٹھی ہے۔ دوستی پھر محبت کی شادی
اور کچھ مہینوں بعد اس کہانی کا درد ناک انجام قتل کی صورت میں سامنے آتا
ہے۔کچھ عرصہ قبل ایسا ہی ایک قتل ہوا ایک عورت کا جس کا سر ملزم نے تن سے
جدا کر دیا باپ بیٹے کو بچانے کے چکر میں رہا اگر تب ملزم جعفر کو نشانہ
عبرت بنایا جاتا تو آج ایک اور عورت محبت کے نام پہ دھوکا نا کھاتی اور جان
سے نا جاتی۔ ایک بات تو ثابت ہوئی کہ کلاس کوئی بھی ہو عورت جاہل ہے یس
پڑھی لکھی۔ محبت کی بچھی بساط پہ مات عورت کی ہی ہے۔ باپ کے بعد دوسرا وہ
مرد ہوتا ہے جسے عورت چاہتی ہے اور اس کے جوتے وہ اپنے ڈوپٹے کے پلو سے صاف
کرتی ہے۔ عورت اتنی پاگل ہے کہ اسے بس دو بول محبت کے بول دو وہ آنکھیں بند
کر کے اعتبار کرے گی اور مرد کے پیچھے چل پڑ ے گی پھر چاہے دنیا ادھر کی
ادھر ہو جائے وہ اس مرد کے لیے سارے رشتوں سے اس سماج سے لڑ جائے گی، مرد
کی محبت میں ایسے اندھی ہو گی کہ کچھ غلط ہوتا نظر ہی نہیں آئے گا اور مرد
آستین کا سانپ ثابت ہو گا، جو عورت خدا کے بعد اسے پوجتی ہے اسے ہی جینے کا
حق چھین لے گا اور ایسی درد ناک موت دے گا کہ عورت کی محبت کھڑے تماشہ
دیکھے گی، عورت پہ کیے گیا ہر وار محبت کہ منہ پہ تماچہ ہو گا۔ کب تک مرد
عورت کو محبت کے جھوٹے جال میں ہھنساتا رہے گا؟؟؟جب ہوس مٹ گئی دل بھر گیا
تو چیونٹی کی طرح مسل ڈالا۔
بس یہ ہے حثیت عورت کی؟؟؟ یہ ہے اوقات محبت کی؟؟؟
جب تک ایوانوں میں موجود حیوانوں کے ضمیر نہیں جاگتے اور انصاف کے تقاضے
پورے کرتے ہوئے مجرموں کو درد ناک سزا نہیں دی جاتی تب تک عورت محبت کے جرم
میں سزا بھگتے گی تب تک اسے موت کی وادی میں اتارا جاتا رہے گا۔ نا جانے کب
تک محبت کے نام پہ عورت سے جینے کا حق چھینا جاتا رہے گا۔ جھونپڑیوں سے نکل
کے محبت و موت محلوں میں رقصاں ہیں اب تو انصاف ہونا چاہیے۔
|